’کُتے کی قبر‘: معدنی وسائل رکھنے والا پاکستان کا وہ پُرفضا مقام جس کی ملکیت پر سندھ اور بلوچستان آمنے سامنے ہیں

سنہ 2018 سے قبل پاکستان میں بہت کم لوگاس کتے کی قبر بارے میں جانتے تھے۔ اس وقت یہ جگہ بہت میڈیا خبروں کی زینت تب بنی جب سندھ کے حکام کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ تاریخی لحاظ سے کتے کی قبر جس علاقے میں ہے وہ سندھ کا حصہ ہے لیکن بلوچستان کے لوگ اور سرکاری حکام اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستان کے دو صوبوں میں ایک کتے کی قبر سے منسوب آثارِ قدیمہ کو لے کر تنازع ایک بار پھر تازہ ہو گیا ہے۔

ماضی میں پاکستان میں بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے تھے۔ مگر سنہ 2018 میں یہ جگہ اُس وقت میڈیا کی خبروں کی زینت بنی جب سندھ کے حکام کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ تاریخی لحاظ سے ’کتے جی قبر‘ نامی علاقہ سندھ کا حصہ ہے لیکن بلوچستان کے لوگ اور سرکاری حکام اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

مگر اس تنازع نے اب دوبار سر اُس وقت اٹھایا ہے جب حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے ’کتے جی قبر‘ کو باقاعدہ سندھ کا تاریخی ورثہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کو سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کا حصہ ظاہر کیا ہے۔

اس نوٹیفیکیشن کے اجرا کے بعد سے اس معاملے پر دوبارہ بحث جاری ہے۔

اس علاقے کی یونین کونسل کے وائس چیئرمین محمد ہارون چُھٹہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’کتے جی قبر نامی علاقہ کبھی بھی سندھ کا حصہ نہیں رہا۔ نہ صرف قیام پاکستان کے بعد سے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔‘

انھوں نے حکومت سندھ کی جانب سے کتے جی قبر کو سندھ کا آثار قدیمہ قرار دینے کے اقدام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد بھی ہمارے علاقے کے لوگ کبھی بھی انتظامی معاملات یا اپنے تنازعات کے حوالے سے سندھ نہیں گئے بلکہ وہ بلوچستان کے ضلع خضدار ہی جاتے رہے ہیں۔

بلوچستان کے سرکاری حکام نے بھی حکومت سندھ کی جانب سے اس ضمن میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر خضدار نے سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو حکومت بلوچستان کے نام ایک مراسلے میں درخواست کی ہے کہ وہ اس نوٹیفیکیشن کو واپس لینے کے لیے سندھ کے حکام سے رابطہ کریں۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو پہلے محکمہ جاتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اگر یہ حل نہ ہوا تو بعد میں حکومتی سطح پر سندھ کے حکام سے رابطہ کیا جائے گا۔

لیکن اس سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کے ’کتے جی قبر‘ کے پیچھے تاریخ کیا ہے۔

’کتے کی قبر‘ کی کہانی کیا ہے؟

’کتے جی قبر‘ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے خضدار ضلع کے درمیان واقع ہے، جو سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

حکومتِ سندھ کی تاریخ اور شخصیات کے بارے میں مرتب کیے گئے انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کے مطابق یہاں موسم سرما میں شدید سردی ہوتی ہے اور گرمی کا موسم بھی خوشگوار رہتا ہے۔

اس علاقے میں جون اور جولائی میں کم سے کم درجہ حرارت 13 سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 25 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔

سندھ کے نامور ادیب مرزا قلیچ بیگ نے سنہ 1885 میں اس علاقے کا سفر کیا تھا۔

اپنے سفرنامے ’ڈھیاڑو جبل کے سیر‘ میں وہ کتے کی قبر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ایک شخص 100 روپے کا مقروض تھا، اس نے قرض دینے والے کے پاس اپنا کتا گروی رکھوایا۔ جب اس کے پاس 100 روپے جمع ہو گئے تو وہ ادائیگی کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اس نے دیکھا کہ اس کا کتا چلا آ رہا ہے، وہ اس پر سخت ناراض ہوا اور کتے پر لعن طعن کی جس کے باعث کتا وہیں مر گیا۔‘

اس لوک داستان کے مطابق ’جس شخص کے پاس کتے کو گروی رکھا گیا تھا، اس نے مالک کو بتایا کہ کچھ چوروں نے اس کے گھر کو لوٹ لیا تھا اور اس کتے کی مدد سے چوری شدہ سامان برآمد ہوا جس کی مالیت 100 روپے سے کہیں زیادہ تھی۔ کتے کی اس خدمت کے عوض اس نے کتے کو رہا کر دیا۔ مالک کو یہ سُن کر دُکھ پہنچا اور اس نے واپس آ کر اسی جگہ پر کتے کی قبر تعمیر کروائی جہاں وہ مرا تھا۔‘

نامور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کا کہنا ہے کہ یہ قبر قدیم دور میں تعمیر کی گئی، جس کو دیگر قدیم قبروں کی طرح پتھروں سے بنایا گیا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ قبر ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک رسائی آسانی سے ہو سکتی ہے۔

محکمہ ثقافت کی ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری سندھ کے محکمہ آرکیالوجی کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں اور اس علاقے میں کئی بار جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد ہیں کہ اس قبر کو کھول کر دوبارہ بند کیا گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں سرداروں اور معروف افراد کو ان کے قیمتی سامان کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا اس لیے خزانے کی لالچ میں بعض علاقوں میں ان قبروں کو کھولا گیا۔

’کتے جی قبر‘ کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اس علاقے میں بلوچ قبائل کے ساتھ سندھی قبائل چُھٹا اور گھائنچا برادریاں بھی رہتی ہیں۔

حکومت سندھ اور بلوچستان میں اس علاقے کی حدود پر سنہ 2018 میں تنازع بھی ہوا تھا۔ اس وقت کے سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ’کتے جی قبر‘ کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا۔

نثار کھوڑو نے 1876 کا گزٹ دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ کتے کی قبر کا علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جو کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈا علاقہ ہے اور یہ گورکھ ہل سٹیشن سے بھی بلند ہے۔

سندھ کے محکمہ ثقافت کا تازہ نوٹیفیکیشن کب جاری ہوا؟

سیکریٹری ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کی جانب سے یہ نوٹیفیکیشن 20 جنوری 2025 کو جاری کیا گیا ہے جس میں کتے کی قبر کو سندھ کا ورثہ قرار دیا گیا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ نوٹیفیکیشن میں اس سائٹ کے ایڈریس کے خانے میں سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کا نام درج کیا گیا۔

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی اعتراض ایک ماہ کے اندر اندر سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ میں جمع کروایا جا سکتا ہے۔

’ہمارے آباؤ اجداد بھی کبھی سندھ نہیں گئے‘

کتے کی قبر جس علاقے میں واقع ہے وہ موضع ڈارھیاڑو کا حصہ ہے جو کہ ضلع خضدار کی انتطامیہ کی دستاویزات اور محمد ہارون چھٹہ کے مطابق بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کی یونین کونسل بھلونک میں آتا ہے۔

چالیس سالہ محمد ہارون چھٹہ اس وقت اسی یونین کونسل سے وائس چیئرمین میں بھی ہیں۔

اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہ ہوش سنبھالنے کے بعد نہ صرف بلکہ ان کے والد اور دادا بھی انتظامی معاملات کے حوالے سے نہ کبھی حکومت سندھ کے پاس گئے اور نہ ہی ضلع قمبر شہداد کوٹ کی انتظامیہ کے پاس۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ تو میں نے آپ کو قیام پاکستان کے بعد کے حوالے سے بتایا جبکہ قیام پاکستان سے پہلے بھی ہمارے علاقے کے تمام معاملات خضدار اور بلوچستان سے وابستہ رہے ہیں۔‘

’ہمارے علاقے میں لوگوں کے پاس جو اراضی ہیں ان کے حوالے سے ہمارے پاس قیام پاکستان سے پہلے کے دستاویزات ہیں جو کہ خان قلات کے دور کی ہیں۔‘

خیال رہے کہ قیام پاکستان سے قبل خضدار سابق ریاست قلات کا حصہ تھا جس کے سربراہ کے لیے خان آف قلات کا ٹائٹل استعمال کیا جاتا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں آپس کے جو جھگڑے وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب کچھ ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کی انتظامیہ اور یہاں کی لیویز فورس کے لوگ ڈیل کرتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں نہ صرف مختلف قسم کے قیمتی پتھر ہیں بلکہ یہاں سات سال پہلے ایک کمپنی نے تیل اورتیل و گیس کی تلاش کے لیے بھی کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خوبصورت پہاڑی علاقہ بھی ہے ۔

محمد ہارون چھٹہ نے الزام عائد کیا کہ ’چونکہ یہاں معدنی وسائل ہیں جن پر سندھ سے تعلق رکھنے والی بعض بااثر شخصیات کی نظریں ہیں اس لیے ان پر قبضہ جمانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہاں کے لوگ سندھ حکومت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اور کتے کی قبر کے حوالے سے سندھ حکومت کی نوٹیفیکیشن کو واپس نہیں لیا گیا تو اس کے خلاف ہم احتجاج کا راستہ اپنائیں گے۔‘

پریس کلب کرخ کے صدر سیف اللہ شاہوانی نے بتایا کہ جہاں اس علاقے میں معدنی وسائل ہیں وہاں یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے جس کے باعث لوگ یہاں سیر و تفریح کے لیے بھی آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے کے تمام اراضی وغیرہ کی کتھونیاں ضلع خضدار میں ہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے ووٹر لسٹ کے علاوہ مردم شماری کے دستاویزات میں بھی یہ ضلع خضدار کا حصہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب 2018 میں سندھ حکومت کی جانب سے اس علاقے کو اپنا علاقہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی تو اس کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ اب دوبارہ محکمہ آثار قدیمہ سندھ کی جانب سے نوٹیفیکیشن کے اجرا کے بعد لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔

ڈپٹی کمشنر خضدار کے مراسلے میں کیا کہا گیا ہے؟

محکمہ آثار قدیمہ سندھ کی جانب سے کتے کی قبر کے بارے میں نوٹیفیکیشن کے اجرا کے بعد ڈپٹی کمشنر خضدار نے ممبر بورڈ آف ریوینیو حکومت بلوچستان کو ایک نیا مراسلہ بھیجا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’یہ سندھ کا حصہ نہیں ہے بلکہ تمام دستاویزی شواہد اور ریونیو ریکارڈ کے مطابق بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کا علاقہ ہے۔ مردم شماری کے دستاویزات میں بھی یہ تحصیل کرخ کا حصہ ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن الیکشن کمیشن کے 17 اپریل 2018 کے دستاویزات میں بھی اس کی تصدیق کی گئی ہے۔‘

مراسلے کے مطابق ’اس موضع میں لڑکوں کا جو پرائمری سکول ہے اس کے اساتذہ ضلعی تعلیم آفیسر خضدار کے ماتحت ہیں اور وہ یہاں سے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جبکہ ڈارھیاڑو سے متعلق تمام دیوانی اور فوجداری مقدمات ہمیشہ سے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ میں درج ہوتے رہے ہیں۔‘

مراسلے میں سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ سندھ کی جانب سے کتے کی قبر کو سندھ کا ورثہ قرار دینے سے متعلق نوٹیفیکیشن کو واپس لینے کے لیے ان دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں سندھ کے بورڈ آف ریوینیو سے رابطہ کرے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.