’امریکہ آنے سے قبل یہ لگتا تھا کہ وہاں پہنچنا ہی ایک مسئلہ ہے اور اگر آپ کسی بھی طریقے سے پہنچ گئے تو پھر کوئی وہاں سے نکال نہیں سکے گا۔
تاہم جن افراد کی سیاسی پناہ یعنی پولیٹیکل اسائلم کی درخواستیں التوا میں ہیں چاہے وہ قانونی طریقے سے امریکہ پہنچے ہوں یا غیر قانونی طریقے سے، اب انہیں یہاں پر اپنا مستقبل اور آئندہ کے منصوبے کھٹائی میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد پہلے انڈین اور اب پاکستانی غیر قانونی تارکین کے جہاز بھر کر انہیں بھی وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘
یہ کہنا ہے امریکہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دہندہ ایک پاکستانی سیاسی کارکن عاشر محمود (فرضی نام) کا جو گذشتہ تین سال سے وہاں مقیم ہیں۔ ان کا نام ان کی درخواست پر تبدیل کرکے لکھا جا رہا ہے۔
وہ اگرچہ قانونی طریقے سے امریکہ پہنچے تھے لیکن جانے سے پہلے ہی انہوں نے ذہن بنا لیا تھا کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ جونہی پاکستان میں سیاسی حالات بدلے تو انہوں نے اس کی بنیاد پر سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’مجھ سمیت پاکستان سے بہت سے سیاسی کارکن، عام افراد اور کچھ صحافی بھی سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔ کچھ نے تو اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر بھی درخواست دے رکھی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے یورپ کے لیے ڈنکی کا تو سن رکھا تھا لیکن یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بہت سے افراد اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی 40 سے 50 لاکھ روپے خرچ کر کے ڈنکی لگا کر امریکہ پہنچے ہوتے ہیں۔‘
’وہ اس یقین کے ساتھ یہاں پہنچے کہ جیسے ہی وہ امریکی سرزمین پر قدم رکھیں گے، وہ پناہ کے لیے درخواست دینے کے اہل ہو جائیں گے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔‘
ان کے مطابق ’جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو صدارت کا حلف اٹھایا، تو ان کی پہلی پالیسی نے ہمارے لیے یہ دروازہ بند کر دیا۔‘
’صدر ٹرمپ نے ایک حکم نامے کے ذریعے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے پناہ حاصل کرنے پر پابندی لگا دی۔ ہزاروں افراد سے یہ موقع چھین لیا گیا کہ وہ وضاحت کر سکیں کہ انہیں اپنے وطن سے فرار ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔‘
’بہت سے افراد اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے اور ڈنکی لگا کر امریکہ پہنچے ہوتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست کون دے سکتا ہے؟
امریکہ میں پناہ کے قوانین امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ (INA) کے تحت آتے ہیں، جو کہ امریکی امیگریشن قوانین کی بنیادی دستاویز ہے۔
اس کے علاوہ پناہ کے عمل اور اصولوں کو مختلف عدالتی فیصلے، صدارتی حکم نامے اور امیگریشن اداروں کی پالیسیز بھی متاثر کرتی ہیں۔
امیگریشن ماہر اور وکیل عقیل احمد کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں پناہ کے قوانین ہمیشہ سے سخت تھے، لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں یہ تقریباً ناممکن ہوگئے ہیں۔‘
’سرکاری طور پر پناہ اُن افراد دی جاتی ہے جو یہ ثابت کر سکیں کہ انہیں نسل، مذہب، قومیت، سیاسی نظریات یا کسی خاص سماجی گروہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ افرمیٹیو اسائلم ہے جو ان افراد کے لیے ہے جو قانونی طور پر امرکہ میں داخل ہوئے ہوں یا ابھی بے دخلی کا سامنا نہ کر رہے ہوں۔‘
دوسرا طریقہ ڈیفینسیو اسائلم ہے جو ان افراد کے لیے ہے جو پہلے سے بے دخلی کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہوں۔ لیکن اگر حقیقت میں انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ ہو تو اُن کی بات سنی جاتی ہے۔‘
وکلا کہتے ہیں کہ ’اگر اپنی زندگی کو لاحق خطرے کا ثبوت پیش کر دیا جائے تو امریکہ میں پناہ مل جاتی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ان کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسیوں نے یہ قانونی فرق بھی بے معنی بنا دیا ہے، کیونکہ ہزاروں تارکین وطن کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘
’بے شمار پاکستانی اس امید پر ایک خطرناک سفر کرتے رہے کہ اگر وہ کسی طرح امریکہ پہنچ گئے تو وہاں رہنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔‘
عقیل احمد کہتے ہیں کہ ’کچھ افراد سیاسی جبر سے بچنے کے لیے فرار ہوئے، ڈرتے تھے کہ ریاستی ادارے انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘
’امریکہ میں خواتین بھی پناہ کی درخواست دیتی ہیں، یہ خواتین ریاست مخالف سوچ رکھنے، جبری شادیوں، غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد سے جیسے واقعات کی بنیاد پر پناہ کی درخواستیں دیتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو لاحق خطرے کا ثبوت پیش کر دے، تو اسے پناہ یا اسائلم دے دی جاتی ہے جس کے بعد وہ امریکہ میں قانونی طور پر رہ سکتا ہے اور کچھ عرصے بعد گرین کارڈ کے لیے بھی درخواست دے سکتا ہے۔‘
امیگریشن ماہر عقیل احمد کے مطابق ’اگر ایسے شخص کا کیس مسترد ہو جائے تو اسے ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں پناہ کے قوانین مسلسل بدلتے رہتے ہیں، اور ہر صدر اپنی پالیسیوں کے ذریعے انہیں متاثر کرتا ہے۔‘
’انڈیا کے بعد اب پاکستانی غیر قانونی تارکین کے جہاز بھر کر انہیں بھی وطن واپس بھیجا جا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف صدر ٹرمپ کی سخت پالیسی
’صدر ٹرمپ کے حکم نامے سے پہلے جو افراد غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچتے انہیں حراست میں لے لیا جاتا اور انہیں پناہ کے حصول کے لیے ایک طویل قانونی کارروائی سے گزرنا پڑتا، جو اگرچہ مشکل تھی، لیکن کم سے کم انہیں ایک موقع ضرور دیتی تھی۔‘
عقیل احمد کا کہنا تھا کہ ’بعض افراد کئی برسوں تک عدالت میں اپنا کیس لڑتے، اور اس دوران ورک پرمٹ بھی حاصل کر لیتے، تاہم صدر ٹرمپ نے سب کچھ بدل دیا۔‘
’صدر کے حکم نامے کے مطابق بارڈر پیٹرول اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو کسی سماعت یا اپیل کا موقع دیے بغیر فوری طور پر ڈی پورٹ کر دیا جائے۔‘
امیگریشن ماہر عقیل احمد مزید کہتے ہیں کہ ’حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں وہ ڈیجیٹل سسٹم بھی بند کر دیا گیا جس کے ذریعے سرحد پر موجود پناہ گزین اپنی درخواستیں جمع کروا سکتے تھے۔‘
’بعض پاکستانی جنوبی اور وسطی امریکہ کے خطرناک جنگلوں، دریاؤں اور بیابانوں کو عبور کر کے کسی نہ کسی طرح امریکہ پہنچ جاتے تھے۔‘
وکلا کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں مذہبی اقلیتوں کے کیسز میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستانی کس بنیاد پر پناہ کی درخواست دیتے ہیں؟
امریکی امیگریشن عدالتوں میں پاکستانیوں کے ایسے کیسز بڑی تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگی بچانے کے نام پر پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔
تاہم ایسے افراد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کہانی کو ثابت کیسے کریں۔
وکلا کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے کیسز میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے واقعات میں وہ خود کو کسی ایک واقعے کا حصہ ظاہر کرتے ہیں اور ان واقعات کے ٹھوس شواہد اور اخباری تراشے بھی موجود ہوتے ہیں۔
تاہم سیاسی پناہ کے دعوے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ ریاستی جبر یا ایجنسیوں کے مبینہ خطرات کی بنیاد پر درخواست دیتے ہیں، انہیں اپنے دعوے کو ٹھوس دستاویزات، پولیس رپورٹس اور خبروں کے ذریعے ثابت کرنا ہوتا ہے۔
امریکہ میں موجود امیگریشن وکیل عمران شیخ کا کہنا ہے کہ ’امریکی عدالتیں محض کہانیوں پر یقین نہیں کرتیں۔ انہیں شواہد درکار ہوتے ہیں۔ بہت سے پناہ گزینوں کے پاس ایسی دستاویزات نہیں ہوتیں، خاص طور پر جب وہ فوری فرار ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ سال 2023 میں اڑھائی ہزار کے قریب پاکستانیوں نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جن میں سے صرف 144 کو منظور کیا گیا تھا۔
سنہ 2023 میں اڑھائی ہزار کے قریب پاکستانیوں میں سے صرف 144 کو امریکہ میں سیاسی پناہ ملی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دیگر ممالک میں پناہ کی صورت حال کیا ہے؟
پاکستانی صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ کینیڈا، برطانیہ، یورپ اور سکینڈینیوین ممالک میں بھی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گذشتہ سال یہ تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔
ماہرین کے مطابق کینیڈا کبھی زیادہ دوستانہ رویہ رکھتا تھا، لیکن اب اس کا امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اگر کوئی شخص پہلے امریکہ میں داخل ہو چکا ہو، تو وہ کینیڈا میں پناہ کی درخواست نہیں دے سکتا۔
’یورپ میں بھی قوانین سخت ہو چکے ہیں، جہاں تارکین وطن کو اسی ملک میں درخواست دینا پڑتی ہے جہاں وہ سب سے پہلے داخل ہوتے ہیں، یعنی اکثر یونان یا اٹلی جیسے ممالک میں۔‘
برطانیہ میں اسائلم یا پناہ کے کیسز کو منظور ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اور مسترد ہونے کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ صورت حال ان پاکستانیوں کے لیے پریشان کن ہے، جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی لگا کر ڈنکی کا خطرناک سفر اختیار کیا۔