کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا ہونے والے 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کے کیس میں سی آئی اے پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی لاش مل گئی ہے اور انھیں اغوا کے بعد قتل کیے جانے کے معاملے کی گتھی سلجھا لی گئی ہے۔
![فائل فوٹو](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/fd95/live/f45d72e0-eb0a-11ef-a9f0-1fe0b0397bb7.jpg)
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا ہونے والے 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کے کیس میں سی آئی اے پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی لاش مل گئی ہے اور انھیں اغوا کے بعد قتل کیے جانے کے معاملے کی گتھی سلجھا لی گئی ہے۔
ڈیفنس سے چھ جنوری کو لاپتا ہونے والے مصطفیٰ عامرکے معاملے میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔
سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ '23 سالہ مصطفیٰ عامر کو تشدد کے بعد گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا جہاں انھیں گاڑی سمیت آگ لگا کر قتل کر دیا گیا۔'
واضح کہ مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا ہوئے تھے اورپولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں وجیہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔
وجیہ عامر نے واقعے کی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پربیٹے کی تلاش اور معلومات حاصل کی لیکن کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کے قتل میں ان کا گرفتار ملزمدوست ارمغان ہی ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ملزم نے ساتھی کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگائی تھی۔'
فائل فوٹو پولیس مصطفیٰ عامر کے قاتلوں تک کیسے پہنچی؟
ڈی آئی جی سی آئےاے مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔ اس دوران پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی اور اس کارروائی کے دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ تاہمپولیس ارمغان کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔
ڈی آئی جی مقدس حیدرکے مطابق 'بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔'
انھوں نے بتایا کہ ملزم کے گھر میں کمرے کے قالین پر سے خون کے دھبے بھی ملے ہیں جن کے نمونوں کا ڈی این بھجوایا ہے اور اس کی رپورٹ دو ہفتوں میں آئے گی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس چھاپے کے دوران پولیس نے بنگلے سے جدید اسلحہ اور 64 کے قریب لیپ ٹاپ بھی برآمد کیے۔ پولیس کے مطابق ملزم ارمغان کال سینٹر چلاتے تھے اور مبینہ طور پر کرپٹو کرنسی کا کام بھی کرتے تھے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بتایا کہ پولیس نے ملزم ارمغان کو جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا لیکن عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو جیل بھیج دیا ہے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے نے ایک حساس ادارے کی مدد سے مقدمے کی تفتیش جاری رکھی اور ملزم ارمغان کے دوست اور اس واقعے میں شریک جرم شیراز عرف شاویز نامی شخص کو گرفتار کیا جنھوں نے دوران تفتیش سب سچ بتا دیا۔
مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ 'مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دنوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں دوران تفتیش میں اب تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ پر شدید تشدد کے بعد اسے اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کے قریب لے جایا گیا جہاں گاڑی سمیت اسے آگ لگا دی گئی۔'
مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔
اس کے علاوہ سی آئی اے پولیس نے گاڑی کو حب لے جانے کے راستے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جس میں گاڑی کی شناخت ہوئی۔ اس کے علاوہ دریجی تھانے میں ایک نامعلوم گاڑی جلنے کی ایف ائی آر پہلے سے درج تھی۔ بلوچستان پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا تھا جنھوں نے اس کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے بتایا کہ اس واقعے کی مزید تفتیش کے لیے قبر کشائی کرکے لاش کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا جس سے مزید تصدیق ممکن ہو سکے گی۔
![فائل فوٹو](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/8f90/live/ca64aad0-eb0a-11ef-a9f0-1fe0b0397bb7.jpg)
’مجھے پہلے ہی ارمغان پر شک تھا‘
مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہ عامر کا کہنا ہے کہ انھیں ابتد سے ہی ملزم ارمغان پر شک تھا۔
چند روز قبل پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ چھ جنوری سے 22 جنوری تک کبھی کراچی کے علاقے درخشاں تھانے تو کبھی گذری تھانے کے چکر لگاتی رہیں کہ مصطفیٰ کے موبائل فون کا کال ڈیٹا نکلوائیں، اس کے پاس ایک انٹرنیٹ ڈیوائس اور ایک نوکیا فون ہے جو اس کی گاڑی میں رکھا جاتا ہے تاکہ اگر اس کے پاس انٹرنیٹ نہ بھی ہوں تو وہ رابطے میں رہے۔
انھوں نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پولیس انھیں کہتی تھی کہ 'مصطفیٰ خود کہیں چلا گیا ہے کیونکہ اس کی گاڑی بھی موجود نہیں اور اس کا فون بھی نان پی ٹی اے ہے۔ وہ ایسی باتیں کرکے چپ کرواتے رہے۔'
وجیہ عامر کا کہنا تھا کہ وہ مصطفیٰ کے دوستوں سے رابطے کرتی تھیں تو انھیں کئی بار مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان تنازع کی اطلاعات ملتی رہیں۔ ان کے مطابق مصطفیٰ کے دوستوں نے بتایا کہ ارمغان ان کا دوست نہیں بلکہ بلکہ دوستوں کے گروپ میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ 'مصطفیٰ کے لاپتا ہونے کے بعد اس کے باقی دوست آکر وضاحت دے چکے تھے مگر ارمغان کو میں جب کہتی تھی کہ آپ آؤ تو وہ کہتا میں نہیں آ سکتا۔ میں نے کہا کہ جب تک آپ مجھ سے آ کر ملو گے نہیں آپ میری نظروں میں مشکوک رہو گے جس پر وہ بہت غصہ ہو گیا اور اس نے مجھ سے بدتمیزی بھی کی۔
وجیہ عامر کہتی ہیں کہ تاوان کے لیے امریکی نمبر والی سم سے آنے والی کال ان کے لیے نعمت ثابت ہوئی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہاں کے مجرم کب سے اتنے ہائی ٹیک ہوگئے کہ غیر ملکی سم سے کالز کریں۔ اس کال کے بعد یہ کیس انٹی وائلینٹ کرائم سیل کے پاس منتقل ہو گیا۔
مصطفیٰ کا قتل تاحال ایک معمہ
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم ارمغان اور شیراز بچپن کے دوست ہیں اور پہلی جماعت سے لے کر ساتویں جماعت تک ایک ساتھ پڑھے ہیں۔ جبکہ مصطفیٰ عامر سے ان کی دوستی بعد میں ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک حاصل کردہ معلومات اور تفیتش کے مطابق مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کی وجہ یا محرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کے قتل کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے بس یہ پتا چلا ہےکہ 'یہ سب نیو ایئر نائٹ پر ایک ساتھ تھے وہاں پر ان کی تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تھی۔ چھ جنوری کی رات کو ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو فون کرکے بلایا تھا۔'
'ملاقات کے دوران کچھ دیر باتیں ہوئیں پھر وہاں ان لوگوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور انھوں نے مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا اور اسے اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر گاڑی کو حب کی طرف لے گئے۔'