51 سال کی عمر میں مارجوری ٹیلر گرین کا کانگریس کا سفر شاید اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہو لیکن امریکی سیاست میں ان کا عمل دخل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

مارجوری ٹیلر گرین جب امریکی کانگریس کی رکن بنیں تو خیال یہی کیا جاتا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے بڑے حمایتیوں میں سے ایک ہیں۔
گرین کی جانب سے امریکی ایوان نمائندگان کی رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے کچھ دن بعد ہی چھ جنوری 2021 کے کیپیٹل ہِل حملے ہو گئے تھے۔
ایسے وقت میں جب ریپبلکن پارٹی کے کئی ارکان نے ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، وہ ان کے ساتھ کھڑی رہیں اور صدر کے اس موقف کی حمایت کی کہ 2020 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔
ان سب واقعات کے محض پانچ برس بعد وہی شخص انھیں ’غدار‘ قرار دے رہا ہے جس کی حمایت میں وہ ہر حد سے گزر گئی تھیں، یعنی ڈونلڈ ٹرمپ۔
صرف چند ماہ کے عرصے کے دوران گرین اور ٹرمپ کی راہیں ڈرامائی انداز میں جدا ہوئیں۔ اس کی کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا تھا۔
ایسا نہیں کہ مارجوری گرین نے ماضی میں کبھی ٹرمپ کی مخالفت نہیں کی – وہ ان کے ایرن پر حملے، غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے ان کی حمایت اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر قواعد و ضوابط جیسے معاملات پر امریکی صدر کی ناقد رہی ہیں۔ تاہم جس چیز نے انھیں بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ کا مخالف بنا دیا وہ تھی ایپسٹین فائلز۔
بدنام مالیاتی ماہر اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین نے 2019 میں نیویارک کی ایک جیل میں خودکشی کر لی تھی جہاں وہ جنسی جرائم اور سمگلنگ کے الزامات پر مقدمے کی سماعت کے منتظر تھے۔
انھوں نے ٹرمپ کی جانب سے محکمہ انصاف کو ایپسٹین فائلز مکمل طور جاری کرنے کا حکم نہ دینے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ایپسٹین کی سرگرمیوں سے متاثر افراد اور ڈیمکریٹ اراکین کا ساتھ دیا تاکہ ایوان نمائندگان کو اس پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔
حالیہ دنوں میں امریکہ میں جاری رہنے والے طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن کے دوران انھوں نے ریپبلکن حکمتِ عملی کو بھی تنقید کو نشانہ بنایا اور ڈیموکریٹ اراکین کے ہمراہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ کم آمدنی والے امریکیوں کے لیے صحت کے شعبے میں سبسڈی پر غور کریں۔
انھوں نے ٹرمپ پر کھلے عام اس بات پر تنقید کی کہ وہ معیشت اور لوگوں کی زندگی گزارنے کی لاگت پر توجہ دینے کے بجائے غیر ضرور طور پر خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
رواں ماہ انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ امریکی عوام کو دوسرے ملکوں کی جنگوں یا غیر ملکوں کو مالیاتی بحرانوں سے نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ’وہ ایسے لیڈر چاہتے ہیں جو سامنے آئیں، اپنا کام کریں اور ان کے حق کے لیے لڑیں۔‘
مارجوری ٹیلر گرین نے ٹرمپ کی جانب سے محکمہ انصاف کو ایپسٹین فائلز مکمل طور جاری کرنے کا حکم نہ دینے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگرین کا اصرار ہے کہ وہ اب بھی ٹرمپ کی حامی ہیں۔ تاہم اب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ان کا ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نظریہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریے سے میل نہیں کھاتا ہے۔
گرین نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ یعنی پھر سے امریکہ کو عظیم بنانے کی ’ماگا‘ تحرک کی ایک کارکن طور پر اپنا نام بنایا اور امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوئیں۔ تاہم اب انھیں احساس ہو رہا ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک کا وہ حصہ تھیں اب وہی تحریک اسٹیبلشمنٹ بن چکی ہے۔
اس سے قبل کہ ٹرمپ انھیں نکال پاتے انھوں نے خود الگ ہونے کا فیصلہ کیا لیکن جاتے جاتے وہ چند وار کر گئیں۔
انھوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ وہ کسی ’مظلوم بیوی‘ کی طرح نہیں رہنا چاہتیں جو بس یہ سوچتی رہتی ہے کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
مارجوری گرین کا کہنا تھا کہ اگر ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ تحریک نے انھیں ہٹا کر نیو کنزرویٹست، بڑی ٹیکنالوجی، دوا ساز اور اسلحہ ساز کمپنیوں، غیر ملکی لیڈروں، اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد نے لے لی ہے جو پارٹی کو عطیہ دیتے ہیں جن کا عام امریکیوں سے کوئی تعلق نہیں تو یہ عام امریکیوں کو نکالنے کے مترادف ہے۔
جِم انسٹرکٹر سے کانگریس رکن بننے کا سفر
اپنے کیریئر کے دوران مارجوری گرین کبھی کسی تنازعے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
جورجیا سے تعلق رکھنے والی جم انسٹرکٹر مارجوری گرین نے 2016 میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہ وہی وقت تھا جب ٹرمپ نے اپنی پہلی دورِ صدارت کے لیے کامیاب مہم کا آغاز کیا تھا۔ وہ تواتر سے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کرتیں اور وہاں کانگریس کے ڈیموکریٹ اراکین کو بقول مارجوری کے ان کے سوشلسٹ اور اسلام حامی پالیسیوں کے لیے تنقید کا نشانہ بناتیں۔
انھوں نے بے بنیاد سازشی نظریات کو بھی بڑھاوا دیا جیسے کہ امریکی سکولوں میں ہونے والے فائرنگ کے واقعات سچ نہیں اور یہ کہ دراصل بچوں کا جنسی استحصال کرنے والا ایک گروہ خفیہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو چلا رہا ہے۔
کانگریس کی رکن منتخب ہونے کے بعد وہ نہ صرف ڈیموکریٹ بلکہ اپنی جماعت سے بھی تعلق رکھنے والے کچھ اراکین سے الجھتی نظر آئیں۔
اگرچہ انھوں نے ماضی کے اپنے کچھ بیانات واپس لینے کا اعلان کیا تاہم اس کے باوجود مارجوری گرین کے حلف اٹھانے کے کچھ ہی عرصے بعد انھیں کانگریس کی کمیٹیوں سے ہٹا دیا گیا۔
جب کانگریس میں طاقت ایک بار پھر ریپبلکن کے ہاتھ میں آئی تو مارجوری گرین کی سیاسی بحالی کا سفر شروع ہوا۔
انھوں نے اس وقت ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کے ساتھ چیمبر میں قدامت پسندوں کی حمایت کو مستحکم کرنے کے لیے کام کیا۔ جب میکارتھی کو معزول کر دیا گیا تو گرین نے ان کی جگہ آنے والے مائیک جانسن کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہیں۔
2023 میں انھیں ایوان میں قدامت پسندوں کے ہاؤس فریڈم کاکس (گروہ) سے نکال دیا گیا۔
سیاسی طور پر وہ ایک وائلڈ کارڈ بن کر رہ گئیں۔ نہ صرف بائیں بازو کے ارکان انھیں ناپسند کرتے تھے بلکہ قدامت پسند بھی انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
تاہم ان سب کے باوجود ان کے ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے جس کی وجہ سے انھیں واشنگٹن میں کافی اثرورسوخ حاصل رہا۔
اور پھر ان کا یہ اثرورسوخ ختم ہو گیا۔
جمعے کی شب اے بی سی نیز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مارجوری گرین کا کانگریس سے نکلنا ’ملک کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔‘
بعد ازاں انھوں نے اپسے ٹروتھ سوشل کے اکاؤنٹ پر لکھا وہ بھٹک گئی تھیں لیکن ملک کے لیے مارجوری کی خدمات کے لیے وہ ہمیشہ ان کے شکر گزار رہیں گے۔
گرین کا کہنا ہے کہ وہ جورجیا میں اپنے گھر لوٹیں گی اور اپنے لیے ’ایک نئی راہ‘ منتخب کریں گی۔ حالانکہ ایسی اطلاعات تھیں کہ وہ اگلے برس ہونے والے ریاست کے گورنر کے انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں، تاہم حال ہی میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کا گورنر بننے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی ڈیموکریٹ سینیٹر جان اوسوف کی جگہ لینے کا۔
ان کے مستعفی ہونے کے فیصلے سے یہ امکان بھی پیدا ہوتا ہے وہ کبھی بھی اپنا ارادہ بدل سکتی ہیں اور ریاست میں کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ جورجیا کے موجودہ گورنر برائن کیمپ جیسے ریپبلکن سیاستدان ثابت کر چکے ہیں کہ جورجیا میں ٹرمپ کی حمایت کے بغیر بھی انتخابات جیتنا ممکن ہے۔
مارجوری کے اس فیصلے سے انھیں موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر تبدیل کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں ٹرمپ کے لیے عوامی حمایت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا معیشت چلانے کا طریقہ ہے جبکہ آئین میں عائد پابندیوں کے باعث وہ دوبارہ کبھی صدارتی انتخاب میں حصہ بھی نہیں لے سکتے ہیں۔
51 سال کی عمر میں گرین کا کانگریس کا سفر شاید ختم ہو گیا ہو لیکن امریکی سیاست میں ان کا عمل دخل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔