یوکرین کے ’نایاب معدنی ذخائر‘ کون سے ہیں اور ٹرمپ انھیں کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

ٹرمپ کی تجویز نے یہ تو واضح کر دیا کہ یوکرین میں موجود معدنیاتی ذخائر امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ لیکن یہ معدنیات کیا ہیں، اور امریکہ ان سے کو کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟
معدنیات
Getty Images

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کے 500 ارب ڈالر کے معدنیاتی ذخائر تک رسائی فراہم کرنے کی تجویز کو ٹھکراتے ہوئے جب جمعرات کے دن کہا کہ وہ اپنا ’ملک بیچ نہیں سکتے‘ تو بہت سے لوگ یہ سوال کرنے لگے کہ یوکرین کے پاس ایسی کون سی قیمتی معدنیات ہیں جن میں ٹرمپ دلچسی رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ یوکرین میں نایاب زیرزمین معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم ان میں سے بہت سے ذخائر ایسے علاقوں میں موجود ہیں جن پر اس وقت روسی فوج کا قبضہ ہے۔

ٹرمپ نے تجویز دی تھی کہ اگر یوکرین، روس کے خلاف امریکہ کی حمایت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ ذخائر امریکہ کو دے دے۔ تاہم اس تجویز کے جواب میں صدر زیلینسکی نے کہا کہ ’یہ کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہے، میں اپنا ملک نہیں بیچ سکتا۔

تاہم ٹرمپ کی تجویز نے یہ تو واضح کر دیا کہ یوکرین میں موجود معدنیاتی ذخائر امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ لیکن یہ معدنیات کیا ہیں، اور امریکہ ان سے کو کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

’ریئر ارتھ منرلز‘: نایاب زیرزمین معدنیات کیا ہیں؟

نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں ’ریئر ارتھ‘ کہا جاتا ہے کہ 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جن کا جدید ٹیکنالوجی میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یوکرین
Getty Images
یوکرین میں نایاب زیرزمین معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم ان میں سے بہت سے ذخائر ایسے علاقوں میں موجود ہیں جن پر اس وقت روسی فوج کا قبضہ ہے

یہ معدنیات سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔

انھیں نایاب اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کا خالص حالت میں مل جانا بہت غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے تاہم دنیا بھر میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔

لیکن اکثر یہ نایاب معدنیات تھوریئم اور یورینیئم جیسے تابکاری عناصر کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ان کو الگ کرنے کے لیے بہت سے زہریلے اجزا کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ان کو نکالنے کا عمل پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

یوکرین میں کون کون سی نایاب معدنیات پائی جاتی ہیں؟

یورپی یونین کی جانب سے جن 30 اجزا کی ’انتہائی اہم مواد‘ کے طور پر تعریف کی گئی ہے ان میں سے 21 یوکرین میں پائی جاتی ہیں اور دنیا میں موجود نایاب معدنیات کے ذخائر کا پانچ فیصد اسی ملک میں ہے۔

جن علاقوں میں یہ ذخائر موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر یوکرین کے ’کرسٹلائن شیلڈ‘ نامی علاقے کے جنوب میں ازوو سمندر میں ہیں اور زیادہ تر علاقے روس کے قبضے میں ہیں۔

تاہم کیئو، مڈل بز، ونیٹسیا اور زٹومیر خطوں میں بھی ان کے ذخائر ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سینکڑوں اشیا کی شناخت ہوئی ہے لیکن ان میں سے چند ہی کو نکالنا معاشی اعتبار سے سودمند ہو گا۔

ایڈم ویب ’بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ میں بیٹری سے متعلقہ معدنیات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک جو تخمینے یا اندازے لگائے گئے ہیں وہ صرف اندازے ہی ہیں۔‘

ان کے مطابق ان معدنیاتی ذخائر کو معاشی وسائل میں تبدیل کرنے کے لیے بہت کام کی ضرورت ہے۔ فوربز یوکرین کے مطابق دیگر اہم معدنیات میں سے 70 فیصد ڈونیٹسک، لوہانسک اور ڈنیپروپیٹروسک خطوں میں واقع ہیں اور ان میں سے زیادہ تر علاقے روس کے زیراثر ہیں۔

یوکرین کی حکومت کے مطابق ملک میں ساڑے چار لاکھ ٹن لیتھیئم کے ذخائر ہیں۔ روس نے دو لیتھیئم ذخائر پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

ٹرمپ یہ معدنیات کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

امریکہ کی ان معدنیات تک رسائی کی خواہش کی ایک بڑی وجہ چین سے مقابلہ ہے جو دنیا میں ایسی نایاب معدنیات کی رسد اور فراہمی کا بڑا کھلاڑی ہے۔

گزشتہ دہائیوں کے دوران چین نایاب معدنیات نکالنے اور انھیں پروسیس کرنے میں عالمی سطح پر بہت آگے نکل گیا اور اس کے پاس ناصرف 60 سے 70 فیصد تک کی پروڈکشن موجود ہے بلکہ 90 فیصد پروسیسنگ بھی چین کے پاس ہی ہے۔

اور چین پر یہ انحصار ہی امریکہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ آخر یہی معدنیات جدید ٹیکنالوجی کے لیے ضرروی ہیں جس میں الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر اسلحہ تک شامل ہے۔

ٹرمپ
Getty Images

بی بی سی ورلڈ سروس کے ماحولیاتی نامہ نگار نوین سنگھ کا تجزیہ

ٹرمپ نے بائیڈن کی پالیسیوں کو ترک کر کے روایتی ایندھن کی طرف واپس جانے کا عندیہ دیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ اہم معدنیات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو توانائی کے منصوبوں کے لیے بھی اہم ہیں۔

یہی معدنیات الیکٹرانکس، عسکری ضروریات سمیت مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی ڈیٹا مراکز کی تیاری کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

ٹرمپ مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ان معدنیات کی بہت زیادہ مقدار درکار ہو گی خصوصی طور پر کاپر، سیلیکون، پالاڈیئم اور نایاب زیرزمین معدنیات۔

اور ان معدنیات کی فراہمی ایک مسئلہ ہے کیوں کہ اب ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان معدنیات پر چین کا کنٹرول ہی امریکہ اور چین کی چپقلش کی مرکزی وجہ ہے۔

چین قدرتی گریفائیٹ اور ڈسپرسیئم کی 100 فیصد، کوبالٹ کی 70 فیصد اور لیتھیئم اور مینگنیز کی 60 فیصد رسد کا مالک ہے۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان معدنیات کی بڑی کانوں کی ملکیت چین کے پاس ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج کی کمیٹی نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں کہا تھا کہ ’چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ خود اہم اور سٹریٹیجک معدنیات حاصل کرے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسی لیے یوکرین اور گرین لینڈ جیسی جگہوں پر نظر جما رکھی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.