جعفر ایکسپریس میں سوار ریلوے پولیس کے اس اہلکار کا دعویٰ ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کے حملے کے بعد پہلے تو انھوں نے دیگر ’پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا‘ لیکن پھر ’ایمونیشن ختم ہونے پر‘ انھیں بھی یرغمال بنا لیا گیا۔

’گاڑی سرنگ میں نہیں تھی، کھلی جگہ تھی۔ وہ سینکڑوں کی تعداد میں تھے، ہم سے بہت زیادہ۔‘
یہ الفاظ جعفر ایکسپریس میں سوار ریلوے پولیس کے اس اہلکار کے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کے حملے کے بعد پہلے تو انھوں نے دیگر ’پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا‘ لیکن پھر ’ایمونیشن ختم ہونے پر‘ انھیں بھی یرغمال بنا لیا گیا۔
یہ اہلکار کہتے ہیں کہ وہ ریل گاڑی پر بلوچ لبریشن آرمی کے شدت پسندوں کے حملے کے چند گھنٹے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن اس سے پہلے انھوں نے اس مقام پر کیا دیکھا اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا، اس کی تفصیل انھوں نے بی بی سی کو بتائی۔
کوئٹہ میں موجود ان پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکام کی جانب سے دی جانے والی ابتدائی اطلاعات کے برعکس جب ریل گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تو وہ ’سرنگ میں نہیں تھی بلکہ ایک کھلی جگہ پر تھی۔‘ خیال رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے بھی اس کارروائی کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ٹرین کو دھماکے کے وقت کھلی جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اچانک ریلوے ٹریک پر ایک دھماکہ ہوا جس کے بعد گاڑی رک گئی۔ٹرین کے رکتے ہی لانچر (راکٹ) لگنے شروع ہو گئے اور ہم سمجھ گئے کہ معاملہ ہو گیا ہے۔‘
یاد رہے کہ نو بوگیوں پر مشتمل کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر منگل کو جب حملہ ہوا تو اس وقت ریل گاڑی میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح تک 155 مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔
اہلکار کے مطابق جب ریل گاڑی رکی تو بہت بڑی تعداد میں شدت پسند وہاں پہنچ گئے۔ 'وہ پہاڑ پر ہمارے سامنے پھر رہے تھے اور ہم سے تعداد میں کہیں زیادہ تھے، سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔'
مذکورہ اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ریلوے پولیس کے چار اور ایف سی کے دو اہلکار تھے۔ ’میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا۔پانچ ہم تھے اور دو ایف سی والے تھے، ہم سات آدمی تھے۔‘
اہلکار کے مطابق انھوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جوابی فائرنگ کرنے لگے۔
’میں نے ساتھی سے کہا کہ مجھے جی تھری رائفل دے دو کیوں کہ وہ زیادہ بہتر ہتھیار ہے۔ مجھے رائفل اور راؤنڈ مل گئے تو ہم نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ میں ایک ایک گولی چلاتا تھا ان کی طرف تاکہ وہ ہمارے اور ریل گاڑی کے قریب نہ آ سکیں۔‘
بی بی سی ان کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر پایا۔
’ڈیڑھ گھنٹے میں ہمارے راؤنڈ ختم ہو گئے‘
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ اور جوابی فائرنگ کا سلسلہ تقریبا ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک چلا۔ ’ہمارے پاس ظاہر ہے محدود ایمونیشن تھا۔ میری جی تھری کے 60 راؤنڈ تھے۔ باقیوں کے پاس بھی اتنا ہی ایمونیشن تھا۔ کسی کے پاس 60، کسی کے پاس 40 گولیاں تھیں۔ اب ڈیڑھ گھنٹے میں ہمارے راؤنڈ تو ختم ہو گئے اور ان کو پتا چل گیا کہ اب جواب نہیں آ رہا۔ ہم بے بس تھے، خالی رائفل تھی۔ میں نے رائفل پھینک دی کیونکہ انھوں نے تو رائفل دیکھ کر فورا مجھے مار دینا تھا۔‘
ریلوے پولیس کے اہلکار کے مطابق جوابی فائرنگ کا سلسلہ ختم ہوا تو شدت پسند اردگرد موجود پہاڑوں سے اتر آئے اور مسافروں کو ٹرین سے اتارنے لگے۔ ’پھر وہ آ گئے اور پوری گاڑی سے لوگوں کو اتارتے گئے۔ انھوں نے کارڈ چیک کرنا شروع کر دیے اور لوگوں کو کہتے کہ تم ادھر جاؤ، تم ادھر۔‘
’انھوں نے پوچھا کہ ہاں بھئی، تمھاری ذات کیا ہے، زبان کیا ہے؟ میں سرائیکی ہوں، تم ادھر ہو جاؤ، میں سندھی ہوں، تم ادھر ہو جاؤ۔ اسی طرح پنجابی، پٹھان، بلوچ، سب کو ایک ایک طرف کرتے گئے، انھوں نے بہت ساری ٹولیاں اسی طرح بنا دیں۔‘
’ان کو آرڈر ملتا تھا کہ مار دو‘
پولیس اہلکار کے مطابق شدت پسند بلوچی زبان میں بات کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت سے مطالبات کیے ہیں اور اگر وہ پورے نہیں ہوئے تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے، گاڑی کو آگ لگا دیں گے۔‘
اہلکار کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں نے ’لوگوں کو تقسیم کرنے کے بعد فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ باندھ دیے۔‘
’میں اور میرا حوالدار تھے، ہم یونیفارم میں تھے۔ مجھے ایک، دو لوگوں نے کہا بھی کہ آپ یونیفارم اتار دیں لیکن میں نے کہا نہیں، ایسے میرا دل نہیں مانتا تھا کہ مرو تو لوگ کہیں کہ وردی میں ہی گیا۔‘
پولیس اہلکار نے کوئٹہ پہنچنے کے بعد بی بی سی سے بات کیسرکاری سطح پر تاحال اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں تاہم اس پولیس اہلکار کا دعویٰ تھا کہ حملہ آور شدت پسندوں نے ٹرین کے متعدد مسافروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ شدت پسندوں کو احکامات مل رہے تھے۔ ’ان کو آرڈر ملتا تھا کہ مار دو تو ٹولی سے اٹھا کر مار دیتے تھے۔ بہت لوگوں کو مارا، آرمی والوں کو بھی اور عام شہریوں کو بھی۔‘
اہلکار کا کہنا تھا کہ اندھیرا ہونے کے بعد حملہ آوروں میں سے بہت سے لوگ جائے وقوعہ سے چلے گئے اور کچھ لوگ پیچھے رک گئے۔ ’ایسے میں مغرب کا وقت ہو گیا اور اندھیرا ہو گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ گلے ملے اور 70، 80 لوگ چلے گئے جبکہ 20، 25 رک گئے۔‘
’پھر ایک موقع پر کہا کہ ان وردی والوں کو بھی مار دو، ہم نے کہا کہ ہم تو بلوچ ہیں۔ اس نے کہا کہ تم کیوں نوکری کرتے ہو۔ پھر پتا نہیں کیوں کوئی دعا کام آ گئی، ہمیں چھوڑ دیا۔ رات دس بجے تک یہ قصہ چلا اور انھوں نے کہا کہ جو جہاں ہے وہاں بیٹھا رہے۔‘
اہلکار کا کہنا تھا کہ منگل کی شب، رات کے اندھیرے میں ’کچھ لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انھوں نے دیکھ لیا اور برسٹ کھول دیا پھر جو جدھر تھا، گرتا گیا۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق بدھ کی صبح ایف سی کے اہلکار جائے وقوع پر پہنچے تو شدت پسندوں کی توجہ ان کی جانب ہو گئی اور ایسے میں انھوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ’بھاگ چلتے ہیں۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کی آمد کے بعد ان کا فرار ممکن ہوا’صبح ایف سی آ گئی تو ان لوگوں کا دھیان اس طرف ہو گیا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چلو ہم بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم بھاگے تو پیچھے سے گولیاں چلیں اور ساتھی کو گولی لگ گئی۔‘
’اس نے مجھے کہا کہ چھوڑ دو مجھے، میں نے کہا نہیں، میں آپ کو کندھے پر اٹھاؤں گا۔ پھر ایک اور شخص نے بھی ہاتھ بٹایا اور ہم پہاڑیوں سے نیچے اترے اور فائرنگ کی رینج سے نکل گئے۔‘
اہلکار کے مطابق وہ لوگ قریبی ریلوے سٹیشن پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں ایف سی والے موجود تھے۔ ’سٹیشن پر پہنچے تو ایف سی والوں نے ہمیں بٹھایا۔ چہرے پر خون ہی خون تھا۔ انھوں نے ہمارا منھ دھلایا اور پھر مچھ لے آئے۔‘