ماہرین نفسیات کا بھی یہ کہنا ہے کہ بچوں کے اس نوعیت کے سوالات کے مناسب جواب دینا اور انھیں بنیادی معلومات فراہم کرنا دراصل والدین کے اوپر بچوں کا بھروسہ اور اعتماد قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے جبکہ سوال کے تشفی بخش جواب نہ دینا بچوں کو مستقبل میں والدین پر بھروسہ کرنے سے روک سکتا ہے۔
’میری چھوٹی بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ مما آپ اتنی موٹی کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا آپ کے پیٹ میں گیند ہے؟‘
ہما اسامہ آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں جب اُن کی چھوٹی بیٹی نے اُن سے یہ دلچسپ سوال پوچھا۔
ہما کے مطابق اب بچوں کو یہ کہہ کر نہیں بہلایا جا سکتا کہ ان کا چھوٹا بہن یا بھائی ہسپتال سے آئے گا یا کوئی پری ٹوکری میں ڈال انھیں یہ دے جائے گی۔ اس لیے ہما نے اپنے بچوں کو نئے بہن، بھائی کی آمد سے قبل ہی ذہنی طور پر تیار بھی کیا اور ان کے سوالوں کے جوابات بلا جھجھک دیے۔
’حمل کے آخری مہینوں میں میری بیٹی فاطمہ نے پوچھا کہ مما آپ اتنی موٹی کیوں ہو رہی ہیں اور ساتھ ہی اس نے بتایا کہ ماما میں نے کارٹون میں دیکھا تھا کہ اس میں بے بی ٹمی (پیٹ) سے باہر نکلا تھا۔ تو جب میں نے یہ سُنا تو میں نے اور میرے شوہر نے اس کو آرام سے سمجھایا کہ آپ کا نیا بھائی یا بہن آنے والا ہے، اور پھر ہم نے اس کو اس کی مثالیں دیں۔‘
ہما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے بیٹی کو سمجھایا یہ بچے ماں کے پیٹ میں ہی بنتے ہیں اور پھر اُن کو وہاں سے نکال لیا جاتا ہے۔ جانوروں میں بھی بچوں کی پیدائش کا عمل ایسے ہی ہوتا ہے۔‘
ہما کہتی ہیں کہ ’چھوٹے بچوں کے تولیدی عمل اور سیکس سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب ہم اس طرح دے سکتے ہیں اور انھیں اُتنا بتا سکتے ہیں جتنا اُن کا دماغ قبول کر سکے۔ مگر اُن کو بتانا ضروری ہے۔‘
ہما کا کہنا ہے کہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں بچے آن لائن یا دوستوں سے معلومات حاصل کرنے کے بجائے والدین پر انحصار بڑھائیں۔
ہما اسامہ کے چار بچے ہیں۔ ان کے مطابق بچوں کی پرورش کے دوران اُن کو اکثر اوقات اس نوعیت کے سوالات کا سامنا رہتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا بھی یہ کہنا ہے کہ بچوں کے اس نوعیت کے سوالات کے مناسب جواب دینا اور انھیں بنیادی معلومات فراہم کرنا دراصل والدین کے اوپر بچوں کا بھروسہ اور اعتماد قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے جبکہ سوال کے تشفی بخش جواب نہ دینا بچوں کو مستقبل میں والدین پر بھروسہ کرنے سے روک سکتا ہے۔
’جب بچے سوشل میڈیا پر جا کر اپنے ذہن میں موجود سوالات کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو بعض اوقات اُن کے پاس اپنی عمر کے مقابلے میں بہت زیادہ انفارمیشن آ جاتی ہے جو نقصاندہ ہو سکتا ہے‘40 سالہ سمیع کا تعلق یوں تو پنجاب کے ایک نواحی علاقے سے ہے تاہم وہ عرصہ دراز سے اسلام آباد میں مقیم ہیں اور یہیں ان کے چار بچے پیدا ہوئے ہیں۔
11 سال سے لے کر تین سال کی عمر کے اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے دوران سمیع اس بات کا خیال رکھ رہے ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں اور اُن کی عمر اور سمجھ کے مطابق اُن کے ہر سوال کا جواب دیں تاکہ وہ جنس کے حوالے سے عمر سے قبل متجسس ہونے کے بجائے اس نوعیت کی معلومات کو نارمل لیں۔
’بچے ہمارے (میاں، بیوی) کمرے کا واش روم استعمال کرتے ہیں اس لیے ہم رات کو اپنے کمرے کا دروازہ لاک نہیں کرتے۔ بڑے بچے بھی ہمیں ساتھ اور قریب سوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن کچھ کہتے نہیں۔ لیکن چھوٹا والا اکثر سوال کرتا ہے۔‘
’ایک روز میرے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ بابا میں نے دیکھا تھا کہ سوتے ہوئے آپ نے ماما کو گلے لگایا ہوا تھا۔ جواب میں میں نے کہا کہ ’میاں، بیوی ساتھ سوتے بھی ہیں، اور گلے بھی لگتے ہیں۔ جب تمہاری بیگم آئے گی تم بھی ایسا کر لینا۔ یہ سُن کر وہ شرما گیا۔‘
سمیع کے مطابق ’بتانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے یہ سمجھ جائیں کہ ماما، بابا میاں، بیوی ہیں اور ان کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے جس میں یہ معمول کی بات ہے اور کوئی انوکھی بات نہیں۔‘
ماہر نفسیات بچے کی بہتر ذہنی نشوونما کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ بچہ آپ ہی پر بھروسہ کرے اور اس کے لیے اسے ہر سوال کا جواب آپ سے ملنا لازمی ہے نہ کہ اسے چپ کروا کے ٹال دینا۔
ہما بتاتی ہیں کہ میاں، بیوی کے رشتے یا تولیدی عمل کے بارے میں جب آپ بچوں سے کُھل کر بات کریں گے تو آگے چل کر بچوں کی سیکس سے متعلق ایجوکیشن میں آسانی رہے گی۔
ہما بتاتی ہیں کہ ’میں نے بیٹے اور بیٹیوں کو بتایا کہ ماما بابا کے علاوہ وہ نہ تو وہ کسی کی گود میں بیٹھیں اور اگر کوئی ان کے جسم، بالخصوص چھاتی، یا جسم کے نیچے کے حصے کو چھونا چاہے تو یہ ٹھیک بات نہیں اور ایسی صورت میں وہ فوراً ماما بابا کو بتائیں۔‘
ہما کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بڑے ہوتے وقت بتایا کہ بہنوں اور ماما کا ایک سسٹم ہوتا ہے جس میں انھیں ہر مہینے بلیڈنگ ہوتی ہے اور بعد میں اسی سے آگے نسل بڑھتی ہے تو یہ سب ایک نارمل بات ہے۔‘
دوسری جانب سمیع بتاتے ہیں کہ انھوں نے 12 سال کی عمر میں پہنچنے والے اپنے بیٹوں کو سمجھایا کہ اب ان کے لیے انڈرویئر پہننا کیوں ضروری ہے اور جسم کے مخصوص مقامات کی صفائی بھی۔
سمیع کے مطابق ’میں نے اپنے بچوں کو وقتا فوقتا یہ بتایا کہ جسم میں آنے والی تبدیلیوں کا عمل سب کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بڑے ہو کر ہم اپنی ایک فیملی بنا سکیں۔‘
مگر بچوں کے ذہن میں اٹھنے والے سیکس یا تولیدی صحت سے متعلق سوالات کے جواب والدین سے ملنا کیوں ضروری ہیں اور اس ضمن میں سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات بچوں کے ذہنوں پر کس طرح اثر ڈالتی ہے؟
بی بی سی نے اس موضوع پر والدین کے علاوہ ماہرین نفسیات سے بھی بات کی تاکہ آج کے ڈیجیٹل دور کے بچوں کے اندر موجود سیکس اور تولیدی صحت سے متعلق تجسس اور اس حوالے سے والدین کی ذمہ داری کے درمیان تعلق کو سمجھ سکیں۔
بچوں کے سوالات کا جواب دینا ضروری کیوں ہے؟
والدین کی رہنمائی کے بعد جب بچے آن لائن اِن معلومات تک پہنچتے ہیں تو اُن کے اندر تجسس کا عنصر اتنا زیادہ نہیں رہتاروایتی گھرانوں میں والدین کے لیے اس نوعیت کے سوالات چیلنج سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن ان کے جوابات اگر والدین ہی دیں تو اُن کے بچے کی دماغی نشوونما بہتر رہتی ہے بلکہ ماہرین کے مطابق بچے کا اپنے والدین کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
ماہر نفسیات طاہرہ جاوید کے مطابق والدین سے اس نوعیت کے سوالات کے جواب نہ ملنے پر بچے سوشل میڈیا پر جا کر جواب ڈھونڈتے ہیں تو بعض اوقات اُن کے پاس اپنی عمر کے مقابلے میں بہت زیادہ انفارمیشن آ جاتی ہیں۔
طاہرہ جاوید کے مطابق ’ایسی صورت میں بچہ آپ سے رازداری برتے گا، چھپ چھپ کے چیزیں دیکھے گا' آپ کے پوچھنے پر چھپائے گا، جھوٹ بولے گا اور اکیلا بیٹھنا شروع کرے گا۔ گھر کے مقابلے میں دوستوں میں زیادہ بات کرے گا۔‘
ان کے مطابق والدین کی رہنمائی کے بعد جب بچہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان معلومات تک پہنچتا ہے تو اس کے اندر تجسس کا عنصر اتنا زیادہ نہیں رہتا۔
’بچے کو اگر سرے سے کسی چیز کا علم ہی نہ ہو تو آن لائن رہتے ہوئے وہ تجسس کے مارے ہر اُس چیز کی تہہ تک جانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے لیے نئی ہو۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہ کچھ ایسی چیزوں سے آشنا ہونے لگتے ہیں جو ان کی عمر کے حساب سے ان کے لیے نامناسب ہو سکتی ہیں۔‘
’اگر ان کو معلومات پہلے سے ہوں یا ان کے ذہن کے اندر آنے والے سوالوں کے جواب ان کو والدین کی جانب سے مل چکے ہوں تو وہ مثبت طور سے ان تمام معلومات کو نہ صرف ڈیل کر سکتے ہیں۔‘
ہما کہتی ہیں کہ آج کل بچے موبائل یا انٹرنیٹ پر سکرولنگ کے دوران بہت سی چیزیں دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اگر والدین وقت پر بچوں کی رہنمائی نہیں کریں گے تو تب بھی وہ جلد یا بدیر کہیں نہ کہیں سے یہ چیزیں ڈھونڈ لیں گے، مگر جب وہ یہ عمل اپنے طور پر کر رہے ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ یہ ان کے لیے نقصاندہ ثابت ہو۔
ہما کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے ذہن میں سوال آنا ایک فطری بات ہے تو اگر انھیں گھر سے ہی اعتماد ملے گا اور اپنے سوالوں کا مناسب جواب ملے گا تو وہ اپنا تجسس غلط چیزوں سے پورا نہیں کریں گے۔‘
تولیدی عمل اور سیکس سے متعلق بچوں کو کب آگاہ کیا جائے؟
طاہرہ جاوید کے مطابق اگر آپ کے پہلے بچے کی عمر ایک سے تین سال کے درمیان ہے اور آپ نئے بچے کی آمد کے منتظر ہیں تو والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کو جتنا لیٹ بتائیں اُتنا اچھا ہے مگر اگر بچہ سکول جاتا ہے یا تین سال سے اوپر کا ہے تو اس کو نئے بے بی کی آمد کے لیے پہلے سے تیار کرنا شروع کریں۔
اُن کے مطابق تین سال کی عمر کے بعد بچوں کا مشاہدہ تیز ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ماں کی جسمانی حالت میں تبدیلیاں بھی محسوس کرنے لگتے ہیں تو اس لیے بہتر ہو گا کہ بچوں کو بروقت بتائیں۔
طاہرہ جاوید کے مطابق تین سال یا اس سے تھوڑی بڑی عمر کے بچوں کو اس طرح بتائیں کہ ’اگر آپ کا اپنا کوئی بھائی بہن ہو جو ہم سب کے ساتھ رہے، وہ آپ سے کھیلے تو کتنا اچھا ہو گا۔‘
اُن کے مطابق ’اس طرح بچوں کو پریگنینسی کے پورے پراسیس میں اپنے ساتھ انگیج بھی رکھیں اور ان کی شمولیت کو اہم بنائیں، ان کے آئیڈیاز سُنیں اور اہمیت دیں، اس طرح وہ اپنے نئے آنے والے بھائی بہن کے حوالے سے ذمہ داری بھی محسوس کریں گے۔‘
’جتنا زیادہ آپ بچے کو انگیج کرتے ہیں اتنا بچے کے اندر اپنے بہن یا بھائی کو قبول کرنے میں آسانی ہوتی ہے ورنہ بچے ضد کرنے لگتے ہیں اور ان کے رویوں میں تبدیلی اور چڑچڑاپن بھی آ جاتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انھیں اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ کسی بھائی بہن کی صورت میں ان کو کیا کیا فوائد مل سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب ماہر نفسیات زہرہ ہمایوں نے بچوں کو اُن کی جنس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں بی بی سی کو بتایا کہ کیونکہ ہر بچہ مختلف ہوتا ہے، ہر خاندان کا ماحول الگ ہوتا ہے، اور وہ کس قسم کے سکول جا رہے ہیں، ان کا سماجی و اقتصادی پس منظر، اور ان کی زندگی کے دوسرے پہلو سبھی مختلف ہوتے ہیں اسی لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی خاص عمر میں ہی یہ گفتگو شروع کی جانی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم عمومی طور پر بات کریں تو سیکس اور جینڈر سے متعلق لڑکیوں کے لیے یہ آگاہی تب شروع ہو سکتی ہے جب وہ ماہواری (پیریڈز) کے قریب پہنچ رہی ہوں۔ یعنی شاید 9 یا 10 سال کی عمر میں، یا اس کے آس پاس۔‘
’لڑکوں کے لیے سیکس کی تعلیم سے متعلق والدین کی جانب سے بات چیت یا معلوماتکچھ تاخیر سے ہو سکتی ہے، کیونکہ لڑکوں کی جسمانی تبدیلیاں، جیسے آواز کا بھاری ہونا، عموماً 13 سال کی عمر کے آس پاس ہوتا ہے۔ تو شاید 9 سے 12 سال کے درمیان یہ موضوع ان سے ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے رائے دی کہ سب سے زیادہ مناسب یہی ہو گا کہ یہ گفتگو والدین خود کریں حالانکہ یہ ایک تھوڑا عجیب یا مشکل مکالمہ ہو سکتا ہے لیکن یہ سب سے زیادہ مؤثر بھی ہو گا۔
بچوں کے ساتھ گفتگو کیسے کی جائے؟
’اس نوعیت کے بات چیت میں الفاظ کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچے اس پورے عمل کو نارمل سمجھیں‘ماہر نفسیات زہرہ ہمایوں نے زور دیا کہ یہ صرف اس بارے میں نہیں کہ آپ اپنے بچوں سے کیا بات کر رہے ہیں، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ آپ کیسے بات کر رہے ہیں، کس قسم کے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں سے تولیدی عمل، صحت یا سیکس سے متعلق گفتگو کرتے وقت زبان اور الفاظ کا چناؤ بھی اہم ہے کیونکہ اس حساس مگر اہم موضوع پر جو زبان استعمال کی جا رہی ہوتی ہے وہ بچوں کے ذہن پر گہرا اثر ڈالتی ہیں اور اسی سے آگے چل کر اُن کے سیکس سے متعلق مثبت یا منفی رویے پروان چڑھتے ہیں۔
’مثال کے طور پرلڑکیوں میں ماہواری یا لڑکوں کا دوران نیند انزال کی حالت کو کہا جاتا ہے کہ تم ناپاکی کی حالت میں ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہوہ گھناؤنےیا قابل نفرت ہیں بلکہ یہ زیادہ تر عبادت سے متعلق ہوتا ہے، یعنی تم اس وقت نماز نہیں پڑھ سکتے۔‘
زہرہ ہمایوں کے مطابق جنس سے متعلقالفاظ یا زبان بچوں کی سوچ کو بُری طرح متاثر بھی کر سکتے ہیں کیونکہ وہ پھر یہ سمجھنے لگتےہیں کہ ناپاک کا مطلب ہے کہ میں ناپسندیدہاور کراہت آمیز ہوں چنانچہ مجھے خود کو صاف کرنا چاہیے۔
زہرہ مشورہ دیتی ہیں کہ اس نوعیت کے بات چیت میں الفاظ کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچے اس پورے عمل کو نارمل سمجھیں۔