پاکستان میں وفاقی حکومت نے نئی سولر پالیسی کے تحت پیدا ہونے والی بجلی کی قیمتوں میں کمی کی ہے اور اب صارفین دس روپے یونٹ کے حساب سے سرکار کو بجلی فروخت کر سکیں گے۔تاہم یہ حکومتی سولر پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اس سے منسلک دوسرے پہلوؤں سے بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ایسے افراد کی فہرست مرتب کرنا شروع کر دی ہے جو معاہدے سے زائد پینل لگا کر زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی صارف نے دس کلو واٹ کا سسٹم لگانے کا معاہدہ کر کے گرین میٹر لگوایا ہے تو وہ اس سے زائد بجلی پیدا نہیں کر سکتا۔
نئی پالیسی کے تحت ایسے افراد کو پابند کرنے کے لیے کہ وہ سولر سے اتنی ہی بجلی پیدا کریں جتنی کی منظوری انہوں نے لے رکھی ہے، باقاعدہ طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔ جہاں تمام گرین میٹرز کی جانچ علیحدہ سے ٹیمیں کریں گی۔
اس صورت حال کے باعث مارکیٹ میں سولر سسٹمز کی قیمتیں میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ اب لوگوں کو لگ رہا ہے کہ شاید سولر سے بجلی پیدا کرنا کوئی زیادہ منافع بخش نہیں رہا۔ گذشتہ ایک ہفتے سے مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمت میں دو روپے فی واٹ کے حساب سے کمی واقع ہوئی ہے۔پانچ کلو واٹ کے سسٹم کی مارکیٹ میں قیمت 5لاکھ پچاس ہزار روپے پر آ گئی ہے۔ جبکہ آن گریڈ سسٹم پر سات کلوواٹ کا سسٹم 6 لاکھ پچیس ہزار روپے ہو گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پانچ سے پندرہ کلو واٹ کے سسٹمز پر پینتیس ہزار سے ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔محمد اجمل لاہور کے شہری ہیں اور انہوں نے حال ہی میں دس کلو واٹ کا سولر سسٹم گھر لگوایا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایک سال کی بچت کی تھی کہ اس سال گرمیوں میں بجلی کے بلوں سے جان چھڑاؤں گا لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے سولر سے فائدہ اٹھانا مشکل بنا دیا ہے۔ بندہ اتنے پیسے بھی لگائے اور پھر بھی بجلی کے بل میں کوئی واضح فرق نہ ملے تو کیا فائدہ۔ ہمیں تو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت اب چاہتی کیا ہے۔ لوگ سولر لگائیں یا نہ لگائیں۔‘
نئی پالیسی کے تحت ایسے افراد کو پابند کیا جائے گا کہ وہ سولر سے اتنی ہی بجلی پیدا کریں جتنی کی منظوری انہوں نے لے رکھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کچھ یہ فکر اب عائشہ علی کو بھی درپیش ہیں انہوں نے بتایا کہ ’میں نے دو سال کی بچت کر کے سولر لگوایا ہے۔ اور میں دو بچوں کو پال رہی ہوں جبکہ میرے شوہر نہیں ہیں۔ ایک تو انہوں نے فی یونٹ قیمت اتنی کم کر دی ہے۔ اب اوپر سے سن رہے ہیں کہ اور سختیاں بھی ہوں گی۔ اس سب سے تو یہی تاثر مل رہا ہے کہ پہلے لوگوں کو خود اس طرف لگایا گیا ہے اور اب حکومت چاہ رہی ہے کہ جن لوگوں نے سولر لگوا لیے وہ ٹھیک اب مزید نہ لگوائیں۔‘
پنجاب کی سب سے بڑی بجلی کی تقسیم کار کمپنی لیسکو نے ان افراد کی فہرستیں تیار کی ہیں جو معاہدے سے زیادہ بجلی بنا کر رہے ہیں۔ ایک افسر نے بتایا کہ سولر کی بجلی کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ لوگ غیر قانونی طور پر زیادہ پینل لگائیں گے۔ ترجمان لیسکو محمد مسعود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جن لوگوں نے بھی گرین میٹرز لگوائے ہیں وہ اس معاہدے کے پابند ہیں کہ وہ اتنی ہی بجلی پیدا کریں۔ کیونکہ اسی حساب سے ان سے فیس لی گئی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ٹیکس تو کم بجلی کے حوالے سے دیں اور پیدوار زیادہ کریں۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ایسے صارفین پر بوجھ زیادہ ہے جو سولر پر منتقل نہیں ہوئے۔ کیونکہ بجلی کے کیپسٹی چارجز کی مد میں پیسے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس ساری صورت حال کو بیلینس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سولر صارفین ابھی بھی فائدے میں ہیں۔ ان کا بجلی کا بل دوسرے صارفین سے ابھی بھی کم ہی ہے۔‘