ڈیپ فیک سے کیسے سکول ٹیچرز کے کریئر داؤ پر لگائے گئے اور کس طرح یہ پریشانی کا باعث بن رہی ہے؟

لی اکثر رونا شروع کر دیتی ہیں اور پھر ان کا آٹھ برس کا بیٹا ان کی ڈھارس بندھاتا ہے۔
وہ ایک دہائی تک جنوبی کوریا کے شہر پُوسان کے ایک سکول میں پڑھاتی رہیں۔ مگر گذشتہ برس مارچ میں ان کی زندگی یکسر بدل گئی جب ان کے ہی ایک طالبعلم نے انھیں ان کی ایک تصویر دکھائی جس میں چہرہ تو ان کا تھا لیکن برہنہ جسم کسی اور کا۔ یہ ڈیپ فیک سے بنائی گئی تصویر تھی۔
یہ تصویر ٹیلیگرام کے ایک چینل پر اپ لوڈ کی گئی جہاں 12000 ممبرز نے ’ہیومیولیٹنگ ٹیچرز‘ (یعنی اساتذہ کی بے توقیری) والے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا۔ لی، فرضی نام، کے خیال میں ان کے بہت سارے طلبہ نے ان کی یہ تصویر دیکھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میرے طلبہ میری طرف دیکھتے ہیں تو میں ان کی مدد کے بجائے یہ سوچ رہی ہوتی ہوں کہ کہیں انھوں نے میری وہ تصویر تو نہیں دیکھ لی اور کہیں یہ مجھ سے اس بارے میں تو نہیں جاننا چاہتے۔‘
’میں ان کی آنکھوں میں دیکھ نہیں سکتی تھی اور انھیں ٹھیک سے پڑھا نہیں پا رہی تھی۔‘
لی کہتی ہیں کہ ’میں شروع سے ہی ٹیچر بننا چاہتی تھی۔‘ مگر اب ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہ دن میں پانچ گولیاں کھاتی ہیں۔ ’میں ابھی بھی بے بس محسوس کرتی ہوں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ مجھے سنبھلنے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔‘
تقریباً ایک برس قبل ایک مڈل سکول میں انگلش پڑھانے والی ایک اور ٹیچر، جنھیں ہم ’پارک‘ کا نام دیتے ہیں، کی بھی ایسی ہی فیک تصویر ایک ویب سائٹ پر شیئر کی گئی تھی۔
یہ تصویر اصل میں ایک پیغام رسانی والی ایپ سے لی گئی تھی جہاں صرف وہ اپنے طلبہ سے رابطے میں رہتی تھیں۔ ان کے چہرے کی تصویر ایک نامعلوم مرد کے ساتھ سیکس کرنے والے دو بندروں کے جسم پر لگا کر ایڈٹ کی گئی تھی۔
اس تصویر پر لکھا تھا ’پارک اپنے طلبہ کے ساتھ آئی ٹی میں مگن ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ تصویر دیکھ کر اتنے صدمے میں چلی گئی تھیں کہ بمشکل سانس لے پا رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں آدھی رات کو جاگ جاتی تھی اور غصے میں اپنے تکیے کو گھونسے مارتی تھی۔ میں اپنے غصے پر قابو نہیں پا رہی تھی۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں جیسے بے بس تھی اور پھر یہ ناقابل برداشت خیال آیا کہ انھوں نے اس سب میں میرے بیٹے کو بھی شامل کر دیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’میں ان کا بہت خیال رکھتی تھی اور وہ مجھے بہت پسند کرتے تھے۔ ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ بہت اچھی شہرت کے حامل تھے مگر جو ہوا یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔‘
انھوں نے اپنے طلبہ کو بتایا کہ اگر جس نے یہ سب کیا وہ مان لے تو پھر وہ اس معاملے کی شکایت پولیس کو درج نہیں کرائیں گی۔ مگر ان کے اس اعلان کے باوجود کسی نے بھی اعتراف نہیں کیا۔
اس کے بعد وہ شکایت درج کرانے پولیس کے پاس چلی گئیں۔ مگر پولیس نے کہا کہ انھیں کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں اور ان کی شکایت والی فائل بند کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس نے ان سے پوچھ گچھ تک نہیں کی اور خود سے ہی مقدمہ بھی ختم کر دیا۔‘
تھک ہار کر انھوں نے خود بھی اس مقدمے کی پیروی ترک کر دی۔

حالیہ دنوں میں جنوبی کوریا کے سکولوں میں ڈیپ فیک پورن کے واقعات میں ہوش رُبا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ستمبر میں بی بی سی نے یہ خبر دی تھی کہ ڈیپ فیک تصاویر سے اس ملک کے پانچ سو سے زیادہ سکول اور یونیورسٹیاں متاثر ہوئی ہیں۔
اگست 2024 میں کورین ٹیچرز اینڈ ایجوکیشن ورکرز یونین (کے ٹی یو) نے ایک سروے کیا، جس میں تعلیمی اداروں کے 2492 کیسز سامنے آئے جن میں سپیشل سکول اور کنڈرگارٹن تک کے طلبہ بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر 517 لوگ متاثر ہوئے جن میں سے 204 اساتذہ اور 304 طلبہ تھے اور باقی سکول کے ملازمین تھے۔
ان میں سے بہت سے متاثرین نے شکایت درج نہیں کرائی تاہم ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی کوریا میں پولیس کے پاس 2021 میں ڈیپ فیک سیکس کے 156 واقعات 2024 میں بڑھ کر 1202 ہو گئے۔
گذشتہ برس جاری کیے گئے پولیس ڈیٹا کے مطابق ان واقعات میں جو 682 ملزمان گرفتار کیے گئے ان میں 548 کمسن ملزمان تھے۔ ان میں 100 سے زیادہ 10 سے 14 برس کے بچے تھے جنھیں ان کی عمر کی وجہ سے سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس کے باوجود کہ لوگ اب ڈیب فیک پورن سے بخوبی آگاہ ہوتے جا رہے ہیں پھر بھی اساتذہ کو لگتا ہے کہ پولیس ان کی شکایت پر کان نہیں دھر رہی۔
ایک ہائی سکول میں ایک ٹیچر، فرضی نام ’جی ہی‘ کو ایکس پر ایک پوسٹ دکھائی گئی جس میں ان کے جسم کے حصے قریب سے دکھائے گئے ہیں جس پر ’ٹیچر ہیومیولیشن‘ کا ہیش ٹیگ تھا۔ ان کا کہنا ہے ان کی شکایت کے باوجود پولیس کی طرف سے کوئی کارروائی عمل میں نہ لانے پر انھیں بہت غصہ آیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس معاملے سے خود نمٹنے کی ٹھان لی۔
انھوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ کس کلاس روم سے یہ تصویر لی گئی تھی۔ انھوں نے اس تصویر کے ہر زاویے سے جائزہ لیا اور طلبہ کی نشستوں کا بھی اندازہ لگایا کہ آخر یہ تصاویر کس نے کھینچی ہوں گی۔ انھوں نے تھرڈ ائیر کے ایک طالبعلم کو ’مشکوک‘ قرار دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ بہت ہی ہیجان والی کیفیت تھی کہ متاثرہ فریق ہونے کے باوجود کہ وہ ایسی تصاویر کو دیکھ کر خود ہی شواہد اکھٹے کر رہی تھیں۔
جب انھوں نے پولیس کو دس صفحات پر مشتمل رپورٹ دی تھی پولیس نے تحقیقات شروع کر دیں مگر نتیجہ پھر یہ نکلا کہ ثبوت کافی نہیں ہیں۔
تاہم جس طالبعلم پر ٹیچر جی ہی نے شک کا اظہار کیا تھا اس پر ان کی ایک ساتھی سے ایسا واقعہ کرنے پر ایک دوسرے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی۔

عام طور پر اساتذہ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھیں گی، باوجود اس کے کہ مشکوک طالبعلم بھی ان کی کلاس روم میں موجود ہوں۔ مگر طلبہ اگر ایسی کوئی ڈیپ فیک سے متعلق شکایت کریں تو پھر انھیں فوری طور پر کلاس سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
’لی‘ کی طرح کے ٹیچر چھٹی پر چلے جاتے ہیں۔ مگرایک ہفتے سے زیادہ چھٹی کی صورت میں ان اساتذہ کو سکول کمیٹی سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
پوسان سکول کے ایک افسر کم سون می کا کہنا ہے کہ ’ابھی ایسا قانون نہیں ہے کہ جس میں یہ وضاحت ہو کہ کیسے فوری طور پر ٹیچرز کو طلبہ سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کتنے عرصے کے لیے کیا جانا چاہیے۔‘
ان کے مطابق ’ایسے شریر طلبہ کو جو دوسروں کی پڑھائی میں حرج یا ان کے حقوق سلب کرنے کا باعث بن رہے ہوں تو انھیں اٹھا کر پچھلی نشستوں پر بھیجا جا سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق والدین سے بھی یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے گھر پر ہی تعلیم دلائیں۔ تاہم اگر والدین راضی نہ ہوں تو پھر ایسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لی کے خیال میں طلبہ کو ڈیپ فیک پورن سے متعلق ابھی زیادہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ برس وزات تعلیم کی طرف سے مڈل اور ہائی سکول کے 2000 سے زیادہ طلبہ پر ایک سروے کیا گیا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ان طلبہ کو ڈیپ فیک سے متعلق جرائم کے بارے زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ جب ان سے ڈیپ فیک کے ذریعے جنسی جرائم سے متعلق وجوہات پوچھی گئیں تو 54 فیصد طلبہ کا جواب تھا کہ ایسا صرف تفریح کی غرض سے کیا جاتا ہے۔
لی کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے واقعات کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے گذشتہ برس کے ایک واقعے پر بات کی جب ایک طالبعلم نے ایک ٹیچر کے ٹائلٹ میں ایک کیمرہ نصب کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ کلاس روم میں کچھ طلبہ نے ایسے جنسی نوعیت کے تبصرے کیے اور انھوں نے جان بوجھ کر اپنے کلاس فیلوز کو دھکے دیے تا کہ وہ میل ٹیچرز کے ساتھ ٹکرا جائیں۔
ان کے مطابق ’جب میں نے اس رویے کو بہتر کرنے کی کوشش کی تو ان طلبہ کا کہنا تھا کہ میں تو ویسے ہی ہلہ گلا کر رہا تھا یا ’یہ بس ایک مذاق تھا۔‘
ان کے مطابق بچوں کو صورت حال کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ وہ بس جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اصل میں ایک جرم تھا۔‘
16 برس کی یو جی وو، فرضی نام، نے کہا کہ ان کی ایک کلاس فیلو بھی ڈیپ فیک پورن کا شکار بنیں۔ وہ اس بات پر حیران تھیں کہ ملک بھر میں اس معاملے پر آگاہی کیوں نہیں دی جاتی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ امید تھی کہ کوئی واقعہ سامنے آئے یا نہ آئے مگر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اس معاملے پر آگاہی دی جائے گی۔ مگر اس معاملے پر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا ہے۔‘
وزارت صحت کے صنفی برابری کے شعبے کے ڈائریکٹر جونگ ایل سن کا کہنا ہے کہ وہ ڈیپ فیک جیسے جنسی جرائم کو بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق انھوں نے ملک بھر میں سکولوں اور انضباطی کمیٹیوں کو ہدایت دی ہے کہ ان واقعات میں ملوث ملزمان سے کسی بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے اور ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ان کے مطابق وزارت تعلیم کی توجہ ابھی اس بات پر ہے کہ تعلیم، آگاہی مہمات اور دیگر طریقوں سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہلوگ اسے مذاق نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک جرم کے طور پر دیکھیں۔
کورین نیشنل پولیس ایجنسی کے ایک سینیئر انسپکٹر لی یونگ سی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے جنسی تشدد والے واقعات کی تحقیقات کے لیے ریجنل پولیس فورسز کی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔
ان کے مطابق اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کے لیے پولیس افسران کو تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ ان کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ستمبر کے ایک ہفتے کے دوران رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد اوسطاً 17 فی دن سے کم ہو کر ایک ماہ بعد روزانہ دو کیسز تک رہ گئی۔

جی کی اب یہ خواہش ہے کہ وہ ڈیب فیک پر اپنی تصویر دیکھنے سے پہلے کی طرح دوبارہ اپنی زندگی معمول کے مطابق شروع کر سکیں۔
انھوں نے کہا اگر اس کے لیے کوئی ان سے منھ مانگی قیمت بھی مانگے تو وہ یہ پیسے دے کر پھر اس وقت میں جانے کو تیار ہیں جب ان کے ساتھ یہ واقعہ سرزد نہیں ہوا تھا۔ ان کے مطابق ’کاش میرے ذہن سے یہ یاد نکل جائے اور سب کچھ معمول پر آ جائے۔‘
لیکن وہ ان طالبعلموں کو بھی یاد کرتی ہیں جنھوں نے انھیں ملزم تک پہنچنے میں مدد دی تھی اور اس صورتحال میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کلاس میں تحریر نوٹ لکھے تھے۔
لی کا کہنا ہے کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہی ہیں کہ جب ان کے ساتھ واقعے میں ملوث طلبہ ان کے پاس آ کر معافی مانگیں گے۔ بطور ٹیچر وہ محسوس کرتی ہیں کہ یہ ان کا فرض ہے کہ ایسے طلبہ اپنے کیے کی سنجیدہ نوعیت کو سمجھ سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ یہ کوئی مذاق نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد آپ اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرائیں گے۔ جو آپ نے پرینک یا مذاق کے لیے کیا تھا اس نے مجھے بہت دکھ دیے۔‘
’اس واقعے نے میری زندگی مکمل بدل کر رکھ دی ہے۔‘
اضافی رپورٹنگ یوجن چوئے اور شن جونگ کم