’میں مصطفیٰ کے قتل کا واحد چشم دید گواہ ہوں، پولیس نے اعترافی بیان کے لیے دباؤ ڈالا‘

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم سید شیراز حسین بخاری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان پر اعترافِ جرم کے لیے دباؤ ڈالا جبکہ وہ اس مقدمے میں گواہ ہیں۔ شیراز کے اس بیان کے بعد مجسٹریٹ نے پولیس کی اعترافی بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
فائل فوٹو
Getty Images

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم سید شیراز حسین بخاری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان پر اعترافِ جرم کے لیے دباؤ ڈالا جبکہ وہ اس مقدمے میں واحد چشم دید گواہ ہیں۔ شیراز کے اس بیان کے بعد مجسٹریٹ نے پولیس کی اعترافی بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

خیال رہے کہ 27 فروری کو کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں مرکزی ملزمان ارمغان اور شیراز کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے پولیس کو ملزم ارمغان کا میڈیکل چیک اپ کروانے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ کراچی کے رہائشی 23 سالہ مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس کے مطابق اُن کی جھلسی ہوئی لاش بلوچستان میں حب کے علاقے دہریجی سے ملی تھی۔ مصطفی کو مبینہ طور پر اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے ملزمان ارمغان اور شیراز کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس کیس میں مرکزی ملزم ہیں۔ تاہم اب شیراز نے اعترافی بیان کے لیے پولیس کی طرف سے دباؤ کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بات اہم اس لیے ہے کیونکہ پولیس کے سامنے اعترافی بیان کی عدالت میں قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

پیر کے روز شیراز کو تفتیشی افسر کی اعترافی بیان کی درخواست کے سلسلے میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس حوالے سے جاری کردہ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ملزم شیراز کو بتایا گیا کہ ان پر اعترافی بیان دینا لازم نہیں تاہم اس بیان کو ان کے خلاف بطور شواہد استعمال کیا جا سکے گا۔

حکمنامے کے مطابق اس پیشی کے دوران کمرۂ عدالت میں پولیس موجود نہیں تھی۔ شیراز نے عدالت کو بتایا کہ 'وہ اس کیس میں واحد چشم دید گواہ ہیں۔ ملزم ارمغان نے ان کی موجودگی میں مصطفی کو قتل کیا لیکن وہ اس وقت بے یار و مددگار تھے۔'

شیراز نے عدالت کو بتایا کہ ’انھیں ناجائز طور پر اس کیس میں شریک ملزم بنایا جا رہا ہے۔‘

شیراز نے دعویٰ کیا کہ 'ارمغان نے مصطفیٰ کو لوہے کے ڈنڈے سے مارا اور مجھے زبردستی گن پوائنٹ پر بلوچستان لے گئے جہاں مصطفیٰ کی گاڑی کو نذرِ آتش کیا گیا۔'

عدالتی حکمنامے کے مطابق شیراز نے مزید یہ دعویٰ کیا کہ ان پر ’اعترافی بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور کم سزا کی پیشکش کی گئی۔‘

انھوں نے تھانے میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا بھی الزام لگایا۔

اب تک پولیس نے شیراز کے اِن الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

مصطفیٰ کے قتل کا ’ہائی پروفائل کیس‘

27 فروری کو کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں مرکزی ملزمان ارمغان اور شیراز کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

سماعت کے دوران جب ملزم ارمغان کو عدالت میں لایا گیا تو اُن سے پہلے اُن کے والد اور پھر والدہ نے ملاقات کی۔ ارمغان کی والدہ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ ان کے وکیل کے وکالت نامے پر دستخط کر دے جبکہ تھوڑی دیر کے بعد ملزم کے والد نے انھیں اُن کے نامزد کردہ وکیل کے وکالت نامے پر دستخط کرنے کی ہدایت کی۔

جب عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو اسی بنیاد پر بحث کا آغاز ہوا کہ کس کے وکالت نامے پر دستخط کیے جائیں۔ اس پر عدالت نے ملزم سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ کیا والد اور والدہ دونوں کی جانب سے نامزد کردہ وکلا کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔

تاہم جج کا کہنا تھا کہ سندھ بار کونسل کے رولز دیکھ لیں اور ان کے تحت کیا یہ ممکن ہے، اس پر ملزم نے کہا کہ وہ والد کی جانب سے نامزد کردہ وکیل کو قبول کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ سی آئی اے کے ڈی آئی جی مقدس حیدر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ مصطفیٰ پر تشدد کیا گیا اور اس کے بعد ان کو اُن کی ہی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے دہریجی لے جایا گیا اور گاڑی کو آگ لگا دی گئی۔

ابتدا میں ایدھی حکام نے مصطفی کی لاش کو لاوراث قرار دے کر دفنا دیا تھا اور بعدازاں قبرکشائی اور ڈی این اے کی رپورٹ کی بنیاد پر ان کی باقیات ان کی والدہ کو واپس کی گئیں۔

جمعرات کو دوران سماعت ملزم ارمغان کے وکیل عابد زماں نے کہا کہ جب ارمغان کے گھر پولیس مقابلہ ہوا تو اس وقت موقع پر اُن کی والدہ بھی موجود تھیں اور یہ کہ وہ اس کیس کی چشم دید گواہ ہیں مگر پولیس نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

ملزم کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے ہی اپنے بیٹے کو پولیس کے سامنے سرینڈر کیا تھا۔

ملزم کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس کو حکم دیا جائے کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ پچھلے دو دنوں میں انھوں نے کیا تحقیقات کی ہیں۔ اس موقع پر اس کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے اور اس کے علاوہ ایک لڑکی کو بھی ٹریس کیا ہے جس کا ڈی این اے ملزم ارمغان کے گھر سے ملا تھا۔

سماعت کے دوران ارمغان کے وکیل نے عدالت سے گزارش کی کہ اس کی ملاقات وکیلوں اور والدین سے کروائی جائے جس پر جج نے کمرہ عدالت میں ملاقات کروانے کا حکم جاری کر دیا۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے جس میں قتل کیا گیااور مقتول کو جلایا گیا۔ اس موقع پر ملزم ارمغان نے عدالت کو بتایا کہ وہ اذیت میں ہیں اور انھیں گذشتہ دس روز سے واش روم جانے نہیں دیا گیا۔

اس پر عدالت جج نے سوال کیا کہ کیا یہ ممکن ہے؟ جس پر وکلا کا کہنا تھا کہ ارمغان ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔

فائل فوٹو
Getty Images

مصطفیٰ شام 6 بجے مسکراتے ہوئے گھر سے نکلا تھا: والدہ

مصطفیٰ کی والدہ نے بدھ کی شب بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا بتایا کہ چھ جنوری کو 'مصطفیٰ شام چھ بجے میرے سامنے مسکراتے ہوئے گھر سے نکلا تھا۔ آخری بار اُس وقت ہی میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا اور پھر اُسی روز اس کو مار دیا گیا تھا۔'

والدہ کے مطابق مصطفی کی میت ملنے کے بعد جس طرح کی خبریں آئیں اس نے ان کی تکلیف کو ناقابل بیان حد تک بڑھا دیا تھا۔

'جن حالات میں اُس کی میت ملی اور ایدھی والوں کا بیان آیا کہ اُس کے ہاتھ، پیر اور سر نہیں ہے۔۔۔ ایک تکلیف بیٹے کی وفات کی تھی اور ایک تکلیف اُن خبروں کی تھی جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔'

انھوں نے کہا کہ 'ہر ماں اتفاق کرے گی اس طرح کی تکلیفوں سے لڑنے کے بعد آپ کا زندہ رہنے کا دل نہیں چاہتا۔'

مصطفیٰ عامر کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ ڈی این اے کی رپورٹ آنے تک انھیں امید تھی کہ ان کا بیٹا کہیں سے آ جائے گا۔

'میری تو آج بھی یہ ہی خواہش ہے کہ کہیں سے میرا بیٹا چلتا ہوا آ جائے۔ میں شکر کرتی ہوں کہ چھاپے کے وقتکسی پولیس اہلکار نے ملزمان پر جوابی فائرنگ نہیں کی کیونکہ میرے بیٹے سے متعلق معلومات اُن کے پاس ہی پاس تھیں۔'

مصطفیٰ کی والدہ وجیہ عامر کے دو بیٹے ہیں جن میں مصطفیٰ عامر بڑے تھے۔ مصطفی کے والد سرکاری ملازم ہیں۔ اہلخانہ کے مطابق مصطفی کالج کے بعد ملائیشیا پڑھنے چلا گیا تھا اور جب چھٹی پر آیا تو کورونا کی وبا آ گئی جس کے بعد اُس نے کراچی ہی میں داخلہ لے لیا۔

اُن کے مطابق مصطفیٰ کو گاڑیوں کا بہت شوق تھا اور اس کے دوست اپنی گاڑیوں کی اپ گریڈیشن کے لیے اس سے مشورے لیتے تھے۔

مصطفی کی والدہ کہتی ہیں کہ 'مصطفیٰ کا کوئی ایک گروپ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ سارے اچھے گھروں کے بچے تھے۔'

والدہ وجیہ عامر نے بتایا کہ چھ جنوری کی رات سے، جب مصطفیٰ لاپتہ ہوا تھا، آج تک وہ سو نہیں سکی ہیں۔ 'مصطفیٰ دوستوں کا دوست تھا۔ اس کی ایف آئی آر درج کروانے بھی ساتھ دوست گئے تھے۔ انھوں نے اس کی گمشدگی پر سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی تھی۔ وہ روز کوئی نہ کوئی نیا سراغ لگا رہے تھے۔'

فائل فوٹو
Getty Images

پولیس کی تفتیش میں اب تک کیا انکشافات سامنے آئے؟

کراچی میں پولیس کو ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان قریشی مبینہ طور پر اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن سے منشیات لیتا تھا اور اس کے گھر سے ملنے والا لڑکی کا ڈی این اے اس کی ملازمہ کا تھا۔

کراچی پولیس کے ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بی بی سی کو ابتدائی تحقیقات کی تفصیلات بتائی۔ ڈی آئی جی مقدس حیدر کا دعویٰ ہے کہ انھیں ارمغان کی ملازمہ اور ساحر حسن کا مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملوث ہونے سے متعلق تاحال کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ ساحر حسن کا مصطفیٰ عامر کے قتل کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم ارمغان اس سے منشیات لیتا تھا، شہر میں منشیات فروشوں کے خلاف جو کارروائیاں جاری ہیں اس میں ہی اس کو گرفتار کیا گیا ہے۔'

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے بتایا کہ 'تحقیقات کے دوران وہ اس لڑکی تک پہنچ گئے تھے، اس سے تفتیش بھی کی گئی تھی۔ وہ لڑکی ارمغان کے کال سینٹر میں کام کرتی تھی اور یہ کال سینٹر غیر قانونی تھا۔ جب شہر میں ان کال سینٹروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو انھوں نے اس کو بند کردیا تھا، اس کال سینٹر کے ذریعے سکیمنگ کی جاتی تھی۔'

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی تھی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔

پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

ڈی آئی جی سی آئےاے مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق 'بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔'

پولیس کے مطابق ارمغان کے گھر کے قالین پر موجود خون کے دھبے سے ڈی این اے لیے گئے تھے جو سندھ فارنزک اینڈ سیرلوجی لیبارٹی کو بھیجے گئے۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور مبینہ قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا۔

بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ کے حقیقی بیٹے کا نہیں ہے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ 'مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں دوران تفتیش میں اب تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ پر شدید تشدد کے بعد انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کے قریب لے جایا گیا جہاں گاڑی سمیت اسے آگ لگا دی گئی۔'

مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔

اس کے علاوہ سی آئی اے پولیس نے گاڑی کو حب لے جانے کے راستے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جس میں گاڑی کی شناخت ہوئی۔ اس کے علاوہ دریجی تھانے میں ایک نامعلوم گاڑی جلنے کی ایف آئی آر پہلے سے درج تھی۔ بلوچستان پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا تھا جنھوں نے اس کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔

ایس ایس پی انیل حیدر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے بعد ارمغان اور شیراز کراچی چھوڑ گئے تھے اور چند روز قبل ہی واپس لوٹے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.