پاکستان نیوزی لینڈ سیریز: ’ایک ہی سال میں تین کپتان کھا جانے والی بے یقینی اور سلمان علی آغا‘

اپنی ہوم کنڈیشنز میں کیویز ہمیشہ فیورٹ ہی رہتے ہیں بھلے ان کی اولین ٹیم ساری کی ساری ہی دستیاب نہ ہو۔ جبکہ یہاں تو پاکستان بھی بیشتر نوآموز چہروں پہ مشتمل ہو گا۔ ایسے میں سلمان آغا کا ہدف صرف میچ جیتنا ہی نہیں، اپنی ٹیم کو جیتنا بھی ہو گا اور یہ تبھی ممکن ہو پائے اگر وہ شاہین آفریدی کو سنبھال پائے۔
salman agha and shaheen
Getty Images

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی کرکٹ آج اپنی پچھلی دو دہائیوں کے پست ترین مقام پہ کھڑی ہے تو بالکل بے جا نہ ہو گا کہ اوپر تلے تین آئی سی سی ایونٹس کے پہلے ہی راؤنڈ سے بے دخلی سا عالم بھلا پہلے کب دیکھنے کو ملا تھا۔

نوجوان کرکٹرز کی جو کھیپ کبھی ٹی ٹونٹی فرنچائزمارکیٹ میں دیدہ و دل اپنے لئے فرشِ راہ پاتی تھی، اب زیادہ گاہک ڈھونڈنے سے بھی قاصر ہے اور مقامی شائقین کی بے دلی اپنی انتہاؤں کو جاتی نظر آ رہی ہے۔

اس گرتی مقبولیت اور سکڑتی مارکیٹ کے ہنگام پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور اب سلمان آغا کے حوالے کی جا رہی ہے کہ نہ صرف وہ اس ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالیں بلکہ آئندہ برس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ تک ایسی ٹیم بھی تیار کریں جو کم از کم پہلے ہی راؤنڈ سے تو رسوائی سمیٹ کر نہ پلٹے۔

دوسرا اہم قدم اس سلسلے میں بابر اعظم اور محمد رضوان کی ٹی ٹونٹی ٹیم سے بے دخلی ہے۔ اپروچ اس فیصلے کی تہہ میں یہ ہے کہ دونوں تجربہ کار بلے باز ٹی ٹونٹی کرکٹ کی جدید رفتار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔

جبکہ اس اہم فیصلے کے مضمرات اگلے برس ورلڈ کپ کے دوران سری لنکا کی ٹرننگ پچز پہ ہی اپنے کوئی واضح نتائج ظاہر کر پائیں گے، فی الوقت تو یہ موقع ان نوجوان بلے بازوں کے لئے ہے جو محض اس لئے ٹیم میں جگہ نہیں بنا پاتے تھے کہ بیٹنگ آرڈر میں یہ مستند نام موجود تھے۔

دو سابقہ کپتانوں کی ٹیم میں غیر موجودگی اگرچہ نو آموز کپتان کے چیلنجز کم کر سکتی ہے مگر سلمان آغا کے معاملے میں یہ قصہ بھی دو دھاری تلوار کا سا ہے کہ مڈل آرڈر کی ناتجربہ کاری کا وہ سارا بوجھ اب ان ہی کے کندھوں پر ہو گا جو اب تک رضوان و بابر اٹھاتے رہے ہیں۔

دو سینیئرز کے نفوذ سے خالی ڈریسنگ روم کو سنبھالنا سلمان آغا کے لیے آسان تو یوں بھی نہ ہو گا کہ شاہین آفریدی پھر بھی اس الیون کا حصہ ہی ہوں گے اور انھیں سنبھالنے میں مبینہ طور پر آغا کے پیشرو بھی کافی مشکلیں دیکھ چکے۔

جبکہ دوسری جانب کیویز بھی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2026 کے پیشِ نظر اپنے مستقبل کی کھیپ تیار کر رہے ہیں اور آئی پی ایل میں مصروف رچن رویندرا، گلین فلپس و ڈیون کانوے کی عدم دستیابی کے طفیل جہاں کچھ نئے ناموں کو موقع دے رہے ہیں، وہیں ٹم سائفرٹ، فِن ایلن اور جیمز نیشم کی واپسی سے اپنا بہترین توازن بھی ٹٹول رہے ہیں۔

مائیکل بریسویل کی قیادت میں جو ٹیم سلمان آغا کی الیون کے مقابل اترے گی، اسے بولنگ میں اش سوڈھی، کائل جیمیسن، بین سیئرز اور وِل اورورک جیسے چہرے دستیاب ہوں گے جو بڑے ناموں کی غیر موجودگی کے باوجود ان نوآموز پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک تگڑا امتحان ہوں گے۔

بطور قائد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں سلمان آغا نے جارحانہ اور بے خوف کرکٹ کھیلنے کا عزم کیا تھا۔ منطقی اعتبار سے یہ عزم حقیقت پسندانہ بھی ہے کہ اس کے سوا اب پاکستان کے لیے اور کوئی راہ بھی نہیں کہ جس سے وہ اپنا اکلوتا کھیل بچا سکے۔

salman agha
Getty Images

لیکن دوسرا رخ اس کا یہ بھی ہے کہ جب کبھی ایسی جرات مندی اپنائی جاتی ہے تو پہلے ہی ہلے میں اس کی کامیابی یقینی نہیں ہوتی۔

پاکستانی کلچر میں کسی بھی نئی اپروچ کی عملیت پسندی اور نتیجہ خیزی کا قیاس ویسے بھی ناممکن ہے کہ یہاں فیصلوں کو بدلتی ہواؤں کے رخ پر پلٹتے دیر نہیں لگتی۔

کھیل شماریات کی بنیاد پر چلتے ہیں جہاں روزانہ کامیابی تو کسی کے بھی حصے نہیں آ سکتی مگر مبصرین کی سکرینیں فقط ریٹنگ میٹرز کی بنیاد پر چلتی ہیں اور ان کی ’جیت‘ بھی بدقسمتی سے پاکستان کی ناکامی میں ہی رہتی ہے کہ تبھی ان کے جذبات کھلاڑیوں کے ہنر سے زیادہ بِک سکتے ہیں۔

سلمان آغا کا تیسرا بڑا چیلنج اس بے یقینی سے نمٹنا ہے جو ان سے پہلے ایک ہی سال میں تین ٹی ٹوئنٹی کپتان کھا چکی اور اگر نتائج سازگار نہ رہے تو ان کی گردنماپنے سے بھی کوئی گریز نہ برتے گی۔

اپنی ہوم کنڈیشنز میں کیویز ہمیشہ فیورٹ ہی رہتے ہیں بھلے ان کی اولین ٹیم ساری کی ساری ہی دستیاب نہ ہو جبکہ یہاں تو پاکستان بھی بیشتر نوآموز چہروں پہ مشتمل ہو گا۔

ایسے میں سلمان آغا کا ہدف صرف میچ جیتنا ہی نہیں، اپنی ٹیم کو جیتنا بھی ہو گا اور یہ تبھی ممکن ہو پائے اگر وہ شاہین آفریدی کو سنبھال پائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.