"میں نے مصطفیٰ عامر کو قتل نہیں کیا، یہودی لابی اور موساد مجھے پھنسانا چاہتی ہیں۔ مصطفیٰ کی والدہ بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔ پولیس نے مجھ پر کالا جادو کروا دیا ہے، جس کی وجہ سے میرے جسم میں شدید تکلیف رہتی ہے۔ میں نے مصطفیٰ کو گاڑی میں چھوڑا تھا، صرف گاڑی کے اگلے حصے کو آگ لگائی تھی، قتل میرا ارادہ نہیں تھا، سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوا۔ اگر اللہ چاہتے تو مصطفیٰ کو بچا لیتے۔"
مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ڈرامائی موڑ، مرکزی ملزم کے حیران کن دعوے!
کراچی کی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت اُس وقت سنسنی خیز بن گئی جب مرکزی ملزم ارمغان نے بیان بدلتے ہوئے حیران کن الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلے اعتراف جرم پر آمادگی، پھر مکمل یوٹرن، اور سازشی نظریات کی گونج نے کمرہ عدالت کو ایک معمہ بنا دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں جب ارمغان کو دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیش کیا گیا تو سب کو توقع تھی کہ وہ اعتراف جرم کرے گا، مگر صورتحال اچانک پلٹ گئی۔ ملزم نے نہ صرف قتل سے انکار کیا بلکہ دعویٰ کر دیا کہ یہ سب ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے، جہاں موساد، یہودی لابی اور یہاں تک کہ مقتول کی والدہ بھی اس گیم میں شامل ہیں۔
عدالت نے ملزم کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا 164 کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست مسترد کر دی اور واضح کر دیا کہ "چاہے اعتراف کرو یا نہیں، تمہیں جیل جانا ہی ہوگا!" مگر ارمغان نے اس موقع کو مزید سنسنی خیز بنا دیا۔
"میرے خلاف سازش ہو رہی ہے، سیاسی جماعتیں بھی یہودی لابی کے کنٹرول میں ہیں، مجھے خاموش کرانے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ مصطفیٰ کے نصیب میں مرنا لکھا تھا، میں اس میں تھوڑا سا شریک تھا۔"
یہ بیانات سن کر عدالت میں موجود افراد ششدر رہ گئے۔ تفتیشی افسران نے انکشاف کیا کہ ارمغان کے خلاف مزید تین مقدمات بھی درج ہیں، جس پر عدالت نے باقی مقدمات میں اس کا جسمانی ریمانڈ برقرار رکھا، جبکہ قتل کیس میں اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
جج نے سوال اٹھایا کہ کیا ملزم کا میڈیکل کرایا گیا؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ 20 مارچ کو معائنہ مکمل ہو چکا ہے اور رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ جج نے حیرت سے استفسار کیا کہ ملزم نے تو خود اعتراف جرم کی خواہش ظاہر کی تھی، پھر اب یہ سب کیوں؟
"میں بیان دینا چاہتا تھا، مگر جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہہ دیا کہ میری ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں۔ اب بھی مجھے کچھ اثرات محسوس ہو رہے ہیں، اینٹی وائلنٹ سیل تھانے میں کچھ نہ کچھ چل رہا ہے!"