سب جانتے ہیں کہ ہائبرڈ جمہوریت کی پیداوار موجودہ سویلین سیٹ اپ بھی اپنی پیشرو چنتخب حکومت کی طرح اس سیاسی نکاح کا نتیجہ ہے جو خاندان کے ہٹیلے بزرگوں نے فریقین کے سر ٹکرا کے ’قبول ہے، قبول ہے‘ کے شور میں پڑھوایا ہے۔
آصف علی زرداری پاکستان کے 11ویں سویلین، دو بار اِس عہدے پر فائز ہونے والے تیسرے اور دونوں پارلیمانوں کے مشترکہ اجلاس سے ریکارڈ آٹھویں بار خطاب کرنے والے پہلے صدر ہیں۔
اس شاندار کارکردگی کے ہوتے ہمیں صدرِ مملکت کے ایک، ایک جملے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے، بھلے اُن کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کچھ بھی ہو۔
زرداری صاحب محض وفاقی اتحاد کی ہی علامت نہیں بلکہ ایک ملک گیر جماعت کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔ لہذا یہ اُن کی دستوری ذمہ داری ہے کہ بحیثیت صدرِ مملکت وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر عمل کریں اور پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کی توثیق کریں۔
جبکہ بحیثیت پارٹی سربراہ یہ بھی اُن کی سیاسی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر ناخوشی اور تحفظات کا اظہار کریں اور کچھ اس احتیاط سے کریں کہکرسیِ صدارت کو بھی ناقابلِ برداشت تپش محسوس نہ ہو اور بطور سیاستداں ’بادشاہ گر‘ والا امیجبھی برقرار رہے ۔
زرداری صاحب کو بحثیت ’رئیسِ جمہوریہ‘ اسلام آباد میں رہنا ہے اور بحیثیت سیاسی قائد بلاول ہاؤس کراچی کو بھی رونق بخشنی ہے۔ ایوانِ صدر کے تقاضوں اور مجبوریوں کو خندہ پیشانی سے نبھانا ہے اور بطور پارٹی سربراہ ووٹر کی بھاوناؤں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا ہے۔ ریاست کا دستوری سفر بھی نہ رُکے اور سیاسی سلطنت کو بھی کوئی بڑا ہچکولا نہ لگے۔
خود کو اس لیے بچا کے رکھنا ہے کہ جیسی کیسی جمہوریت بچی رہے اور جمہوریت کو اس لیے بچانا ہے تاکہ خود بچے رہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’جن کے رتبے ہیں سِوا، اُن کی سِوا مشکل ہے۔‘
’اسی ملک میں دو ایسے خوش قسمت خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ ان کے آگے 'اوپر والے'نے دو ہی راستے بچھا رکھے ہیں، محل یا جیل‘سب جانتے ہیں کہ ہائبرڈ جمہوریت کی پیداوار موجودہ سویلین سیٹ اپ بھی اپنی پیشرو چنتخب حکومت کی طرح اس سیاسی نکاح کا نتیجہ ہے جو خاندان کے ہٹیلے بزرگوں نے فریقین کے سر ٹکرا کے ’قبول ہے، قبول ہے‘ کے شور میں پڑھوایا ہے۔
ایسی شادیوں کے نتیجے میں میاں بیوی کی بھلے ایک دوسرے سے بنے نہ بنے مگر دونوں تب تک ایک چھت کے تلے رہنے پر مجبور ہیں جب تک بزرگوں کی فوکسڈآنکھیں سرچ لائٹ کی طرح گول گول گھومتی رہتی ہیں۔
ایسے ماحول میں اگر دولہا خاندان کے بڑوں سے بغاوت کرے تو گھر سے نکالا جاتا ہے اور دلہن کا رویہ ناقابلِ برداشت ہو جائے تو گھر واپسی کے ساتھ ساتھ جہیز سے بھی جاتی ہے۔ اور یہ نزاکتیں موجودہ سیاسی جوڑے سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے جس کی اقتدار کے منڈب پر کئی کئی شادیاں اور کئی کئی طلاقیں ہو چکی ہیں۔
اس ملک میں ایسے بیسیوں رہنما اور اُن کی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو ایک بار، بس ایک بار صدر، وزیرِ اعظم یا وفاقی وزیر بننے کے لیے زندگی بھر ایک ستون سے دوسرے ستون کے درمیان طواف کرتے رہتے ہیں مگر اُوپر والا جانے کیوں اُن کی نہیں سنتا۔
اور اسی ملک میں دو ایسے خوش قسمت خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ ان کے آگے 'اوپر والے'نے دو ہی راستے بچھا رکھے ہیں، محل یا جیل۔ محل میں ہماری منشا سے اور جیل میں اپنی مرضی سے۔
کسی ڈرائنگ روم کی جھولتی کرسی میں دھنس کر یاکسی ٹاک شو کے سیٹ پر جاکے اصلاحی مشوروں کی جگالییا قوم کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہانا بہت آسان ہے۔ مگر ذرا اپنے ضمیر کے منہ اور دل پر ہاتھ رکھ کے فیصلہ کریں کہ اگر آپ ستر کے پیٹے میں ہوں تو آپ اس جاتی عمریا میں کیا چنیں گے؟ جیل یا ریل؟ ہاں اگر آپ کوئی سرپھرے بد دماغ چریا ہیں تو الگ بات ہے۔
اس پس منظر میں صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ آئینی خطاب میں موجودہ حکومت کے مبینہ من مانے رویے پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے سرسبز پاکستان منصوبے کے تحت چولستان نہر سمیت چھ اضافی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے منصوبے میں وفاق کے تمام یونٹوں کو اعتماد میں نہ لینے کا جو برسرِ عام شکوہ کیا ہے وہ آبائی صوبے میں اپنا سیاسی ریکارڈمین ٹین رکھنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔
جو سرسبز پاکستان منصوبے کے مالک ہیں انھیں پارلیمنٹ میں ہونے والے رونے دھونے اور شور شرابے سے کوئی ٹینشن نہیں۔ تشویش تو تب ہو جب گھر میں بجنے والے بھانڈے گلی اور سڑک پر آکے گرنے لگیں۔
صدر زرداری نے چولستان نہر سمیت چھ اضافی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے منصوبے میں وفاق کے تمام یونٹوں کو اعتماد میں نہ لینے کا گلا کیابلکہ کچھ دل جلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی ہائبرڈ نظام میں پارلیمنٹ دراصل وہ جھنجھنا ہے جس سے عام آدمی کو جتنا اور جب تک ممکن ہو بہلایا جا سکے اور جب عام آدمی کی توجہ بٹنے لگے تو جھنجھنا بدل دیا جائے۔
نئی نہروں کی تعمیر کا شوشہ بھی اصل بنیادی مسائل سے عوامی توجہ بٹاؤ منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ کوئی بھی منصوبہ ضروری یا کارآمد ہے یا نہیں اس سوال سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ گیم کوئی بھی ہو اربوں روپے کی ہونی چاہیے۔ تاکہ نظر بھی آئے اور منصوبہ سازوں کو چار پیسے بھی بچیں۔ پاکستان سمیت کئی پسماندہ ممالک ایسے عالیشان منصوبوں کا قبرستان ہیں جہاں قبروں پر جا بجا ٹیکس اور قرضوں کے سنگِ مزار نصب ہیں۔
ایسے منصوبے حکمران اشرافیہ کے ساتھ ساتھ مخالفوں کو بھی اپنی دکان چمکائے رکھنے کا سنہری موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔
جتنا دودھ فرہاد کی نہر میں بہہ رہا تھا لگ بھگ اتنا ہی پانی چولستان کی نہر میں بھی بہے گا۔ مگر ریاست و سیاست کا تو دار و مدار اور بقا ہی خواب فروشی کے کاروبار پر ہے۔
کھائی جاؤ، کھائی جاؤ، بھید کنہے کھولنے
وچوں وچ کھائی جاؤ، اتوں رولا پائی جاؤ
(استاد دامن)