بچوں کے ذہن پر پورن دیکھنے کے منفی اثرات: ’13 برس کی عمر تک میں پورن کے ساتھ ساتھ خود لذتی کے عمل سے آشنا ہو چکی تھی‘

اگرچہ پاکستان میں کم عمر کے افراد میں پورن مواد دیکھنے کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔تاہم سنہ 2023 کے گوگل ٹرینڈ کے جائزےکےمطابق پاکستان کا دنیا کے ان ممالک میں 13واں نمبر ہے جہاں سب سے زیادہ فحش مواد کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا گیا۔
علامتی تصویر
Getty Images

انتباہ: اس مضمون میں جنسی موضوعات زیرِ بحث آئے ہیں۔

’میں اس وقت سات، آٹھ برس کی تھی جب حادثاتی طور پر میں نے پہلی بار پورن ویڈیو دیکھی۔ گھر میں بڑے بھائی کے لیے نیا کمپیوٹر آیا تھا۔ ایک دن اس پر ویڈیو گیم کھیلتے کھیلتے اچانک سے پورن ویڈیو کُھل گئی۔‘

’اس وقت میں کم عمر اور ناسمجھ تھی اور پورن ویڈیو میرے لیے ایک انتہائی حیران کُن چیز تھی اور یہ حیرانی پہلے جستجو اور پھر لت میں تبدیل ہو گئی۔‘

یہ کہانی ہے صائقہ (فرضی نام) کی جنھیں کم عمری میں ہی پورن مواد دیکھنے کی لت لگ گئی تھی اور اُن کے مطابق اِس لت نے نہ صرف اُن کی نفسیاتی صحت بلکہ جسمانی صحت کو بھی بہت متاثر کیا۔

انھوں نے اپنی کہانی بی بی سی اُردو کو سُناتے ہوئے بتایا کہ ’یہ 2000 کی دہائی کی بات ہے، بھائی سیکنڈ ائیر میں تھا جب ہمارے گھر کمپیوٹر آیا۔ ہم سب چھوٹے بہن بھائی اس پر گیمز کھیلتے، گانے سُنتے یا سی ڈی پر فلم دیکھتے تھے۔‘

’ایک دن میں اکیلے ویڈیو گیم کھیل رہی تھی کہ اچانک وہ چلتے چلتے بند ہو گئی۔ اس گیم کو دوبارہ چلانے کی کوشش میں، میں نے ایک فولڈر کھولا تو اس میں کچھ فائلز پڑی تھیں۔ میں نے ایک کو کلک کیا تو پورن ویڈیو چل گئی۔ یہ سب غیرارادی طور پر ہوا تھا۔‘

’میں اسے دیکھ کر پہلے تو ڈر گئی مگر پھر اس کے مواد پر حیران ہوئی۔ اس وقت مجھے کوئی جنسی یا جسمانی احساس تو پیدا نہیں ہوا مگر ایک غلط حرکت کرنے کا احساس ضرور موجود تھا۔ میں نے پہلی بار اس کو دیکھتے ہی بند کر دیا۔ مگر یہ خیال میرے ذہن میں شام تک گھومتا رہا کہ آخر یہ کیا تھا۔ اسی جستجو نے مجھے اسے دوبارہ کھولنے پر مجبور کیا۔‘

صائقہ نے بتایا کہ ’اگلے روز میں نے موقع پا کر دوبارہ اس فائل کو کھولا۔۔۔ ویڈیو چلائی اور اپنے ذہن میں ہی سوال جواب کرنے لگی۔ مگر میں نے اس بارے میں کسی سے بات نہیں کی۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر کسی کو بتایا تو مار مجھے ہی پڑے گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا تھا کہ میں جو کر رہی ہوں وہ آگے چل کر میری زندگی کو اس حد تک متاثر کر دے گا کہ میں نفسیاتی مسائل کا شکار بن جاؤں گی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ اُس وقت ان کے والد بیرون ملک ملازمت کرتے تھے اور اُن کی والدہ ہی بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

صائقہ کہتی ہیں کہ اُن کی والدہ اکثر گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور بہن بھائی اپنے سکول و کالج کے کاموں میں۔۔۔ ایسے میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک آٹھ سال کی بچی یہ سب کر رہی ہو گی۔

’ابتدا میں تو میں نے دو تین بار وہ فحش ویڈیو دیکھی اور کسی کو پتا نہیں چلا۔۔۔ مگر اس کا خیال میرے ذہن میں چلتا رہا، ایسے میں جب ٹی وی یا کسی فلم میں کوئی رومانوی سین آتا تو مجھے اس فحش ویڈیو کا خیال آ جاتا۔‘

’وقت کے ساتھ ساتھ میں بلوغت کو پہنچ گئی اور اس عرصے کے دوران بھی انٹرنیٹ اور کمیپوٹر پر مختلف پورن مواد دیکھ چکی تھی۔ اس وقت تک مجھے جنسی طور پر کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اسے دیکھنے کی ایک کشش سی تھی۔‘

’پورن دیکھنے کا زور دار احساس مجھ میں 12 برس کی عمر میں پیدا ہوا جب میری ماہواری شروع ہوئی۔ اس دوران مجھ میں جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں اور اس وقت مجھے کچھ عجیب سی خوشی یا لذت کا احساس ہونا شروع ہوا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ 13 برس کی عمر کو پہنچنے تک انھیں نہ صرف پورن دیکھنے کی لت لگ چکی تھی بلکہ وہ (ماسٹربیشن) خود لذتی کے عمل سے بھی آشنا ہو چکی تھیں۔

صائقہ کہتی ہیں ’یہ وہ وقت تھا جب چیزیں مزید خراب ہونا شروع ہوئیں کیونکہ مجھے 14ویں سالگرہ پر میرا ذاتی فون مل گیا تھا اور میں اب دن میں دو سے تین بار پورن دیکھتی اور جنسی خواہش کی تسکین کے لیے ماسٹربیٹ کرتی۔‘

علامتی تصویر
Getty Images
'جب میں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تو میرا مسئلہ سمجھنے کی بجائے میری شدید پٹائی کی گئی‘: فائل فوٹو

وہ بتاتی ہیں کہ کسی کو کبھی اُن پر شک نہیں ہوا کیونکہ وہ پڑھائی میں ٹھیک تھیں، دوستوں کے ساتھ بھی گپ شپ کرتی تھیں مگر انھوں نے دوستوں سے کبھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

’14-15 سال کی عمر میں بہت زیادہ پورن دیکھنے کی وجہ سے میرے خیالات ہر وقت الجھے رہتے اور زیادہ وقت اکیلا گزارنے کے باعث میں نے اپنے ذہن میں ایک خیالی دوست بنا لیا تھا جس سے میں اپنے ذہن میں ہی پورن سے متعلق باتیں کرتی تھی۔‘

صائقہ کہتی ہیں کہ ’میرا یہ خیالی تعلق مجھ پر اس قدر حاوی ہو گیا تھا کہ میں پورن دیکھتے یا ماسٹربیٹ کرتے یہ تصور کرتی کہ جیسے وہ میرے ساتھ سیکس کر رہا ہے۔ وہ خیالی دوست کبھی ایک لڑکی کی صورت میں ہوتا تو کبھی ایک لڑکا بن کے میرے ذہن میں آ جاتا۔‘

’خوف کے مارے میں نے اس بارے میں کبھی کسی کو نہیں بتایا۔ میری صحت بھی گرنے لگی۔ مجھے ہر وقت تھکاوٹ کا احساس رہتا، میری ماہواری کا سائیکل بھی ڈسٹرب رہتا۔‘

صائقہ بتاتی ہیں کہ ’کچھ عرصے بعد میری والدہ یہ سمجھتے ہوئے مجھے ایک گائناکالوجسٹ کے پاس لے گئیں کہ مجھے کوئی گائنی سے متعلق مسئلہ ہے۔ مگر میرا مسئلہ بڑھتا گیا اور میں پورن دیکھنے کی وجہ سے جسمانی اور نفسیاتی طور پر کافی متاثر ہوتی گئی۔ میری والدہ نے لوگوں کے کہنے پر مجھے پر دم درود کروانا شروع کروا دیا۔‘

صائقہ کہتی ہیں کہ وہ خود بھی اپنی اس حالت سے بیزار اور نڈھال ہو چکی تھیں اور کسی کو بتانا چاہتی تھیں مگر ڈرتی تھیں۔ ’میں اس وقت 17 برس کی تھی جب ایک دن والدہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں تو میں نے لیڈی ڈاکٹر کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی اس لت کا بتایا۔‘

’ڈاکٹر نے فوراً میری والدہ سے اس بارے میں بات کی مگر میری والدہ نے فوری ردعمل میں اپنی بیٹی کی اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے نہ صرف ڈاکٹر سے دست درازی کی بلکہ ان پر مجھے بہکانے اور گناہ کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دینے کا الزام عائد کیا۔‘

صائقہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تو میرا مسئلہ سمجھنے کی بجائے میری شدید پٹائی کی گئی۔ اس نے مجھے اور ندامت میں دھکیل دیا۔ میرے رویے میں باغی پن، چڑاچڑاپن، خوف، شرمندگی، احساس ندامت نے جگہ لے لی اور میں سب سے الگ تھلگ ہو گئی۔ تب جا کر میرے بڑے بھائی نے مجھے ایک ماہر نفسیات کو دکھایا اور ساڑھے سترہ برس میں میری نفسیاتی تھیراپی شروع ہوئی۔ یہ علاج اگلے ڈھائی برس تک جاری رہا۔‘

صائقہ کہتی ہیں کہ علاج کے باوجود اس لت کو چھوڑنے میں انھیں چھ ماہ لگے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری شخصیت تباہ ہو گئی، میں اپنے گھر والوں سے آج تک نظریں نہیں ملا سکتی۔ اب مجھے پورن کا نام سُن کر بھی جسم پر خوف کے مارے جھرجھری ہوتی ہے۔ میں اس وقت کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی۔‘

صائقہ کی سائیکو تھیراپی کا علاج ختم ہوئے تقریباً دو سال ہو گئے ہیں اور آج وہ ایک صحت مند زندگی گزار رہی ہیں۔

مگر وہ اکیلی نہیں جو کم عمری میں پورن دیکھنے سے اس حد تک متاثر ہوئی ہوں۔

’لڑکپن میں پورن کی لت نے منشیات کا عادی بنا دیا‘

علامتی تصویر
Getty Images

عامر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ میں نے نوجوانی میں کبھی مخالف جنس کے ساتھ سیکس نہیں کیا بلکہ پورن دیکھ کر خود لذتی تک ہی محدود رہا شاید اس کی ایک بڑی وجہ معاشرتی خوف یا ایسا موقع نہ مل پانا تھا۔‘

’جب میں یونیورسٹی تک پہنچا تو پورن دیکھنے سے جنسی تسکین کم ہو گئی تھی تو میں نے پورن کے ساتھ ساتھ منشیات کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ پہلے پہل میں نے جنسی ادویات کا استعمال کیا مگر پھر یہ لت چرس اور آئس کے نشے میں بدل گئی۔‘

عامر کے مطابق وہ دن میں کئی بار پورن دیکھنے لگے اور اس کے ساتھ آئس نے ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور انھیں اپنا کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا۔

عامر (فرضی نام) کی عمر صرف 13 برس تھی جب انھیں ایک دوست نے نیٹ کیفے میں پورن (فحش فلموں) سے متعارف کروایا۔ اب ان کی عمر 30 برس ہو چکی ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مجھے فوراً ہی اس کی لت لگ گئی۔‘

عامر کہتے ہیں کہ ’اس عمر میں سیکس کو لے کر تجسس اپنے عروج پر ہوتا ہے اور ان ویڈیوز کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک میں بلوغت کو پہنچ چکا تھا اور اِن ویڈیوز کا سب دوستوں سے تذکرہ کرنا ایک معمول تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جوعادت انھیں لگی تھی اسے پھر ختم کرنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ ’وہ کم عمری کا دور تھا، ہر دیکھے پر یقین ہو جاتا۔ ان ویڈیوز سے جنسی عمل اور اس سے وابستہ غیر حقیقی توقعات نے جنم لیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’16 برس تک میں پورن دیکھنے کی لت میں غرق ہو چکا تھا، پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، پر وقت جنسی رجحانات میری ذہن پر سوار رہتے۔ میں ذہنی طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا تھا اور اپنے آس پاس کی ہر عورت کو صرف ہوس کی نظر سے دیکھتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ کو میری ان دونوں عادات کا علم یونیورسٹی کے دور میں ہوا اور انھوں نے میرا جیب خرچ بند کر دیا۔۔۔ انٹرنیٹ اور آئس کے لیے میں نے گھر سے پیسے چرانا شروع کر دیے۔ میں یونیورسٹی میں بھی لوگوں سے جھوٹ بول کر پیسے لیتا، ایک دو مرتبہ تو بھیک بھی مانگی۔‘

عامر بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے انھیں علاج کے لیے ایک بحالی سینٹر میں داخل کروا دیا، وہاں ان کی نشے کی لت تو چھوٹ گئی لیکن پورن دیکھنے کی لت نہیں گئی۔ تاہم وہاں انھیں نفسیاتی تھیراپی دی گئی اور تقریباً 14 ماہ کے سیشز کے بعد وہ اس لت سے جان چھڑا پائے۔

کمر عمری میں پورن مواد دیکھنے کا رجحان

پورن
PA Media

پورنوگرافی دنیا بھر میں اب ایک بہت مختلف سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہ اربوں ڈالر کی صنعت ہے، جو موبائل فون پر کی جانے والی تمام سرچز کا کل پانچواں حصہ ہے۔

اگرچہ پاکستان میں کم عمر کے افراد میں پورن مواد دیکھنے کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم سنہ 2013 سے 2015 کے درمیان ایک جائزہ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل تھا جہاں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پورن مواد کو سرچ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح سنہ 2023 کے گوگل ٹرینڈ کے جائزے میں بھی یہ اعداد و شمار سامنے آئے تھے کہ پاکستان کا دنیا کے ان ممالک میں 13واں نمبر ہے جہاں سب سے زیادہ فحش مواد کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا گیا۔

اگرچہ پاکستان میں فحش مواد دیکھنا ایک انتہائی متنازع موضوع ہے، ٹیکنالوجی میں اضافہ، خاص طور پر سمارٹ فونز اور تیز رفتار انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی نے پاکستان میں فحش مواد کو مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔

اس بڑھتی ہوئی رسائی نے سماجی رویّوں، رشتوں اور نوجوان نسل پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فحش سائٹس کے مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے عمر کی توثیق کرنے پر کنٹرول بہت کم ہے۔

جولائی 2021 میں ’جرنل آف ایڈولسنٹ ہیلتھ‘ میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں پانچ ممالک میں کیے گئے 10 سے 14 سال کی عمروں کے 9250 نوجوانوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایکواڈور میں 14.5 فیصد (سب سے کم شرح) اور بیلجیئم میں 33 فیصد (سب سے زیادہ شرح) کی عمر کے گروپ کے نوجوانوں نے اس طرح کا فحش مواد استعمال کیا ہے۔

پاکستان میں اس حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار کو موجود نہیں تاہم بی بی سی نے جن ماہرین سے اس مضمون کے لیے بات کی ہے وہ اپنے پاس آنے والے کیسز کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ’رپورٹڈ کیسز میں یہ سالانہ 13 سے 15 فیصد کے برابر ہے۔‘ تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر ان اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

کم عمری میں پورن دیکھنے کے اثرات

علامتی تصویر
Getty Images

بی بی سی نے چند ماہرین نفسیات سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کم عمری میں جب بچے فحش مواد کو دیکھتے ہیں یا حادثاتی طور پر اس سے ایکسپوز ہو جائیں تو اس کے دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف کلینکل سائیکولوجی کی سربراہ اور ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر فرح ملک نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر ہمارے ملک میں کوئی بات نہیں کرتا اور یہ مسئلہ معاشرے میں بہت زیادہ سرائیت کر چکا ہے۔

ان کے مطابق فحش مواد دیکھنے سے بچوں اور لڑکوں پر بڑا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ’جنس اور باہمی تعلقات کے بارے میں ان کی سمجھ سے لے کر، اپنے جسم کے بارے میں سوچنے کے انداز تک، پورنوگرافی میں بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بگاڑنے کی طاقت ہوتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کم عمری میں فحش مواد دیکھنے سے بچے کی دماغی نشو و نما اور نفسیاتی پختگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انسان کا دماغ بالغ ہونے تک نشو و نما پاتا ہے مگر اس کے لیے سب سے اہم وقت ابتدائی برس ہوتے ہیں۔ اگر ان میں بچہ کسی پورن یا فحش مواد کو دیکھنے کا عادی ہو جائے تو اس کے دماغ کی نشو و نما متاثر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح نفسیاتی طور پر وہ بچہ بچپن سے ہی الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے جس کے باعث اس میں جنسی پختگی، جنسی رویے، کسی بھی قسم کی لت اور منفی شخصیت کا ابھر کر سامنے آنا سمیت مختلف طویل مدتی نقصان دہ اثرات شامل ہیں۔‘

ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق ایسے بچوں میں اضطراب، ڈپریشن، غصہ، پرتشدّد رویّے اور زندگی کا اصل لطف اٹھانے کے احساس میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر فرح کے مطابق ’اگر کم عمری میں اُن کی پورن دیکھنے کی عادت پکی ہو جائے تو آگے چل کر ان میں مزید خطرناک سماجی رجحانات جنم لیتے ہیں جن میں ناکامی اور شرمندگی کا احساس، منشیات کے استعمال کا خطرہ، اخلاقی گراوٹ ریپ جیسے عمل کو جرم نہ سمجھنا وغیرہ شامل ہیں۔‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر ذوالفقار گیلانی جو کلینیکل سائیکالوجی میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی سیکسشوئل احساسات کو ڈسکس کرنا بُرا، ممنوع اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔‘

اُن کے خیال میں ’ایسے میں بچے اگر کسی ایسے مواد سے ایکسپوز ہوتے ہیں تو ان میں سیکس ایجوکیشن اور خاص کر کہ اس متعلق آگاہی نہ ہونا ان تمام مسائل کو جنم دیتا ہے۔‘

ڈاکٹر ذوالفقار گیلانی کے مطابق ’ہمارے معاشرے میں جہاں سیکس سے متعلق بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے وہاں لوگوں میں جنسی رویے بہت مختلف اور متنوع ہیں۔‘

’ہمارے معاشرے میں دو انتہائیں ہیں ایک جانب سیکس کو بہت زیادہ راز داری والا اور پر اسرار موضوع بنا دیا گیا ہے تو دوسری جانب اسے رومانٹیسائز کیا گیا ہے۔ یہ تضاد ہی بچوں کو کم عمری میں پورن دیکھنے کی جانب راغب کرتا ہے۔‘

ڈاکٹر ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’پورن ایک کریکچر کی طرح ہے یعنی جب کوئی اس کو دیکھتا ہے تو وہ خود کو اس عمل میں تصور کرتا ہے۔ یہ ایک مکینکل ایکٹ آف سیکس ہے اور جب کم عمر بچے اس قسم کے مواد کو دیکھتے ہیں تو ان میں نہ صرف وہ تصورات جنم لیتے ہیں بلکہ جنسی خواہش بھی بیدار ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے مکینکل سیکس کو دیکھ کر ان میں نہ صرف ہم جنس پرستی کے رجحات پیدا ہوتے ہیں بلکہ غیر فطری سیکس کی توقعات جنم لیتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو بچے سیکس کریکچرنگ میں پڑ جاتے ہیں آگے چل کر ان میں ان گنت مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ ازدواجی زندگی میں سیکس کو لے کر غیر حقیقی توقعات، اضطراب اور غصے کو چھپانے، احساس ندامت یا احساس گناہ سے فرار حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال، خوف اور ڈر کی کیفیت میں رہنا، سماجی طور پر کٹ جانا وغیرہ۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ کم عمر جنھیں پورن دیکھنے کی لت لگ جاتی ہے وہ بولنا بند کر دیتے ہیں۔‘

اسلام آباد کی ایک سپیچ اینڈ لینگوئج تھراپسٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ایسے ہی بچے کے کیس کے متعلق بتایا جس کا انھوں نے چھ ماہ تک علاج کیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ آج سے چند سال قبل ایک بچے کو ان کے کلینک میں سپیچ ودڈرال (بولنا چھوڑ دینا) کے مسئلہ کا علاج کرنے کے لیے لایا گیا۔ اس وقت اس بچے کی عمر ساڑھے سولہ برس کے قریب تھی۔

’اس بچے کی والدہ نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے سے وہ خاموش ہو گیا ہے۔ میں نے جب اس بچے کا معائنہ کیا تو مجھے علم ہوا کہ اسے گذشتہ چند سالوں سے پورن دیکھنے کی لت لگ چکی ہے۔‘

ڈوپامین ہارمونز کا اخراج

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی اسلام آباد کے ڈاکٹر جمیل ملک نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی عمر میں پورن دیکھنے کا سب سے زیادہ اثر بچوں کے دماغ کی کیمسٹری پر ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ اُن کی سائیکو سیکشوئل ضروریات بہت مختلف ہو جاتی ہیں۔

ان کے بقول پورونوگرافی یا کسی بھی قسم کے جنسی عمل میں دماغ مختلف قسم کے ہارمونز خارج کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پورن دیکھتے وقت یا سیکس کرتے وقت ہمارا جسم ہومیوسٹیسِز کی حالت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دماغ کی یہ حالت جسم کے توازن سے متعلق ہے۔ اس حالت کا ایک پوائنٹ ’مزے اور درد کے درمیان کی کیفیت‘ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سیکس ہو یا خود لذتی انسانی دماغ، خوشگوار احساس پیدا کرنے والے ہارمونز ڈوپامین کا اخراج کرتا ہے۔ ایسی اعصابی ڈائنیمکس ہر کسی میں وقوع پذیر ہوتی ہیں، لیکن کم عمر افراد پر اس کا اثر مختلف ہوتا ہے جس کے باعث اُن میں جنسی صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر جمیل ملک وضاحت کرتے ہیں کہ ’بہت زیادہ سنگین صورت میں وہ کسی فرضی تصور کو اپنے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں۔ ان میں سپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر یا شیزوفرینک ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔‘

تمام ماہرین نفسیات جن سے ہماری بات ہوئی وہ ایک بات پر متّفق تھے کہ والدین کی عدم توجہی، بچوں کو سیکس ایجوکیشن نہ دینا، بچوں کے ساتھ کمزور رابطہ رکھنا، کمیونیکشن گیپ کا ہونا بچوں کو اس طرف راغب کرتا ہے۔

اس لیے والدین کی توجہ، ان کے ساتھ دوستانہ تعلق اور رابطہ نہ صرف انھیں کسی بھی منفی سرگرمی جیسے پورن دیکھنا وغیرہ سے بچاتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں وہ جنسی ہراسانی و تشدد سے بھی بچ جاتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.