بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے مارے گئے افراد کی لاشوں کی شناخت کی اجازت نہ دینے اور تنظیم کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔احتجاج کے پیش نظر حکومت نے شہر میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی جبکہ شہر میں مختلف مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔پولیس نے گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف جانے والے راستوں پر کنٹینرز لگا کر انہیں بند کر دیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردوں کی لاشوں کو گلوریفائی کرنے (عزت و عظمت دینے )کی اجازت نہیں دیں گے، جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کی لاشیں پہاڑوں میں چھوڑ دیتے تو لاپتا افراد کی فہرست میں اضافہ ہو جاتا۔‘کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے تصدیق کی کہ کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں سخت سکیورٹی حصار میں دفنائی گئی لاشیں ان افراد کی ہیں جو مسافر ٹرین پر حملے میں ملوث تھے۔اس سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ کوئٹہ میں خفیہ طور پر دفنائی گئی 13 افراد کی لاشیں لاپتا افراد کی ہو سکتی ہیں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق لاپتا افراد کے لواحقین قبرستان جا کر لاشوں کو نکال کر ان کی شناخت کرنا چاہتے تھے تاہم پولیس نے انہیں روک دیا۔
مظاہرین نے سریاب روڈ سے ریلی نکالی اور سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کیا (فائل فوٹو: بی وائے سی)
اس معاملے پر آج بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی بحث ہوئی۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حزب اختلاف کے ارکان نے کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں 13 افراد کو شناخت کے بغیر دفن کرنے اور لواحقین کو شناخت کی اجازت نہ دینے پر تشویش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے رویے سے صوبے میں مزید اشتعال پھیلے گا اور حالات خراب ہوں گے۔ انہوں نے لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ روز جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے میں ملوث مبینہ خودکش حملہ آوروں کی لاشیں ان کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکن سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے کا دروازہ توڑ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر چھاپے مار کر کئی لاشیں واپس لے لیں تاہم دو خودکش حملہ آوروں کو ان کے آبائی علاقے مستونگ میں دفنا دیا گیا۔کوئٹہ کے سول لائن پولیس تھانے کے عملے نے تصدیق کی ہے کہ سول ہسپتال کی انتظامیہ نے ہسپتال کے مردہ خانے کے تالے، دروازے توڑنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کچھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست جمع کرائی ہے۔پولیس نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ اور لاشیں زبردستی لے جانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ روز کے احتجاج کے بعد سی ٹی ڈی اور دیگر سکیورٹی فورسز نے شہر میں مختلف مقامات پر چھاپے مار کر بی وائی سی کے مرکزی کمیٹی کے رکن دونوں پاؤں سے معذور بیبرگ بلوچ اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔تنظیم کے رہنماؤں کی گرفتاری اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے افراد کی لاشوں کی شناخت کی اجازت نہ دینے پر جمعرات کو کوئٹہ میں لاپتا افراد کے لواحقین ا ور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔مظاہرین نے سریاب روڈ سے ریلی نکالی اور سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کیا۔
ماہ رنگ بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے بی وائی سی کے مرکزی کمیٹی کے رکن دونوں پاؤں سے معذور بیبرگ بلوچ اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیا ہے (فائل فوٹو: بی وائی سی)
دوسری جانب وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد مشکاف کے قریب آپریشن کیا گیا جس میں کئی سخت گیر دہشت گرد مارے گئے۔
وزیراعلیٰ نے وضاحت کی کہ جن لاشوں کی شناخت ہو رہی ہے، انہیں قانونی طریقے سے ورثاء کے حوالے کیا جا رہا ہے اور جن کی شناخت نہیں ہوئی، انہیں ڈی این اے نمونے لے کر فلاحی تنظیم کے ذریعے امانتاً دفنایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہر قبر پر تختی اور شناختی نمبر موجود ہے تاکہ بعد میں ڈی این اے میچ ہونے پر ورثاء انہیں پہچان سکیں۔ اس کے بعد ورثاء کی مرضی ہو گی کہ وہ لاشوں کو وہیں چھوڑتے ہیں یا نکال کر کہیں اور دفناتے ہیں۔اس میں حکومت کی کوئی بدنیتی شامل نہیں۔‘وزیراعلیٰ ٰ کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس دو راستے تھے یا تو لاشوں کو وہیں چھوڑ دیتی یا انہیں واپس لا کر قانونی تقاضے پورے کیے جاتے اور پتا چلایا جاتا کہ یہ کون لوگ تھے جو ریاست پاکستان سے لڑ رہے تھے۔‘
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے وضاحت کی کہ جن لاشوں کی شناخت ہو رہی ہے، انہیں قانونی طریقے سے ورثاء کے حوالے کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: بی وائی سی)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم لاشوں کو وہیں پہاڑوں میں چھوڑ دیتے تو لاپتا افراد کی فہرست میں مزید اضافہ ہو جانا تھا، پھر ہم کہاں سے ثابت کرتے کہ یہ لوگ تو مارے گئے ہیں۔‘
سرفراز بگٹی کے بقول ’جو لوگ آج ریاست پاکستان سے لڑ رہے ہیں، اگر ان کی لاشیں نہ لائیں تب بھی مسئلہ اور اگر لائیں تو تب بھی مسئلہ ہوتا ہے۔‘سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’لاشوں کی شناخت اور حوالگی کے لیے قانونی طریقہ کار موجود ہے لیکن سخت گیر دہشت گردوں کی لاشوں کو گلوریفائی کرنے کی اجازت ریاست پاکستان کا آئین اور قانون نہیں دیتا۔ ہم آئندہ بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘