عراق میں قتل کی سازش اور پیشرو کا دیا ’سفید ڈبہ‘: پوپ فرانسس کی سوانح عمری میں انکشافات

جب پوپ فرانسس کا طیارہ بغداد پہنچا تو انھیں مطلع کیا گیا کہ برطانوی خفیہ اداروں نے ان کے خلاف دو خودکش حملوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
پوپ
Getty Images

جارج ماریو برگولیو نہ صرف لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ ہیں بلکہ 15ویں صدی کے بعد وہ پہلے پوپ ہیں جنھوں نے اس منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب شائع کی۔

درحقیقت ’ہوپ: دی آٹو بائیوگرافی‘ کو ان کی موت کے بعد شائع کیا جانا تھا مگر اب پوپ نے اپنا ارادہ بدل کر اس کتاب کو جنوری میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

کچھ ہفتوں بعد پوپ کو سانس کے انفیکشن کی وجہ سے روم کے جیمیلی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ تاہم ان میں مزید بیماریوں کی بھی تشخیص ہوئی۔

اگرچہ پوپ ہسپتال میں داخل رہے مگر اب وہ روبہ صحت ہو کر پوپ کے طور پر 12 ویں سالگرہ بھی منائیں گے۔ وہ اس منصب پر 2013 میں فائز ہوئے تھے۔

پوپ کی چھاتی کے حالیہ سی ٹی سکین سکین سے بھی ان کی صحت میں بہتری کی تصدیق ہوئی ہے۔

پوپ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’خود نوشت ہمارا نجی ادب نہیں ہے، بلکہ یہ یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ اور یادداشت صرف وہی نہیں ہے جو ہم یاد کرتے ہیں، بلکہ وہ بھی جو ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے۔‘

پوپ کی یہ سوانح عمری ان کی ایک اطالوی صحافی کارلو موسو کے ساتھ چھ برس سے زائد ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔

انھوں نے اپنی سوانح عمری میں بیونس آئرس میں اپنی جوانی کے گزرے ایام کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

انھوں نے نقل مکانی جیسے موضوعات پر اپنے تاثرات شیئر کیے اور پوپ کے طور پر اپنی زندگی کی تفصیلات بیان کیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہر صفحے پر، ہر قدم پر، یہ میرے ساتھ چلنے والوں کی کتاب بھی ہے، جو مجھ سے پہلے گزرے ہیں اور وہ جو میرے بعد آئیں گے۔‘

اس طرح کے اہم حقائق اور قصے ان کی سوانح عمری کا حصہ ہیں۔

Pope
Getty Images
پوپ فرانسس کی کہانی کا آغاز ایک بحری جہاز کی تباہی سے ہوتا ہے

جہاز کا ڈوبنا

پوپ فرانسس کی کہانی کا آغاز ایک بحری جہاز کی تباہی سے ہوتا ہے۔

ان کی پیدائش سے نو سال قبل 11 اکتوبر 1927 کو ان کے والد ماریو جوزف برگولیو نے اپنے والدین کے ساتھ جینوا سے بیونس آئرس تک کشتی کے ذریعے سفر کرنے کے لیے ٹکٹ خریدے تھے۔

لیکن اس دن نہ تو ماریو اور نہ ہی ان کا خاندان اس کشتی پر سوار ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ وقت پر گھر کا فرنیچر بیچنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس مجبوری کی وجہ سے برگولیو خاندان نے ٹکٹ واپس کر کے ارجنٹائن جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔

کچھ دن بعد جب برگولیو خاندان ابھی اٹلی میں تھا، بہت بڑا جہاز ’پرینچی پیسا‘ مافالدا (أميرة مافالدا) بحر اوقیانوس کو عبور کرتے ہوئے آسمانی بجلی سے ٹکرا گیا اور پھر اس حادثے میں یہ جہاز ڈوب گیا۔

پوپ کی سوانح عمری کے مطابق اس سانحے میں کم از کم 300 افراد ہلاک ہوئے۔

انھوں نے کتاب میں اپنے پیدا ہونے سے قبل بھی اس واقعے کے بارے میں لکھا کہ یہی وجہ کہ ’میں آج یہاں آپ کے درمیان موجود ہوں کیونکہ میرے والد نے اس جہاز پر سفر نہیں کیا تھا۔ ‘

آخرکار، دو سال بعد برگولیو کے والد بیونس آئرس پہنچ گیا، جہاں وہ ’غیرملکی تارکین وطن‘ کے طور پر رجسٹرڈ تھے۔

فرانسس نے ملک چھوڑنے کی وجوہات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے بلکہ جیسے کل ہو رہا تھا وہی آج بھی جاری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ 1990 ہو یا آج کے حالات ہوں جہاں ہزاروں میں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر بہتر روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔

اسی لیے کئی سالوں کے بعد ویٹیکن سے باہر پوپ کے طور پر اپنے پہلے سفر پر فرانسس نے بحیرہ روم کے جزیرے ’لامبيدوزا‘ کا سفر کیا جو نقل مکانی کی علامت بن چکا ہے۔

ان کی رائے میں ’نقل مکانی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘

اضافی بیلٹ

فرانسس کو 2013 میں کیتھولک چرچ کے اعلیٰ ترین روحانی پیشوا منتخب ہونے کی امید نہیں تھی۔

زیادہ سے زیادہ ان کا خیال تھا کہ ایک لاطینی امریکی کارڈینل کے طور پر وہ ممکنہ جانشینوں میں سے ایک کے طور پر چند ووٹ ہی حاصل کر سکیں گے۔

انھوں نے کہا ’میں نے کبھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی، اپنی زندگی میں کبھی نہیں، اور اس بند کمرہ مذہبی اجتماع کے آغاز پر بہت کم ہی ایسی توقع تھی۔ یہ میری طرف سے صورتحال کا درست اندازہ نہیں تھا۔‘

ماضی میں البتہ پہلے سے پتا چل جاتا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

اس مذہبی اجتماع کے موقع پر جب انھوں نے اچانک ایک مختصر خطاب کیا تو ارجنٹائن سے انھیں خوب پذیرائی اور داد ملی۔

ان کا خطاب سننے کے بعد ایک کارڈینل نے ان سے کہا کہ ہمیں کسی ایسی ہی شخصیت کی ضرورت ہے جو یہ سب کر سکے۔ برگولیو نے پوچھا کہ ٹھیک ہے مگر آپ کہاں سے ایسی شخصیت ڈھونڈ کر لائیں گے۔

یہ بات سن کر کارڈینل ہنس پڑے اور کہا ہاں جی ٹھیک ہے، چلیں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ آپ سے ہوتی ہے ملاقات پھر۔

مستقبل کے پوپ نے اس تبصرے کو محض ایک مذاق کے طور پر ہی لیا۔

پوپ
Getty Images

یہ مذہبی اجتماع 12 مارچ 2013 کو شروع ہوا۔

برگولیو ایک سوٹ کیس لے کر سانتا مارٹا پہنچے، جس میں ان کی ضرورت کی چھوٹی چھوٹی اشیا تھیں۔ وہ اپنا بقیہ سامان بیونس آئرس میں ہی چھوڑ آئے۔ مگر پھر پوپ منتخب ہونے کے بعد وہ اس شہر کی طرف کبھی واپس لوٹ کر نہ جا سکے۔

اس مذہبی اجتماع کی پہلی رات کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا۔

اگلی صبح 13 مارچ کو دوسرا اور تیسرا اجلاس ہوا، جس میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 115 ووٹوں میں سے 77 کی اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔

پانچویں رائے شماری کے وقفے کے دوران ایک لاطینی امریکی کارڈینل نے برگولیو کو بتایا کہ ’کیا آپ نے تقریر تیار کر رکھی ہے؟ اسے اچھی طرح سے تیار کریں۔‘

برگولیو نے پوچھا کہ ’آپ کس تقریر کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟‘ کارڈینل نے نئے پوپ کی پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا ’وہ تقریر جو آپ نے بالکونی سے کرنی ہے۔‘

برگولیو نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا یہ ایک اور لطیفہ ہے؟‘ ووٹنگ کے چوتھے مرحلے میں ارجنٹائن کو 69 ووٹ ملے مگر یہ اکثریتی ووٹ سے کم تھے۔

ووٹنگ کے پانچویں دور نے ایک غیر متوقع مسئلہ پیدا ہو گیا: اس ووٹنگ کے دوران ایک اضافی بیلٹ سامنے آیا۔ کسی نے دو کارڈبورڈ ملا کر ووٹ کاسٹ کر دیا لہذا ایک بار پر تمام ووٹوں کا جلا کر نئے سرے سے ووٹنگ کرانا پڑی۔

ووٹنگ کے پانچویں راؤنڈ کے دوسرے مرحلے میں ہی برگوگلیو کنیت 77 سے زیادہ بار سنی گئی۔

پانچویں بار پھر بورگولیو کا نام پکارا گیا کہ انھوں نے 77 ووٹ سے زیادہ کی اکثریت حاصل کر لی ہے۔

فرانسس کا کہنا ہے کہ ’مجھے قطعی طور پر نہیں معلوم کہ آخر میں کتنے ووٹ تھے، میں انھیں مزید سن نہیں سکتا تھا۔ شور نے انتخابی نتائج سنانے والے کی آواز کو دبا دیا تھا۔‘

کارڈینل رے نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ان انتخابات کے نتائج قبول کرتے ہیں۔ برگولیو نے کہا ’جی ہاں مجھے قبول ہے۔‘

12 سال بعد پوپ نے یہ تسلیم کیا کہ انھیں اس سے سکون اور آرام محسوس ہوا۔ تنائج تسلیم کرنے کے بعد پھر جشن کی رسومات شروع ہو گئیں۔

پوپ
Getty Images

سفید ڈبہ

برگولیو پوپ بینیڈکٹکے استعفے کے بعد اس منصب پر منتخب ہوئے۔ پوپ بینیڈکٹ تقریباً 600 سالوں میں پہلے پوپ ہیں جو صحت کے مسائل کی وجہ سے مستعفی ہوئے تھے۔

فرانسس کو اپنے پیشرو سے بات کرنے کا موقع ملا، جنھوں نے ان کے پوپ بننے کی رسم کے دوران ایک بڑا ’وائٹ باکس‘ تھمایا۔

پوپ فرانسس نے بتایا کہ انھیں ان کے پیشرو پوپ نے کہا کہ ’سب کچھ اس کے اندر موجود ہے۔ بہت تکلیف دہ اور مشکل صورتحال کا ریکارڈ بھی اس کے اندر موجود ہے، جس میںبدسلوکی، بدعنوانی کے مقدمات، تاریک راستے، غلط کاموں کے ریکارڈ بھی اس میں ہے۔‘

پوپ بینیڈکٹ دسمبر 2022 میں فوت ہوئے۔

فرانسس کے مطابق بینیڈکٹ نے مزید انھیں بتایا کہ ’میں نے یہاں تک سب کیا ہے، میں نے یہ اور یہ اقدامات اٹھائے ہیں، میں نے ان لوگوں کو برطرف کیا ہے، اب یہ سب کرنے کی آپ کی باری ہے۔‘

کتاب میں پوپ نے اپنے پیشرو کو ’ایک باپ اور ایک بھائی‘ کے طور پر پر بیان کیا ہے جن کے ساتھ ان کا ہمیشہ ایک ’مستند اور گہرا‘ رشتہ تھا۔ یہ اس موقف کے برعکس ہے جو کچھ لوگوں نے اپنی طرف سے کہانیاں بنائی ہوئی تھیں۔

پوپ
Getty Images

اس کے علاوہ کتاب میں پوپ فرانسس نے کچھ نہیں بتایا کہ اس وائٹ باکس میں کیا تھا اور وہ کون سے لوگ تھے یا کون سے بدعنوانی کے مقدمات تھے۔

مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ رومن کوریا کی اصلاحات اور کیتھولک کلیسیا کے زیادہ روایت پسند ونگ کے رہنماؤں کے ساتھ معاملات آگے بڑھانا ان کے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ وہ تبدیلی کی راہ میں مزاحم تھے۔

یا وہ ویٹیکن کے مالیاتی انتظام کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ہمیشہ اس طرح ہوتا رہا ہے‘ کی صورتحال سے نکلنا آسان نہیں تھا، لیکن اب ہم آخر کار صحیح راستے پر ہیں۔‘

اگرچہ 2013 میں ایسی دستاویزات سے متعلق خبریں شائع ہوئیں مگر یہ پہلا موقع ہے جب پوپ فرانسس نے خود اس پر لب کشائی کی۔

دوہرا حملہ

جب فرانسس نے عراق کا سفر کیا تو دنیا ابھی وبائی مرض سے نہیں نکلی تھی۔

ایک تاریخی دورے میں پوپ آیت اللہ علی السیستانی سے ملاقات کے لیے نجف شہر گئے جو شیعہ اسلام کا تاریخی اور روحانی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

’دی ہولی سی‘ یعنی کیتھولک چرچ کی گورننگ باڈی برسوں سے اس ملاقات کی تیاری کر رہی تھی، جسے بین المذاہب مکالمے کی راہ پر ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ ویٹی کن کے مطابق پوپ کی حفاظت سے منسلک خطرات، شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات کی وجہ سے ایسا پہلے ممکن نہ ہو سکا۔‘

فرانسس اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ تقریباً سبھی نے میرے اس دورے کی مخالفت کی، یہ ان کا اس ملک کا پہلا دورہ تھا جو انتہا پسندانہ نظریات اور شدت پسندوں کی وجہ سے تباہ حال تھا۔

پوپ کے مطابق میں اسے ہر صورت دیکھنے کا متمنی تھا۔ میرے اندر یہ احساسات تھے کہ میں نے یہ کرنا ہے۔

سنہ 2019 کی امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں مسیحوں کی آبادی 2003 میں امریکی حملے سے قبل چودہ لاکھ سے بہت کم ہو کر تقریباً 250,000 تک رہ گئی ہے۔

جب ان کا طیارہ بغداد پہنچا تو انھیں مطلع کیا گیا کہ برطانوی خفیہ اداروں نے ان کے خلاف دو خودکش بم حملوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔

ان میں سے ایک میں ایک خاتون ملوث تھی جو پوپ کے دورے کے دوران خود کو اڑانے کے لیے موصل جا رہی تھی۔ دوسرا ایک ’پک اپ‘ ٹرک تھا جو سڑک پر پھٹنے کے ارادے سے آگے بڑھا تھا۔

فرانسس نے پھر پوچھا کہ انھوں نے دونوں خطرات کو کیسے روکا گیا۔

کمانڈر نے کہا کہ ’وہ (خطرات) اب موجود نہیں ہیں۔ عراقی پولیس نے ان کا تعاقب کر کے انھیں ختم کر دیا ہے۔‘

پوپ نے لکھا کہ ’اس بات نے مجھے بھی چونکا دیا۔ یہ جنگ کا ایک اور زہر آلود پھل تھا۔‘

لوئیس بورخیس
Getty Images

خورخے لوئیس بورخیس کے ساتھ تعلق

اپنی سوانح عمری میں پوپ فرانسس نے ارجنٹائن کے مصنف خورخے لوئیس بورخیس سے ملاقات کے لمحات کے بارے میں لکھا۔

اس وقت، برگولیو کی عمر 27 سال تھی اور وہ وسطی ارجنٹائن کے صوبے سانتا فی کے امیکولیٹ کنسیپشن سکول میں ادب اور نفسیات کے پروفیسر تھے، جہاں وہ تخلیقی تحریر کا کورس پڑھاتے تھے۔

لوئیس بورخیس کے سکریٹری برگولیو کی پیانو ٹیچر رہ چکی ہیں، اس لیے مؤخر الذکر نے اپنے طالب علموں کی لکھی ہوئی دو کہانیاں ان کے ذریعے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت برگولیو ایک مذہبی شخصیت سے زیادہ کچھ نہیں تھے، اور لوئیس بورخیس پہلے ہی 20ویں صدی کے سب سے مشہور لاطینی امریکی مصنفین میں شامل تھے۔

لوئیس بورخیس نے نہ صرف انھیں پسند کیا، بلکہ انھیں کتابی شکل میں شائع کرنے کی تجویز دی اور اس پر پیش لفظ لکھنے کی بھی پیشکش کی۔ پوپ فرانسس کے مطابق ’یہ پیش لفظ نہ صرف اس کتاب کے لیے ہے، بلکہ ان کاموں کے ہر ایک ممکنہ سلسلے کے لیے جو یہاں جمع ہوئے نوجوان مستقبل میں لکھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے انھیں چند کلاسیں پڑھانے کی دعوت دی جسے ارجنٹائن میں ’گاؤچو لٹریچر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دعوت انھوں نے قبول کر لی۔

پوپ کے مطابق وہ کسی بھی موضوع کے بارے میں بات کر سکتے تھے مگر انھوں نے کبھی اس کا چرچا نہیں کیا۔ پوپ کے مطابق 66 سال کی عمر میں، وہ ایک بس میں سوار ہوئے اور بیونس آئرس سے سانتا فے تک آٹھ گھنٹے کا سفر کیا۔

پوپ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ خود بھی درس و تدریس کا شوق رکھتے ہیں۔

پوپ کے مطابق ’ایک بار ہم دیر سے پہنچے کیونکہ جب میں انھیں ہوٹل لینے گیا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرے شیو بنانے میں مدد کریں۔‘

ان کی وفات سنہ 1986 میں ہوئی۔

لوئیس بورخیس ’ایک خدا پر ایمان رکھتا تھا جس نے ہر رات رب کی دعا مانگی تھی کیونکہ اس نے اس کا وعدہ اپنی ماں سے کیا تھا، اور مرنے سے پہلے انھوں نے مقدسات حاصل کیں۔‘

اور وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں لوئیس بورخیس کی بہت تعریف کرتا تھا اور ان کی عزت کرتا تھا۔ میں اس سنجیدگی اور وقار سے متاثر ہوا جس کے ساتھ انھوں نے اپنی زندگی گزاری۔ وہ بہت ہی عقلمند اور دانا تھے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.