’صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے

فروری کے اوائل میں، صفراوادی غار کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہاں ایک ایسی راہداری موجود ہے جو مکہ تک جاتی ہے۔
تصویر
BBC Indonesia/Tri Wahyuni
سینکڑوں زائرین روزانہ صفراوادی غار آتے ہیں

چلچلاتی دھوپ کے باوجود مغربی جاوا کے پامیجہان گاؤں میں واقع صفرا وادی غار کی زیارت کے لیے آنے والوں کا جوش کم نہیں ہو پا رہا تھا۔ جب بی بی سی انڈونیشیا نے فروری کے آخری ہفتے میں اِس جگہ کا دورہ کیا تھا تو اُس وقت ہزاروں افراد اِس ’مقدس غار‘ کی زیارت کے لیے وہاں موجود تھے اور اُن زائرین میں سے بیشتر کا ماننا تھا کہ ’یہ غار مکہ تک جانے کا ایک خفیہ راستہ‘ ہے۔

زائرین میں شامل سکرون بسران نامی شخص کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے کہ جو پامیجہان گاؤں میں شیخ عبدالمحی کے مقبرے کے احاطے میں واقع اس غار کے بارے میں متجسس ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کو دیکھنے کے بعد بسران اور اُن کے ساتھی اس غار کی ’زیارت‘ کے لیے یہاں آئے ہیں۔

صفرا وادی غار میں داخل ہونے کے منتظر بسران نے ہمیں بتایا کہ اُن میں یہ غار دیکھنے کا تجسس ایک وائرل ویڈیو دیکھنے کے بعد پیدا ہوا۔ ’ہم اس گزرگاہ کو دیکھنا چاہتے ہیں جو مکہ تک جاتی ہے، ہم اس بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔‘

35 سالہ بسران ’قدیم دور کے لوگوں‘ کی کہانی پر یقین رکھتے ہیں جو اس غار کے ذریعے مکہ جانے کے قابل تھے۔ تاہم انھیں یقین نہیں کہ اب بھی کوئی اس غار کے ذریعے مکہ کا سفر کر سکتا ہے یا نہیں کیونکہ کوئی بھی اس کہانی کی سچائی ثابت نہیں کر سکتا۔

Pengunjung menyusuri Gua Safarwadi.
BBC Indonesia/Tri Wahyuni
زائرین صفراوادی غار کی سیر کر رہے ہیں

اس کے باوجود بسران اب بھی اس ’مقدس غار‘ میں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ جلد ہی انھیں بھی بیت اللہ کے حج کی سعادت حاصل ہو پائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ شاید اس غار کے ذریعے تو نہیں مگر یہاں آ کر دعا کرنے کے وسیلے سے وہ مکہ پہنچ پائیں۔

ایسی ہی کچھ دعائیں اور امیدیں میرا کی بھی ہیں جو سال میں ایک بار صفراوادی غار ضرور آتی ہیں۔

اُن کے مطابق وہ سنہ 2009 سے ’اولیا کا فیض حاصل کرنے‘ کی غرض سے یہاں ہر سال آتی ہیں۔

تاہم درجنوں بار یہاں کی زیارت اور یہاں دعائیں کرنے کے باوجود میرا اب بھی حج پر جانے کی اپنی دعا کی قبولیت کی منتظر ہیں۔

اُن کا ماننا ہے کہ اگر وہ اکیلے دعا مانگتیں تو شاید وہ قبول نہ ہوتی۔ ’لیکن اگر میں یہاں آ کر دعا مانگوں تو شاید مجھے شیخ محی کی شفاعت کی مدد سے اولیا اللہ کا فیض حاصل ہو جائے اور ہماری دعائیں قبول ہو جائیں۔‘

یہ کہتے ہوئے ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔

فروری کے اوائل میں، صفراوادی غار کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہاں ایک ایسی خفیہ راہداری موجود ہے جو مکہ تک جاتی ہے۔

ایک ویڈیو میں یہ تک دعویٰ کیا گیا کہ غار سے مکہ تک کا سفر محض ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ ویڈیو بنانے والے نے دعویٰ کیا کہ انھیں ایسا ایک مقامی ٹور گائیڈ نے بتایا ہے۔

ایک اور ویڈیو میں لوگوں کے ایک گروپ کو غار میں داخل ہوتے ہوئے ’لبیک اللہ اللھم لبیک‘ کا ورد کرتے سنا جا سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے جج کے موقع پر حجاج کرتے ہیں۔

کچھ سوشل میڈیا صارفین اس نوعیت کے دعوؤں کی حقیقت پر سوالات کرتے اور زائرین کا مذاق بناتے بھی نظر آئے۔

ایک صارف نے زائرین کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا آپ پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں؟‘

دوسرے نے پوچھا کہ کیا ’غار میں امیگریشن آفس بھی ہے؟‘

سوشل میڈیا پر چلنے والی اس بحث نے انڈونیشیا کی دو بڑی اسلامی تنظیموں کو اس معاملے پر اپنی رائے دینے پر مجبور کر دیا۔

محمدیہ تنظیم کے چیئرمین دادانگ کاحمد کے خیال میں انڈونیشیا میں بہت سے لوگ اب بھی معجزوں پر یقین رکھتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اب بھی ’غیر معقول‘ چیزوں کو سچ مان لیتے ہیں۔

دادانگ کے خیال میں اسی لیے روشن خیالی کی تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ ایسے بے بنیاد عقائد میں نہ پھنس جائے۔

انڈونیشیا کی علما کونسل کے چیئرمین چول نفیس کا کہنا ہے کہ غاروں کو صرف تفریح اور فطرت پر غور کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

چول نفیس نے میڈیا کو بتایا کہ ’آپ کو اس طرح کی باتوں پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انڈونیشیا سے سعودی عرب کی طرف طے شدہ معمول کے راستے سے جائیں۔‘

’یہ اب وائرل کیوں ہو رہا ہے؟‘

تصویر
BBC Indonesia/Tri Wahyuni
بارش کی وجہ سے غار میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کے باوجود زائرین اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں

23 فروری کی صبح جب بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو غار میں داخل ہونے والے زائرین کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا اور ایک کے بعد ایک گروپ غار میں داخل ہو رہا تھا۔

کبھی کبھار غار سے کسی کے اذان دینے کی آواز سنائی دیتی اور کبھی بلند آواز میں دعائیں مانگنے کی آوازیں آتیں۔

غار میں داخل ہونے کا بظاہر ایک قسم کا غیر تحریری اور روایتی اصول پے۔ داخل ہونے سے قبل لوگاذان دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں۔

تاہم وائرل ویڈیو کے برعکس غار میں داخل ہونے والے درجنوں گروپوں میں سے کوئی بھی تلبیہ یعنی ’لبیک اللہ اللھم لبیک‘ کا ورد کرتے ہوئے نہیں سُنا گیا۔

صفراوادی غار کے دروازے پر موجود گارڈ نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسی علاقے میں پیدا ہوا ہوں اور گذشتہ سات سال سے غار کے داخلی دروازے پر پہرہ دے رہا ہوں۔ یہاں کبھی کسی نے تلبیہ نہیں پڑھا، ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہی ایسا ہونا شروع ہوا ہے۔‘

صفراوادی غار کی یہ کہانی کہ غار مکہ تک جاتی ہے پامیجہان گاؤں کے باشندوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔

اس غار کے گارڈ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ ’یہ اب وائرل کیوں ہو رہا ہے؟‘، خاص طور پر ایسی معلومات کے ساتھ جو ’تھوڑی غلط‘ ہیں۔

غاز میں ٹپکتا ’آبِ زم زم‘

مؤرخین کے مطابق شیخ عبدالمحی کا شمار اُن ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے 17ویں صدی میں جنوبی مغربی جاوا میں اسلام کو فروغ دیا۔

مقامی روایات کے مطابق اِسی غار میں شیخ عبدالمحی اپنے شاگردوں کو اسلام کی تعلیم دیتے اور مراقبہ کیا کرتے تھے۔

جب 1730 میں شیخ عبد المحی کا انتقال ہوا تو انھیں صفراوادی غار سے تقریباً 800 میٹر دور دفن کر دیا گیا۔

’ولی بیرندل تناہ جاوا‘ نامی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صفراوادی غار وہی جگہ تھی جہاں ولی سانگا، یعنی انڈونیشیا میں اسلام پھیلانے والی نو انتہائی قابل احترام مذہبی شخصیات، باہمی ملاقات کیا کرتے تھے۔

زائرین اور مقامی افراد کا ماننا ہے کہ ولی سانگا (مذہبی شخصیات) اپنے اپنے شہروں سے بجلی کی رفتار سے زیر زمین راستوں سے سفر کرنے کے بعد وہاں نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ’مکہ کی راہداری‘ کے علاوہ اور بھی راہداریاں ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جو انڈونیشیا کے دیگر علاقوں سیریبن، سورابایا اور بنتن کی طرف جاتی ہیں۔

اندھیری اور نمی سے بھری صفراوادی غار کی حالت بھی دیگر غاروں سے مختلف نہیں۔ یہاں کچھ جگہوں پر چمگادڑیں لٹکتی دکھائی دیتی ہیں۔

روندی ایک مقامی گائیڈ ہیں جو لوگوں کو ان مقامات کی سیر کرواتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں شیخ عبدالمحی نے اپنی سرگرمیاں سرانجام دی تھیں۔

مٹی کے تیل کے لیمپ کی مدد سے وہ غار میں راستہ دکھاتے ہوئے اس سے متعلق داستانیں سُناتے ہیں۔

غار کی چھٹ سے ٹپکتے پانی کے قطروں کو انتظامیہ اور زائرین آ’ب زم زم‘ کہتے ہیں۔

روندی نے بتایا کہ زائرین عام طور پر اس پانی سے اپنے چہرے دھو کر امید کرتے ہیں ’انھیں اس سے ’زم زم‘ جیسے فائدے ملیں گے۔‘

غار کے اندر دائیں طرف ایک کمرہ ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ شیخ عبد المحی کی چلہ گاہ ہے۔

جب بی بی سی کی ٹیم غار میں پہنچی تو وہاں زائرین کا ایک گروپ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے دکھائی دیا۔

اس سے چند میٹر آگے ایک چھوٹا سا تالاب ہے جس پر انڈونیشین زبان میں ’زندگی بخشنے والا پانی‘ لکھا ہے۔ پانی ایسا صاف دکھائی دیتا ہے جیسے کسی نل سے بہہ کر آ رہا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ یہ پانی شیخ عبدالمحی وضو کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ زائرین اس پانی کو وضو کے لیے اور غار کی سیر سے ہونے والی تھکاوٹ کے بعد پیاس بجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

Gua Safarwadi
BBC
صفراوادی غار کا ایک منظر

اس مقام سے تھوڑا آگے سیڑھیاں ہیں جو ایک بڑے کمرے کی طرف جاتی ہیں۔ اس جگہ کو عظیم الشان مسجد کہا جاتا ہے۔

یہاں پہنچ کر ایک بار پھر، کچھ زائرین نے اذان دی۔

عظیم الشان مسجد کے 'ہال' سے تھوڑا اوپر، ایک چھوٹی سی راہداری ہے۔

بظاہر اس چھوٹی سی دکھنے والی راہداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شیخ عبد المحی اسی راستے سے مکہ گئے تھے۔‘

پامیجہاں زیارت گاہ کے ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ شیخ عبد المحی ولی اللہ تھے جنھیں اللہ نے معجزات سے نوازا تھا۔

’کرامت اللہ کی طرف سے اپنے پسندیدہ بندے کو دیا گیا تحفہ ہوتا ہے۔ یہ کرامت عام انسان نہیں دہرا سکتے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ وائرل ویڈیو میں موجود معلومات کو بہت سے لوگوں نے غلط انداز میں لیا ہے۔

کئی سال پہلے غار کا دورہ کرنے آئے ایک شخص نے اس گزرگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ وہ مکہ تو نہیں پہنچ سکا لیکن وہ اس چھوٹی غار میں پھنس گیا اور حکام کو اس کو باہر نکالنے میں کافی دشواری پیش آئی۔

اس واقعے کی وجہ سے اس راہداری کو اب لوہے کی سلاخیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔

اس راہداری کی بائیں جانب ایک کمرہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہیں شیخ عبد المحی اپنے شاگردوں کو پڑھایا کرتے تھے۔

اس جگہ پر چھت ارد گرد کی چھت سے کافی نیچی ہے اور یہاں سے گزرنے کے لیے لوگوں کو جھکنا پڑتا ہے۔

نچلی چھت نو مقامات سے دبی ہوئی ہیں جسے لوگ ’حج کیپ‘ کہتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں کے سر ان جگہوں میں فٹ ہو جاتے ہیں وہ حج کے لیے مکہ جا پائیں گے۔

وہاں موجود بزرگ نے بتایا کہ یہ ’صرف زائرین کا عقیدہ‘ ہے۔ انھوں نے کہا کہ نسل در نسل منتقل ہونے والی کہانیوں کو دانشمندی سے پیش کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نہ تو یہاں آنے والوں کو ایسا کچھ کرنے کو کہتے ہیں اور نہ ہی انھیں منع کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس قدرت پر غور کرنے کا وقت ہے تو آگے بڑھیں، اسے اللہ کی تخلیق کے طور پر دیکھیں اور اس سے متاثر ہوں۔‘

سستا اور پرکشش مذہبی سیاحتی مقامات

Pengunjung berkumpul di bilik yang disebut masjid agung.
BBC Indonesia/Tri Wahyuni
زائرین غار میں واقع مسجد میں جمع ہیں

یونیورسٹی آف انڈونیشیا کی مذہبی اور ثقافتی بشریات کی ماہر امانہ نورش کا کہنا ہے کہ صفراوادی غار میں پیش آنے والا واقعہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق زمانہ قدیم سے انڈونیشیا کے لوگوں کے آباؤ اجداد بھی صوفیانہ چیزوں کے قریب رہے ہیں۔

دی گریٹ ڈکشنری آف انڈونیشیا کے مطابق تصوف کا تصور تقریباً تمام مذاہب میں موجود ہے جس کا مقصد لوگوں کو خدا کی قربت کا حساس مہیا کرنا ہے۔

نورش کہتی ہیں کہ مختلف مذاہب کے انڈونیشیا پہنچے سے پہلے یہ جزیرہ نما افسانوں سے مالا مال تھا۔ ’لوگ افسانوں اور لوک کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں، اور پھر انھیں سچ ماننے لگتے ہیں۔‘

نورش کے مطابق ’نچلے اور نیم متوسط طبقے‘ کے افراد جن کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے کے وسائل میسر نہیں، اُن کے لیے پامیجہاں جیسے مقامات پرکشش مذہبی سیاحتی مقامات کی حیثیت رکھتے ہیں۔

انڈونیشیا سے حج پر جانے کی لاگت ساڑھے پانچ کروڑ انڈونیشین روپے یا 3300 ڈالر ہے۔

نورش کا کہنا ہے کہ اسے صحیح یا غلط، سیاہ یا سفید کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ’صفراوادی غار میں لوگوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے جذبات کے اظہار کی ایک شکل تھی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.