عالمی سطح پر گاڑیوں میں حفاظتی معیار کے حوالے سے ڈبلیو پی 29 (عالمی سطح پر رائج گاڑیوں کا حفاظتی معیار) کے تحت 160 ایسے حفاظتی ضوابط مقرر کیے گئے ہیں جن کو مخلتف گاڑیوں کی تیاری کے دوران مدِنظر رکھا جاتا ہے۔تاہم دنیا کے مختلف ممالک ان 160 میں سے نصف یا اُس سے قدرے زیادہ فیچرز عمل در آمد کرتے ہیں مثال کے طور پر اس وقت جاپان میں بننے والی گاڑیوں میں 60 سیفٹی فیچرز پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان میں زیادہ استعمال ہونے والی کچھ گاڑیوں کے حادثات کا شکار ہونے کی ویڈیوز منظرعام پر آئی ہیں جن میں گاڑیوں کی حالت انتہائی خراب دکھائی دے رہی ہے جو پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے حفاظتی معیار پر سوال اٹھاتی ہے۔
کیا دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی استعمال ہونے والی گاڑیوں میں حفاظتی معیار کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس تناظر میں حکومتی پالیسی کیا ہے اور کیا اس پر مینیوفیکچرنگ کمپنیاں عمل پیرا ہوں؟
اُردو نیوز نے اس بارے میں گاڑیوں کے شعبے کے نگران ادارے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجر اور پالیسی ڈویلپمنٹ انجینیئر عاصم ایاز سے بات کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کو آٹو پالیسی میں موجود سیفٹی پروٹوکول پر پورا اُترنے کے بعد ہی لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔‘عاصم ایاز کے مطابق ’اس وقت پاکستان میں گاڑیوں میں حفاظتی معیار کے حوالے سے 17 مختلف ضوابط مقرر کیے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کے بغیر گاڑی تیار نہیں کی جا سکتی۔‘انہوں نے کہا کہ ’ان میں گاڑیوں کی بریکس، ایئر بیگز، لائٹس، ونڈ سکرین اور مررز وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ گاڑیوں کی باڈی (سٹیل) کا بھی ایک معیار کے مطابق ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔‘
انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجر عاصم ایاز کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو سیفٹی پروٹوکول پر پورا اُترنے کے بعد لائسنس جاری کیا جاتا ہے (فوٹو: سوزوکی پاک)
عاصم ایاز کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی موجودہ آٹو پالیسی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری لائی گئی ہے اور اب جو گاڑیاں ان معیارات پر پورا نہیں اُترتیں اُن کو مینوفیکچر یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان میں زیادہ استعمال ہونے والی گاڑیاں سوزوکی مہران اور بولان وغیرہ کی پروڈکشن رکنے کی وجہ اُن کا سیفٹی سٹینڈرڈز پر پورا نہ اترنا تھا۔‘ان کے بقول ’انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ پاکستان میں گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔‘دوسری جانب آٹو موبائل کے شعبے کے ماہر اور آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین میاں شعیب اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں حفاظتی معیار پر پورا اُترتی ہیں۔اُنہوں اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں نگران سرکاری اداروں کے ساتھ اپنے معاملات طے کر کے عوام کو مہنگی اور ناکارہ گاڑیاں فروخت کرتی ہیں۔‘
آٹو موبائل کے شعبے کے ماہرین پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کے حوالے سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے (فوٹو: فری پک)
میاں شعیب کے مطابق ’گاڑیوں کے معیار کو بہتر کرنے کے ذمہ دار سرکاری ادارے صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں اور اس تناظر میں عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ترجیحات صرف یہ ہیں کہ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی ملک میں آ جائے اور اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ عوام کو کیا بیچ رہے ہیں۔‘آٹو موبائل صنعت سے وابستہ پاک ویلز نامی ویب سائٹ کے چیئرمین سنیل منج کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈبلیو پی 29 (عالمی سطح پر رائج گاڑیوں کا حفاظتی معیار)کے مطابق ہی گاڑیاں تیار کی جا رہی ہیں۔اُن کے مطابق ’اس معیار پر پورا نہ اترنے والی گاڑیاں مارکیٹ میں نہیں آ سکتیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی ہر گاڑی میں اب ایئر بیگ اور معیاری بریک سسٹم نظر آئے گا۔‘سنیل منج نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کسی ایک واقعے کو جواز بنا کر ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے حالانکہ اگر آپ کسی گاڑی کو بھی ضوابط کے خلاف چلائیں گے تو حادثے کی صورت میں اُس کی حالت خراب ہو گی۔
اُنہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں روڈ وائلینس کا ختم ہونا بھی ضروری ہے۔ شہریوں کو جب تک گاڑی چلانے کا صحیح طریقہ نہیں آئے گا، سڑک حادثات پیش آتے رہیں گے۔‘