’ڈیڑھ سو سالہ تاریخ‘، پشاور کے تین پولیس سٹیشن کو ثقافتی ورثہ قرار دینے کی تجویز

image
صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے تین قدیم تھانوں کی عمارتوں کو تاریخی ورثہ قرار دے کر بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پشاور پولیس نے اس حوالے سے محکمۂ آثار قدیمہ کے حکام سے باضابطہ طور پر رابطہ کر لیا ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تھانہ داؤدزئی، متھرا اور متنی پولیس سٹیشن کی عمارتیں سو سال سے زیادہ پرانی ہیں جنہیں ثقافتی ورثہ قرار دے کر ان کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’برطانوی دور میں تعمیر شدہ ان تاریخی عمارتوں کی تزئین و آرائش وقت کی ضرورت ہے تاکہ ان تھانوں کو منہدم ہونے سے بچایا جاسکے۔‘

ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ ’قدیم ترین تھانوں کی بحالی سے ایک جانب قومی ورثے کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا جب کہ دوسری جانب ان تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں اور سائلین کے لیے سازگار ماحول بھی میسر آ سکے گا۔‘

پولیس حکام نے اس سلسلے میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد سے رابطہ کرکے ان قدیم تھانوں کو تاریخی ورثہ قرار دینے کی تجویز دی ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد کا کہنا ہے کہ محکمۂ آرکیالوجی نے ان تھانوں کی بحالی کو اپنے پراجیکٹ میں شامل کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔

منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے گا۔: محکمۂ آثارِ قدیمہخیبرپختونخوا محکمۂ آرکیالوجی اور میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد نے پولیس حکام سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایس ایس پی آپریشنز برٹش دور کے تھانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پولیس حکام سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ امید ہے بہت جلد اس منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے گا۔‘

نوازالدین درانی کا کہنا ہےھا کہ ’تھانہ متھرا اور متنی کی عمارتیں بھی سو سال سے زیادہ پرانی ہیں۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

انہوں نے کہا کہ ’پشاور پولیس کی نشاندہی کے بعد ان تاریخی عمارتوں کا جائزہ لینے کے لیے آرکیالوجی کے ماہرین ان عمارتوں کا دورہ کریں گے جس کے بعد ان کی تزئین و آرائش پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا جاسکے گا۔‘

قدیم ترین پولیس سٹیشن کی تاریخپشاور میں سب سے قدیم ترین تھانہ داؤدزئی کے علاقے میں ہے جو پشاور اور چارسدہ کے وسط میں واقع ہے۔ 19 کنال رقبے پر محیط داؤدزئی تھانہ سب سے بڑا پولیس سٹیشن ہے جو انگریز دور حکومت میں تعمیر کیا گیا۔

اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پولیس سٹیشن کو دریا کے قریب بنایا گیا تھا۔

تاریخ دان نوازالدین درانی کے مطابق تھانہ داؤدزئی کی عمارت 1884 سے بھی پرانی ہے اور اس پولیس سٹیشن میں سب سے پہلے تھانیدار 1886 میں تعینات ہوئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس قدیم پولیس سٹیشن میں 6 سکھ اور ہندو ایس ایچ او بھی تعینات رہے جن کے نام پولیس سٹیشن میں آج بھی درج ہیں۔‘

تاریخ دان نوازالدین درانی نے بتایا کہ ’تقسیمِ ہند سے پہلے نگندر ناتھ اس پولیس سٹیشن کے آخری تھانیدار رہے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد اس عمارت کو پولیس سٹیشن کے طور پر ہی رہنے دیا گیا اور یہ آج بھی پولیس سٹیشن کے طور پر ہی کام کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈیڑھ سو سال پہلے پولیس سٹیشن کے لیے برطانیہ سے لوہا اور دیگر تعمیراتی سامان منگوایا گیا تھا۔‘

تاریخ دان نوازالدین درانی کے مطابق تھانہ داؤدزئی کی عمارت 1884 سے بھی پرانی ہے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تھانہ متھرا اور متنی کی عمارتیں بھی سو سال سے زیادہ پرانی ہیں تاہم ان کی تاریخ کے بارے میں مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔‘

آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے لیے قانون سازی کب ہوئی؟خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے سال 2016 میں آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جسے انٹیکویٹیز ایکٹ 2016 کا نام دیا گیا ہے۔

اس قانون کے تحت سو سال پرانی عمارت کو گرانے یا مرمت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

قانون سازی کے بعد محکمۂ آثار قدیمہ نے 1800 سے زائد پرانی عمارتوں کے مالکان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پرانے گھروں کو نقصان نہ پہنچانے کی وارننگ دی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ محکمۂ آثار قدیمہ نے پشاور کے اندرون شہر میں واقع بالی وڈ اداکار دلیپ کمار اور راج کپور کی حویلیوں کی تعمیر و مرمت کے لیے عالمی بنک سے مالی تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.