انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر اور دوسرے انڈین شہروں میں سیاسی اور سماجی حلقوں کا الزام ہے کہ نریندر مودی اور آدتیہ یوگی انڈیا میں وہی مذہبی جنون برپا کررہے ہیں جو جنرل ضیاٴالحق نے نصف صدی پہلے پاکستان میں برپا کیا تھا۔

ہندووٴں کا مذہبی تہوار ہولی اس سال جمعے کو ہونے کی وجہ سے انڈیا کے کئی شہروں خاص طور پر اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف یو پی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی اور بعض پولیس افسروں کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے۔
اُتر پردیش کے سمبھل قصبے کے پولیس افسر انوج چودھری نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر انھیں رنگ پھینکے جانے پر اعتراض ہے تو جمعے کے روز گھروں میں ہی نماز پڑھیں۔
ریاست کے وزیراعلیٰیوگی آدِتیہ ناتھ نے اس بیان کی حمایت میں کہا کہ ’کوئی جمعے کی نماز پڑھنا چاہے تو وہ گھر پر پڑھ سکتا ہے، مسجد جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مسجد جانا چاہیں تو انھیں (ہولی کے) رنگوں سے گُریز نہیں کرنا چاہیے، پولیس افسر نے یہی بات کہی ہے۔‘
انوج چودھری نے کہا تھا کہ ہولی سال میں ایک بار آتی ہے جبکہ جمعے کی نماز سال میں 52 دفعہ ہوتی ہے۔ ’اگر انھیں (مسلمانوں کو) رنگوں سے تکلیف ہوتی ہے تو انھیں اس بار گھروں میں بیٹھنا چاہیے۔ جو باہر آئیں گے انھیں وسیع ذہن رکھنا چاہیے کیونکہ تہوار ایک ساتھ منائے جاتے ہیں۔‘
ان بیانات پر جہاں انڈیا کی بعض غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں نے ردعمل ظاہر کیا وہیں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’یوگی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ضیاٴالحق نے پاکستان میں کیا تھا۔
’فرقہ واریت کا جو زہر ضیاٴ نے پاکستان میں گھولا اس کا خمیازہ وہ لوگ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ وہی زہر اب انڈیا میں گھولا جارہا ہے۔اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ انڈیا کی گنگا جمنی تہذیب دُنیا بھر میں مثال بنی ہوئی تھی کیونکہ سبھی مذاہب کے لوگ محبت اور رواداری کے ساتھ سبھی تہوار ایک ساتھ مناتے تھے۔
انڈیا میں گذشتہ دس برس سے سیاست پر انتہاپسند ہندوتوا بیانیے کے غلبے نے یہاں کی سیاست کو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ اس میں نمایاں کردار اترپردیش کے پاوٴری گاوٴں سے تعلق رکھنے والے ایک سادھو یوگی آدتیہ ناتھ کا ہے۔
2014 تک وہ بی جے پی کے گمنام کارکنوں میں شمار ہوتے تھے لیکن انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سے شہرت پائی اور بالآخر 2017 میں یوپی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ وہ انڈیا کو ہندو راشٹر بنانے کی باتیں برملا کرتے ہیں۔
ان کی ایک انتخابی تقریر سے 2013 میں یو پی کے مظفرپور میں ہندومسلم فسادات بھڑک اُٹھے جس میں 60 افراد مارے گئے اور سینکڑوں مسلم خاندان اپنی بستیوں سے نکل کر دوسری جگہوں پر آباد ہوگئے۔ اس تقریر پر انڈیا کے الیکشن کمیشن نے سخت نوٹس لیتے ہوئے انھیں ضبط کی تلقین کی تھی۔
2017 میں ان کے پہلی بار وزیراعلیٰ بننے کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک تفصیلی رپورٹ میں یوگی آدتیہ کی تقریروں پر تشویش ظاہر کی اور انڈیا سے کہا کہ یوگی کے نظریات اگر بحیثیت وزیراعلیٰ سرکاری پالیسی بن گئے تو اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔
یہ یوگی ہی ہیں جنہوں نے ’لَو جہاد‘ کی اصطلاح گڑھی اور کئی بار بیان دیا کہ ’اگر کوئی مسلمان ایک ہندو لڑکی کو لے جائے ، ہم سو مسلمان لڑکیوں کو لے جائیں گے۔‘
وہ اکثر اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ ’تقسیم کے وقت مسلمانوں نے انڈیا میں رہ کر کوئی احسان نہیں کیا، جن کو ہماری پالیسی پسند نہیں وہ واپس پاکستان جاسکتے ہیں۔‘
یوگی آدتیہ ناتھ 2014 تک بی جے پی کے گمنام کارکنوں میں شمار ہوتے تھے لیکن انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سے شہرت پائی اور بالآخر 2017 میں یوپی کے وزیراعلیٰ بن گئےانڈیا کی بدلتی سیاست اور ضیاٴالحق کی مثالیں
موجودہ صورتحال پر ردعمل کے دوران پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاٴالحق کی مثال صرف محوبہ مفتی نے نہیں دی ہے۔ گذشتہ کئی برس سے سوشل میڈیا پر انڈیا کے سیکولر اور بی جے پی مخالف حلقوں نے بھی انڈیا کی موجودہ قیادت کا تقابل جنرل ضیاٴ کے ساتھکیا ہے۔
گزشتہ برس راوی نامی ایک یوزر نے ایکس پر لکھا: ''انڈیا تیزی سے ہندوپاکستان بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ ضیاٴالحق وہاں، تو مسٹر مودی یہاں۔ اِن لوگوں کو اس مزہ چکھنے دیجیئے ، جسطرح پاکستانی تین دہائیوں تک مزے لینے کے بعد اب انتہاپسندی کا مزہ لے رہے ہیں۔''
ہولی اور جمعہ کی نماز سے متعلق خدشات پر اپنے ردعمل میں منیشا پانڈے نامی ایک خاتون یوزر نے ایکس پر لکھا کہ مذہبی تہوار کوئی میدان جنگ نہیں ہوتا: ’سبھی ٹی وی چینل یہ بحث ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو جمعہ کے روز باہر آنا چاہیئے یا نہیں جبکہ دنیا میں معیشت، مصنوعی ذہانت اور تجارت پر باتیں ہورہی ہیں۔‘
مان امن سنگھ چھِنّا نامی ایک یوزر نے خدشتہ ظاہر کیا انڈیا بھی پاکستان کی طرح بنتا جارہا ہے۔ ’انڈیا جن اقدار کا نام ہے ہم انہیں تباہ کررہے ہیں۔ ہم انڈیا کو جنرل ضیا کا بغیر پاکستان بنا رہے ہیں۔‘

ضیاٴالحق اور انتہا پسندی
انڈیا اور پاکستان میں مبصرین کی اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 1979 میں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاٴالحق نے پاکستانی ریاست کو خالص اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ پاکستان میں مسلح شدت پسندی کے پھیلاوٴ کا سبب بنے۔
لاہور یونیورسٹی کے پروفیسر پرویز ہودبھائی نے حالیہ دنوں انڈیا کے نیوز پورٹل ’دی وائر‘ کے ایک مباحثے میں بولتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ایک مسلم ملک تھا، لیکن ضیاٴ الحق نے اسے اسلامی ملک بنایا۔ زندگی کے تمام شعبوں یہاں تک کہ تعلیم کو بھی اسلامائز کیا گیا۔ حیرت ہے کہ سائنس کو اسلامئز کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔‘
انڈیا کے اکثر اعتدال پسند سیاست دان اور مبصر بی جے پی کے انتہاپسند ہندوتوا بیانیے پر تبصرہ کرتے وقت جنرل ضیا کی مثال ضرور دیتے ہیں۔
اس سال جنوری میں کولکتہ سے شائع ہونے والے ’دی ٹیلی گراف انڈیا‘ میں چھپے ایک مضمون میں دفاعی امور کے تجزیہ نگار سُشانت سنگھ نے خدشتہ ظاہر کیا ہے کہ مودی کی قیادت میں انڈین افواج میں مذہبی انتہاپسندی اور مذہبیت کے وہی جرثومے بونے کی کوشش ہورہی ہے جو جنرل ضیاٴالحق نے پاکستانی افواج میں بوئے تھے۔
سُشانت سنگھ کے مطابق انڈیا اور پاکستان کی افواج برطانوی ملٹری روایت سے پھلی پھولی ہیں اور دونوں افواج پر ٹھیٹ پروفیشنلزم حاوی تھا۔ ’حالانکہ ہماری افواج میں ابھی یہ سب نمایاں نہیں ہے، لیکن خدشہ ہے کہ جس طرح جنرل ضیاٴ نے پاکستانی افواج میں شریعت اور مذہبی جنون کو پھونکا، وہی کوششیں ہمارے یہاں پچھلے دس سال سے ہورہی ہیں۔‘
سشانت سنگھ نے حالیہ کمبھ میلے میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ہمراہ آرمی چیف جنرل اوپیندر دِویدی کا سادھووٴں کے لباس میں آکر پوجا کرنے اور اُن تصویروں کو سرکاری طور جاری کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جنرل ضیاٴ نے مذہبیت کے برملا اظہار کے لیے فوج کو تاکید کی۔ داڑھی الاونس کا اعلان کیا،اور ملک کے دفاع کو جہاد کا نام دیا۔ اسی طرح ہمارے یہاں اہم فوجی تنصیبات پر جیتی ہوئی جنگوں کی تصویروں کو ہٹا کر مہابھارت کی جنگوں کی تصویر لگائی گئی ہے۔ اور توقع کی جاتی ہے کہ ہماری فوج ان خیالی جنگوں کی تصویروں سے انسپائر ہوجائے گی۔‘
چند برس قبل جب گاوٴ کشی کے خلاف بی جے پی حامیوں نے کئی مسلمانوں کو زیرچوب ہلاک کیا تو معروف صحافی اور محقق ظفر آغا نے انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان ’قومی آواز‘ میں ایک طویل مضمون میں مودی کے انڈیا اور جنرل ضیاٴ کے پاکستان کا تقابل کیا۔
آغا کہتے ہیں کہ’جس ملک کو رواداری، مساوات اور سیکولر اقدار پر گاندھی اور نہرو نے کھڑا کیا تھا وہ سات دہائیاں بعد اب پاکستان جیسا نظر آنے لگا ہے۔‘
ظفر مزید لکھتے ہیں ’جس طرح مسلم علماٴ نے توہین مذہب کے کیس میں آسیہ بی بی کو بری کرنے پر وہاں کی سپریم کورٹ کو یرغمال بنایا، اُسی طرح یہاں کے سنتوں اورسادھووٴں نے رام مندر کی تعمیر سے متعلق کیس پر ہماری سپریم کورٹ کو یرغمال بنالیا۔‘

’ضیاٴ تو اعلانیہ ڈکٹیٹر تھے، ہمارے ہاں جمہوریت کی آڑ میں سب ہو رہا ہے‘
جنوب ایشیائی امور کی ماہر، مصنف اور تجزیہ کار انورادھا بھسین سمجھتی ہیں کہ انڈیا کے موجودہ حالات اور ضیاٴالحق کے دور میں مماثلت نہیں بلکہ فرق ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’جنرل ضیاٴ سے پہلے بھی پاکستان میں باقاعدہ جمہوریت نہیں تھی۔ اور پھر وہ تو اعلانیہ ڈکٹیڑ تھے۔ انھوں نے جمہوریت کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا۔ لیکن جمہوریت کی آڑ میں یہاں گاوٴ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو مارا جارہا ہے، مسجدیں گرائی جارہی ہیں اور اقلیتیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔‘
تاہمانورادھا مانتی ہیں کہ جس طرح جنرل ضیا نے اپنی افواج اور عدلیہ میں مذہبیت کو متعارف کیا اب چند برسوں سے وہی حال یہاں ہورہا ہے۔
’رام مندر کیس کا فیصلہ سنانے سے ہمارے چیف جسٹس شاید مہاراشٹرا کے کسی مندر میں مورتی کے سامنے بھگوان سے کہہ رہے تھے مجھے رہنمائی کریں کہ کیا فیصلہ دوں۔ اسطرح ان کے فیصلے پر مذہب کی مہر لگ گئی، تب کس کی مجال جو کہے کہ فیصلہ درست نہ تھا۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ جو کچھ جنرل ضیاٴ نے کیا یا جو بھی مودی حکومت کررہی ہے، یہ دنیا کے کئی ممالک میں ہورہا ہے۔
’لیکن انڈیا میں چونکہ لوگ پاکستان کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی قربت رکھتے ہیں، اس لیے ان کے ذہن میں فوراً پاکستان آجاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’اب انڈیا کو بھی پاکستان بنایا جا رہا ہے۔‘
انورادھا کہتی ہیں کہ انڈیا میں پاکستان جیسی صورتحال پیدا ہونے میں عرصے سے پاکستان میں بھی تشویش پائی جارہی ہے۔
انھوں نے 1996 میں لکھی پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی اُس نظم کا حوالہ دیا جو انھوں نے ’ہندوراشٹر‘ بنائے جانے کے آرایس ایس کے عزم پر لکھی تھی:
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
آخر پہنچی دوار توہارے، ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کروگے؟
سارے اُلٹے کاج کروگے
اپنا چمن تاراج کروگے۔