جعفر ایکسپریس حملے کے بعد بازیاب ہونے والے مسافر: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘

15 گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود بھی سکیورٹی آپریشن جاری ہے اور عسکری ذرائع کے مطابق 104 مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کے بارے میں تاحال کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔
bolan
Getty Images

ایک مال بردار ریل گاڑی رات کے گیارہ بجے سست رفتار سے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگ رہی ہے اور اس پر سوار اکثر مسافر یا تو کھڑے ہیں یا پھر تھکن سے چور فرش پر ہی سہمے بیٹھے ہیں۔

یہ غیرمعمولی منظر بلوچستان کے شہر مچھ کے ریلوے سٹیشن کا ہے اور اس مال بردار گاڑی میں سوار افراد گذشتہ نو گھنٹوں کی کہانی شاید کبھی نہ بھلا سکیں۔

اس مال گاڑی پر وہ لگ بھگ 80 خوش نصیب سوار ہیں جنھیں منگل کو دوپہر جعفر ایکسپریس پر درۂ بولان کے علاقے ڈھاڈر میں مسلح شدت پسندوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

نو بوگیوں پر مشتمل کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو جب منگل کو دوپہر ایک سے دو بجے کے درمیان حملے کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت ریل گاڑی میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔

تاہم 15 گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود بھی سکیورٹی آپریشن جاری ہے اور عسکری ذرائع کے مطابق 104 مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کے بارے میں تاحال کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔

منگل کی نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بس اتنا بتایا تھا کہ ’شدت پسند بہت سارے مسافروں کو لے کر پہاڑوں میں چلے گئے ہیں۔‘

عسکری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کی جانب سے 16 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ بی ایل اے کی جانب سے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

تاہم مچھ سٹیشن پہنچنے والے افراد نے بی بی سی کو منگل کی شام ساڑھے پانچ بجے تک، یعنی اپنی بازیابی تک کی روداد سنائی ہے۔

bolan
Getty Images
ایک مال بردار ریل گاڑی رات کے گیارہ بجے سست رفتار سے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگ رہی ہے اور اس پر سوار اکثر مسافر یا تو کھڑے ہیں یا پھر تھکن سے چور فرش پر ہی سہمے بیٹھے ہیں۔

مشتاق محمد جو تین نمبر بوگی میں موجود تھے نے منگل کی دوپہر کے اس حملے کے بارے میں بی بی سی کو مچھ سٹیشن پہنچ کر ان تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس حملے کا آغاز ’ایک بہت بڑے دھماکے‘ سے ہوا۔

اسی ٹرین کی بوگی نمبر سات میں موجود اسحاق نور اپنی اپلیہ اور دو بچوں کے ہمراہ کوئٹہ سے راولپنڈی جا رہے تھے۔ ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ٹرین کی کھڑکیاں اور دروازے ہل کر رہ گئے اور میرا ایک بچہ جو کہ میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا نیچے گر گیا۔‘

مشتاق کے مطابق ’اس کے بعد فائرنگ شرو ع ہو گئی۔ فائرنگ ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس فائرنگ کے دوران ایسا منظر تھا جو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔‘

ادھر فائرنگ اور گولیاں کوچز پر لگتے دیکھ کر اسحاق نور نے اپنے ایک بچے کو جبکہ ان کی اہلیہ نے ان کے دوسرے بچے کو اپنے نیچے کر لیا تاکہ ’اگر گولی لگے تو ہمیں لگے اور بچے بچ جائیں۔‘

اسحاق کے مطابق 'فائرنگ کا سلسلہ شاید پچاس منٹ تک رہا ہو گا۔۔۔ اس دوران ہم لوگ سانس بھی نہیں لے رہے تھے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔'

مشتاق محمد بتاتے ہیں کہ 'پھر آہستہ آہستہ فائرنگ رکی اور اس کے بعد مسلح افراد بوگیوں میں داخل ہوئے۔

bolan
Getty Images

ان کی بوگی میں مسلح لوگ داخل ہوئے اور انھوں نے کچھ لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کیے اور ان ہی میں سے کچھ لوگوں کو سائیڈ پر کرتے گئے۔

'ہماری بوگیوں کے دروازوں پر تین تین لوگ پہرے دے رہے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ 'سویلین، خواتین، بوڑھوں اور بلوچوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔'

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ آپس میں بلوچی میں بات کر رہے تھے اور ان کا لیڈر انھیں بار بار کہہ رہا تھا کہ 'سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں۔'

اسحاق نور بتاتے ہیں کہ 'ہماری بوگی میں سے انھوں نےکم از کم میرا خیال ہے کہ گیارہ لوگوں کو نیچے اتارا اور کہا کہ یہ سکیورٹی اہلکار ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس موقع پر ایک شخص نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کو تشدد کر کے نیچے اتارا گیا اور پھر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔

'اس کے بعد بوگی میں موجود تمام لوگ ان کی ہدایات پر عمل کرتے رہے۔'

اسحاق نور کا کہنا تھا کہ شام کے وقت انھوں نے کہا کہ ہم بلوچوں، عورتوں، بچوں اور بڑے عمر کے لوگوں کو رہا کررہے ہیں۔ وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے مگر جب میں نے ان کو بتایا کہ میں تربت کا رہائشی ہوں اور میرے ساتھ بچے اور خاتون ہیں تو انھوں نے مجھے بھی جانے دیا۔

station
Getty Images

’پیدل چلتے چلتے پنیر سٹیشن پہنچے‘

کوئٹہ سے لاہور اپنے عزیزوں کے ہاں جانے کے لیے منگل کی صبح محمد اشرف جعفر ایکسپریس میں سوار ہوئے تھے۔

یہ وہی محمد اشرف ہیں جن کے بیٹے منگل کی سہ پہر کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کی خیریت کے حوالے سے معلومات ڈھونڈنے پہنچے تھے اور اس دوران ہمارے نامہ نگار محمد کاظم سے بات کی تھی۔

محمد اشرف نے پہلے مچھ سے فون پر اور پھر کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں براہ راست بی بی سی سے بات کی اور حملے کی جگہ سے پنیر سٹیشن تک کے سفر کے بارے میں بتایا۔

محمد اشرف کے مطابق شدت پسندوں کی جانب سے بوڑھوں، عام شہریوں، خواتین اور بچوں کو جانے دیا گیا اور پھر ان کا پنیر سٹیشن کا طویل پیدل سفر شام کے وقت شروع ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’پنیر سٹیشن تک ہم تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں بہت مشکل سے پہنچے، کیونکہ تھکاوٹ بھی تھی اور ساتھ جوان بچیاں، خواتین اور بزرگ بھی تھے اور بچے بھی تھے۔

’زیادہ تر لوگ سامان چھوڑ کر آئے تھے، جبکہ کچھ سامان ساتھ لیے آ رہے تھے، جس پر میں نے انھیں کہا کہ یہاں جان بچانا مشکل ہو رہا ہے۔۔۔ بہرحال کچھ ضعیف آدمی تھے انھیں ہم لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا اور کرتے کرتے یہاں تک پہنچے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’مسافروں میں بہت زیادہ خوف تھا، قیامت کا منظر تھا۔‘

محمد اشرف کہتے ہیں کہ ’میرے اندازے کے مطابق وہ (شدت پسند) دو ڈھائی سو کے قریب افراد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے اور انکی تعداد بھی سو سوا سو کے قریب تھی۔‘

اسی طرح بہاولپور جانے والے مسافر بشیر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسلح افراد آئے اور انھوں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ نیچے اتریں۔ انھوں نے نہ مجھے روکا اور نہ میرے بچوں کو۔

’مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں۔ اس کے بعد ہم لوگ مشکل راستوں سے ہوتے ہوئے پنیر ریلوے اسٹیشن پہنچے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.