یہ کہانی ہے برطانیہ کے نارتھیمپٹن شائر سے تعلق رکھنے والے کرس اور تمیرا ہچنسن کی لیکن کرس اور ان کی اہلیہ تمیرا کے مطابق وہ بمشکل ہی روزمرہ کی ضروریات پوری کر پاتے تھے اور انھیں اکھٹے گھر پر وقت گزارنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ ایسے حالات میں کوئی عام شخص تو شاید سیر و تفریح کے بارے میں سوچتا بھی نہیں تو پھر اس جوڑے نے کیسے یہ سب ممکن بنایا؟

دنیا کی سیر شاید ہر کسی کا ہی خواب ہوتا ہے مگر ایسا کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا لیکن ایک جوڑے نے اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے اتنا خطرہ مول لیا کہ نہ صرف اپنی نوکریاں چھوڑ دیں بلکہ اپنا مکان تک بیچ دیا لیکن ان کا دعوی ہے کہ اس ’ایڈونچر‘ نے ان کو بطور خاندان بچا لیا۔
یہ کہانی ہے برطانیہ کے نارتھیمپٹن شائر سے تعلق رکھنے والے کرس اور تمیرا ہچنسن کی۔ کرس اور ان کی اہلیہ تمیرا کے مطابق وہ بمشکل ہی روزمرہ کی ضروریات پوری کر پاتے تھے اور انھیں اکھٹے گھر پر وقت گزارنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔
ایسے حالات میں کوئی عام شخص تو شاید سیر و تفریح کے بارے میں سوچتا بھی نہیں تو پھر اس جوڑے نے کیسے یہ سب ممکن بنایا؟
کرس اور تمیرا نے دو سال قبل اپنا تین کمروں کا مکان بیچ ڈالا اور سیدھا ایئرپورٹ کا رخ کیا۔ وہ اپنی تین بیٹیوں دس سالہ اولیویا، آٹھ سالہ سکارلیٹ اور چار سالہ بیلا، کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے جا رہے تھے۔
کرس کہتے ہیں کہ ’بطور خاندان ہمارے مالی حالات بہت اچھے نہیں تھے لیکن اب ہم اپنے خوابوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔‘
کرس کی اہلیہ تمیرا سوئمنگ ٹیچر تھیں اور ان دونوں کا کہنا ہے کہ پورا دن محنت اور کام کرنے کے باوجود وہ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح سے پریشان تھے۔
تمیرا کہتی ہیں کہ ’ہم نے ایک گاڑی رکھی ہوئی تھی، پھر ہم نے سکائی ٹی وی سے پیچھا چھڑایا۔ ہم کہیں سیر کرنے نہیں جا پاتے تھے لیکن پھر بھی بل زیادہ سے زیادہ ہوتے جا رہے تھے۔‘
’ہم مہینے میں صرف ایک بار ایک خاندان کی طرح مل کر کھانا کھا پاتے تھے کیونکہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ ہم بس ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کرتے جا رہے تھے۔‘

کورونا کی وبا کے دوران پہلی بار انھوں نے دنیا کی سیر کے بارے میں بات چیت کی اور اسی وقت مکان کو بیچنے کا بھی خیال آیا۔
کرس کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس اس زمانے میں سانس لینے کا وقت تھا اور ہم نے سوچا کہ ہم پرانی زندگی میں واپس نہیں جانا چاہتے۔‘
2022 میں انھوں نے مکان کو فروخت کرنے کا اشتہار دے دیا لیکن یہ منصوبہ مکمل ہونے میں ان کی توقع سے زیادہ وقت لگا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا جب انھوں نے یہ خیال تقریبا ترک کر دیا تھا لیکن مئی 2023 میں مکان فروخت ہوا اور انھوں نے سیدھا ایئرپورٹ کا رخ کیا۔
کرس نے بتایا کہ ’آخری رات ہم سب زمین پر سوئے کیونکہ ہم سارا فرنیچر بھی بیچ چکے تھے۔ہمارے پاس اس وقت تک فلائٹ کی سیٹ بک کرنے کے پیسے بھی نہیں تھے جب تک مکان فروخت کرنے کے بعد پیسے نہیں ملے۔‘
کرس اپنے خاندان کے ساتھ مکان فروخت کرنے کے بعد ایئر پورٹ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں منتقل ہو گئے اور ملائیشیا کی پرواز بک کروا لی۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑا خطرہ مول لیا تھا اور وہ سوچ رہے تھے کہ شاید یہ سب ایک غلطی تھی لیکن ہم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘
’حادثاتی شہرت‘
کرس نے اس سفر پر روانہ ہونے سے قبل ویڈیوگرافی سیکھ لی تاکہ وہ سوشل میڈیا پر اپنے تجربات شیئر کر سکیں۔ یہ ان کے لیے آمدن کا بھی ذریعہ بن گیا۔
36 سالہ کرس نے بتایا کہ ’ہم اپنی خاندانی ویڈیوز تو پہلے بھی بناتے تھے لیکن ہمارے بہت زیادہ فالوورز نہیں تھے، یو ٹیوب پر صرف سات ہزار لوگ تھے لیکن اب ایک لاکھ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر 12 ہزار فالوورز تھے جو اب ڈھائی لاکھ ہو چکے ہیں۔‘
ملائیشیا کے بعد یہ خاندان تھائی لینڈ، ویتنام، فلپائن، چین، تائیوان، جنوبی کوریا، جاپان، سنگاپور، انڈونیشیا اور پھر قطر گیا۔
لیکن چین میں ان کے سوشل میڈیا اکاوئنٹ کی وجہ سے پورا خاندان مشہور ہو گیا جسے وہ ’حادثاتی شہرت‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے ایک ویڈیو بنائی جس میں انھوں نے دکھایا کہ کیسے ان کا مشروب ایک ڈرون کی مدد سے ان تک پہنچایا گیا۔ اس ویڈیو کو ٹک ٹاک پر 80 لاکھ بار دیکھا گیا۔
چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی ان کے مداحوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا جہاں اب ان کے 10 لاکھ فالورز ہیں اور ان کی ویڈیوز لاکھوں بار دیکھی جا چکی ہیں۔

’سب کچھ آسان نہیں تھا‘
تھائی لینڈ میں تمیرا کو ڈینگی بخار نے گھیر لیا، ویتنام میں ان کا کریڈٹ کارڈ ایک مشین میں پھنس گیا اور فلپائن میں ایک سستے ہوٹل میں قیام کے دوران پانچوں کو بیماری نے جکڑ لیا۔
تمیرا نے بتایا کہ ایک اور مشکل وقت تب آیا جب وہ چین میں کھو گئے۔ ’ہم صبح سویرے پیدل چل رہے تھے اور فون پر نقشہ کام نہیں کر رہا تھا لیکن آخرکار ہم ہوٹل پہنچ گئے اور اب اس وقت کو یاد کر کے ہنس سکتے ہیں۔‘
گزشتہ چند ہفتے سے یہ خاندان ملائیشیا کے پنانگ جزیرے پر مقیم ہے جہاں تمیرا کی تینوں بیٹیاں، جنھیں وہ گھر پر خود ہی پڑھاتی ہیں، بہت خوش ہیں۔ کرس کہتے ہیں کہ ’وہ مختلف ثقافتوں، کرنسیوں، زبانوں کے بارے میں جان رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق تینوں بیٹیاں اس پورے سفر کی 110 فیصد حامی تھیں اور ’اگر انھوں نے کبھی گھر واپس جانے کا سوچا تو ہم ان کی بات مانیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اب وہ کہیں بھی دوست بنا سکتی ہیں۔ بہت سے ایسے ڈیجیٹل خانہ بدوش خاندان ہیں جو گھر سے دور رہ کر کام بھی کر رہے ہیں۔‘
’شاید ہم کبھی گھر واپس نہ جائیں‘
اس خاندان نے پانچ سالہ منصوبہ بنا رکھا ہے جس کے تحت دبئی، آسٹریلیا، انڈیا، سری لنکا اور کمبوڈیا کا سفر اسی سال کیا جانا ہے۔
شاید وہ اس دوران کچھ عرصے کے لیے برطانیہ بھی جائیں لیکن فی الحال ان کا مستقل واپسی کا کوئی ارادہ نہیں کیوںکہ ’زندگی کا معیار اب بہت بہتر ہے۔‘
انھیں بہت سے پیغامات ملتے ہیں جن میں مشورہ طلب کیا جاتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ان سے اور والدین کو مدد اور رہنمائی ملے گی۔
تمیرا کا کہنا ہے کہ ’سب کچھ ہر وقت اچھا نہیں ہوتا لیکن اگر آپ ایسی شخصیت ہیں جو چیلنج پسند کرتی ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت بتانا چاہتی ہے تو ایسا ضرور کریں لیکن جب تک آپ کوشش نہیں کریں گے، آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔‘
کرس کہتے ہیں کہ ’یہ ایک خواب تھا جسے ہم نے ممکن بنایا۔ بطور خاندان ہم نے ہر لمحے کا لطف اٹھایا اور پر مشکل پر قابو پایا۔‘