پیکا قانون کی دو دھاری تلوار کے سائے میں سہمے پاکستانی: ’پیکا کالعدم نہ کیا گیا تو جمہوریت اور جمہوری رویوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی‘

پیکا ترمیمی بل 2025 پر نا صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن لگانا۔ان سب کے تناظر میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا پیکا ڈیجیٹل آمریت کا پیش خیمہ بن گیا ہے؟
پیکا ایکٹ
Getty Images

پاکستان میں کمپیوٹرز اور سمارٹ فونز کی سکرینوں کی ٹمٹماتی روشنی اور سوشل میڈیا فیڈز کے سکرول میں ایک خاموش جنگ لڑی جا رہی ہے۔

یہ گولیوں اور بموں کا میدان جنگ نہیں ہے بلکہ الفاظ، خیالات اور اختلاف رائے کا تصادم ہے اور ان کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ایک دو دھاری تلوار بن کر ابھرا ہے۔

اس قانون کا مقصد تو سائبر جرائم کی روک تھام تھا مگر حالیہ کارروائیوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اس کا استعمال تنقیدی آوازوں کو دبانے اور اختلاف رائے کو خاموش کروانے کے لیے ہو رہا ہے۔

فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک ہو یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس اور انسٹا گرام، ’قانون کی نظر‘ سب پر ہے۔ حال ہی میں جب راولپنڈی میں ایک شہری نے ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں اس نے ٹریفک پولیس پر الزامات لگائے تو پولیس نے فوری طور پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ شہری کی ویڈیو کا مقصد عوام میں پولیس کے خلاف نفرت پھیلانا تھا۔

اس سے قبل صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں جب ایک عام شہری نے رمضان کے چاند کے اعلان میں تاخیر کرنے پر علما پر تنقید کی تو اسے مذہبی حساسیت کے خلاف سمجھا گیا اور ان کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔

عام آدمی تو ایک جانب اس قانون کی گرفت سے سابق رکن اسمبلی اور صحافی بھی محفوظ نہیں رہے۔

رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو بھی پیکا ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنے ہے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے پولیس پر دھاوا بولا، حکومت اور عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن سے افراتفری پھیلی۔

صحافیوں کی بات کی جائے تو پہلے کراچی میں فرحان ملک اور پھر اسلام آباد میں وحید مراد کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فرحان ملک اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ وحید مراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور صدر کی منظوری سے قانون بننے والے پیکا ترمیمی بل 2025 پر نا صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن لگانا۔

ان تمام مثالوں کی روشنی میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا پیکا ایک ڈیجیٹل آمریت کا پیش خیمہ بن گیا ہے؟

پیکا
Getty Images

خیال کیا جارہا تھا کہ ایف آئی اے اس قانون کی پیروی کرے گی لیکن اس قانون کا استعمال پولیس کی جانب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صحافی تحریکوں، انسانی حقوق پر کتابوں کے مصنف ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’پولیس سے لے کر ایف آئی اے تک تمام ایجنسیاں کارروائی کے دائرہ کار میں آ گئی ہیں۔ کہا تو یہ گیا تھا کہ ان مقدمات میں ایف آئی اے کی جو نئی ایجنسی بن رہی تھی وہ کارروائی کرے گی لیکن یہ تو عام تھانے بھی کارروائی کر رہے ہیں، اس کا دائرہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔‘

پاکستان میں صحافیوں کے علاوہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی ایک بڑی کھیپ پیدا ہوئی ہے جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر کھل کر اظہار رائے کرتے ہیں، اس میں بعض اوقات پاکستان کے عسکری، سولین اور سیاسی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی نامور کارکن نگہت داد کہتی ہیں کہ ’وہ ریاست جو ایک جمہوری ریاست کا دعویٰ کرے اور اس کی عوام اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ڈرے بالخصوص حکومتی پالیسیوں، کرپشن اور دیگر مسائل پر بات کرنے سے عوام ڈرنا شروع ہو جائے تو پھر وہ جمہوریت جمہوریت نہیں ہوتی۔‘

’اب سیلف سینسرشپ کا رجحان بھی بڑھے گا، لوگ سوچیں گے کہ کون سی ایسی بات کریں جو پیکا کی زد میں نہ آئے۔‘

وہ کہتی ہیں ’جھوٹی خبر اور گمراہ کن خبر کی وسیع تعریف میں لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیں گے تو لوگ بات کرنے سے بھی گھبرائیں گے۔ اگر آپ ڈر کے بیٹھ گئے تو حکمرانوں کے احتساب کا عمل نہیں ہو پائے گا اور انھیں کھلی چھوٹ ہو گی۔‘

پیکا قوانین
Getty Images

پیکا قانون سے ستائے صحافی

اردو نیوز سے وابستہ صحافی وحید مراد کو اسلام آباد میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ان کے خلاف پیکا کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل کی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر بیان کو ری ٹویٹ کیا ہے۔

وحید مراد کی ساس، عابدہ نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس کے مطابق، مراد کو ان کے گھر سے ’نامعلوم اہلکاروں نے زبردستی غائب‘ کر دیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عابدہ زبردستی غائب کرنے کی عینی شاہد ہیں اور خود اغوا کاروں کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار ہوئیں۔ وحید مراد اب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔

اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل کراچی میں یو ٹیوب چینل رفتار کے مالک فرحان ملک کو ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ریاست مخالف ویڈیوز پوسٹ کرنے کی مہم چلانے، جعلی خبروں اور عوامی اشتعال انگیزی کے ایجنڈے پر مشتمل ریاست مخالف مواد سے متعلق پوسٹس اور ویڈیوز تیار کرنے اور پھیلانے میں ملوث ہیں۔

عدالت نے فرحان ملک کو جیل کسٹڈی میں دینے کا حکم جاری کیا تاہم ایف آئی اے نے انھیں ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا اور اس بار ان پر غیر قانونی کال سینٹر چلانے کا الزام عائد کیا۔

ان دونوں واقعات سے قبل اسلام آباد میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے جعفر ایکسپریس حملے کے بارے میں مبینہ طور پر جعلی خبریں پھیلانے پر صحافی احمد نورانی، وکیل شفیق احمد اور سوشل میڈیا کارکن آئنہ درخانی سمیت تین افراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ان کا شروع سے یہ خیال تھا کہ یہ ایکٹ ’نہ صرف صحافیوں بلکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے بھی ہے، جس کو بھی چاہیں گے اسے ٹارگٹ کر لیں گے۔‘

مظہر عباس نے صحافتی تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’ایسا لگا رہا ہے جیسے ہم نے اس قانون کو قبول کر لیا ہے، اس سے بڑا صحافت کا المیہ نہیں ہو سکتا۔‘

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر ارشاد عارف بھی حالیہ واقعات کو لے کر تشویں میں ہیں۔

ان کے مطابق ’ہمیں یہ ہی خوف تھا کہ پیکا ایکٹ صحافیوں کے خلاف استعمال ہو گا کیونکہ اس کے مقاصد پہلے دن سے واضح تھے۔‘

سنہ 2016 میں بغیر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے منظور ہونے والا یہ قانون، اب شہباز شریف کی حکومت کے دور میں بھی متنازعہ ترامیم کے ساتھ موجود ہے۔

ارشاد عارف کے مطابق ’حکومت کے وعدوں کے باوجود، پیکا ایکٹ صحافیوں، مخالف آوازوں اور آزادی اظہار کو دبانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے حالانکہ شہباز شریف نے بطور اپوزیشن رہنما یہ ایکٹ ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔‘

PA Media
PA Media

’سوشل میڈیا کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا‘

صدر آصف علی زرداری نے رواں سال 29 جنوری کو پیکا ترمیمی بل پر دستخط کیے تھے جس کے خلاف صحافیوں نے یوم سیاہ منایا تھا، ترمیمی قانون کے نفاذ کے بعد اس ایکٹ کے تحت مقدمات میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ ’صحافیوں کو اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے یہ جمہوریت کا حسن ہے اگر تنقید بھی ہو اس کو اصلاح کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔‘

’ملک میں اور ملک کے باہر پاکستان کے خلاف پراپیگینڈہ فیکٹریز کام کر رہی ہیں کسی بھی حکومت کے لیے ان کو ہینڈل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن قوانین بنا دیے جائیں، ریگولیٹ کیا جائے تو اس میں بہتری آ سکتی ہے تاہم اس قانون کا ناجائز استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہم کہتے ہیں حقائق رپورٹ ہوں پراپگینڈہ نہیں۔‘

شازیہ مری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ پیکا ایکٹ کا استعمال درست سمت میں ہو رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’غلطی ہو رہی ہو گی ایف آئی اے یا کوئی ادارہ کر رہا ہو گا۔ کسی کو تکلیف یا اذیت نہیں پہنچانی چاہیے۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ جو قانون پر عمل درآمد کرنے والے ہیں انھیں بھی جوابدہ سمجھنا چاہیے جن کو قانون کا سامنا ہے انھیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پیکا ترمیم پر پیپلز پارٹی کی یہ بات ہوئی تھی کہ اس میں سیف گارڈز کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ اس سے انسانی حقوق متاثر نہ ہوں اور بے گناہ لوگ نہ پھنسیں، ہم نے بہت ساری تجاویز پیش کیں اور پروٹیکشن کو یقینی بنایا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’معاشرہ ڈس انفارمیشن اور پراپیگینڈہ کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں کسی کو بھی احتساب سے بری الذمہ نہیں ہونا چاہیے اور چیک اینڈ بیلنس رکھنا ضروری ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی فیک نیوز کی متاثرہ ہیں۔ ایک نام نہاد صحافی نے سوشل میڈیا پر خبر دی کہ ان کے گھر سے 97 ارب ڈالر برآمد ہوئے ہیں اس وقت وہ فیملی کے ساتھ کھانے کی دعوت پر تھیں اس پراپیگینڈہ نے انھیں اذیت پہنچائی۔

AFP
AFP

پیکا ترمیمی بل 2025 کیا ہے؟

رواں برس 22 جنوری کو حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر اس قانون میں کچھ ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی جنھیں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کروائے جانے اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد پیکا قانون بنا دیا گیا۔

حکومت نے نئے ترمیم شدہ قانون کو پیکا ترمیمی بل 2025 کا نام دیا ہے۔

صدرِ پاکستان کی منظوری کے بعد قانون بننے والے پیکا قانون کو 'دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025' کا نام دیا گیا ہے جس میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

قانون میں 'سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی'قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔

اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں 'سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی' کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ اس اتھارٹی میں کل نو ممبران ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔

اس مجوزہ اتھارٹی سے متعلق مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سال کی مدت کے لیے کی جائے گی اور اتھارٹی کے چیئرمین سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔

اس قانون کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جا سکے گا۔

یہ اتھارٹی 'نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔'

اس قانون کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی جبکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔ اس قانون کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔

اس قانون کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔

اس قانون میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی جس کے سربراہ کا تعیناتی تین سال کے عرصے کے لیے ہو گی۔

نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔

اس قانون پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی جس کا چیئرمین ہائیکورٹ کا سابق جج ہو گا۔ قانون کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔

پاکستان کی صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے نئے پیکا قوانین کو متنازع قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔

پی ایف یو جے، پی بی اے، سی پی ا ین ای و دیگر صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا کہ 'اس قانون کا محور صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اس کا ہدف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی ہیں اور اس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔'

’یہ قانون بنیادی حقوق اور آزادی صحافت کے خلاف ہے‘

پیکا قانون کے خلاف مقدمے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور صحافی حامد میر کے وکیل عمران شفیق نے بی بی سی کے اعظم خان کو اپنے تحفظات سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’پیکا ترمیمی بل 2025 بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ متنازع ترامیم کے ذریعے حق آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، میڈیا کی آزادی اور بالخصوص عوام تک معلومات تک رسائی کے حق کو ناممکن العمل بنایا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق قانون میں ’ایسی بے جا ترامیم کی گئیں ہیں کہ جن کے باعث حکومت کسی بھی خبر کو جھوٹا قرار دے کر صحافیوں کو ناقابل ضمانت جرم کے ارتکاب کے الزام میں فوری طور پر گرفتار کر سکتی ہے۔‘

وکیل عمران شفیق کے مطابق ’قانون میں کوئی ایسا ضابطہ متعین نہیں کیا گیا جس کی رو سے اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی کونسی خبر سچی ہے یا جھوٹی؟ محض انتظامیہ کی صوابدید اور اختیارات ہی کسی خبر یا انفارمیشن کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تعین کریں گے۔‘

وکیل عمران شفیق اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پیکا قانون کے تحت بنائے جانے والے تینوں ادارے یعنی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، کونسل اور ٹریبیونل مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوں گے، اور یہ امر یقینی ہے کہ ایسے جانبدار اور حکومت کے ماتحت قائم کسی اتھارٹی، کونسل یا ٹریبیونل سے انصاف اور شفافیت کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ‘

ان کے مطابق اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ بغیر کسی نوٹس اور بغیر کسی سماعت کے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی چینل یا اکاؤنٹ کو یک طرفہ کارروائی کے ذریعے بلاک کر سکے۔

AFP
AFP

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

پیکا ترمیمی بل 2025 پر ہونے والی تنقید اور حکومتی اداروں کی جانب سے اس قانون کے استعمال پر اٹھنے والے اعتراضات پر حکومتی جماعت کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہوا اور ایسی مثالیں سامنے آئیں تو پھر یقینا حکومت اس پر دوبارہ غور کرے گی، اس میں ترمیم کرے گی اور اس قانون کو مزید بہتر کرے گی۔ تاہم حکومت نے اس حوالے سے کچھ ریڈ لائن اور گائیڈ لائن کا تعین بھی کرنا ہے تاکہ توازن قائم رہے۔

خرم دستگیر کے مطابق ’اس وقت بڑا چیلنج آزادی اظہار اور آزادی شتر بے مہار میں توازن کا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر ملکی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی ہو رہی ہے اور نفرت انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے جس کا تدارک بھی ضروری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا آئین بھی جہاں آزادی اظہار رائے دیتا ہے وہیں کچھ حدود و قیود کا تعین بھی کیا گیا ہے کہ کیسے آپ نے خارجہ پالیسی، فوج اور عدلیہ سمیت اہم امور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔

صحافیوں کے خلاف اقدامات سے متعلق سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ ’صحافی بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ری ٹویٹ والی مشین نہ بنیں بلکہ وہ کوئی مواد شئیر کرنے سے قبل حقائق کی خوب چھان بین کر لیں۔‘

پاکستان کی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے صحافیوں اور عام شہریوں کے خلاف پیکا قانون کے مبینہ غلط استعمال پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے 26 مارچ کو پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں اس وقت ایک تلخ ماحول بن چکا ہے اور گذشتہ تین چار برسوں سے سوشل میڈیا نے اس میں بہت کردار ادا کیا ہے۔‘

پروگرام میں پیکا قوانین کے مبینہ غلط استعمال پر حکومت کو پہنچے والے سیاسی نقصان کے سوال پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو اس قانون کے غلط استعمال کی بلکل پرواہ ہونی چاہیے، حکومت کو اپنے نفع نقصان کی پرواہ بھی ہونی چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مگر کیا جو حالات آج ہیں اس سے پہلے ایسے حالات کبھی ہوئے تھے۔ سیاسی مخالفین کی عزت سانجھی ہونی چاہیے لیکن آج سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی بہن بیٹیوں کو سوشل میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں۔'

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’اس قسم کا عمل کس قسم کے ردعمل کو جنم دے گا، سوشل میڈیا پر ملک سے باہر اور اندر موجود چند صحافی اور نام نہاد صحافی اس قسم کے تبصروں کو ری ٹویٹ کر دیتے ہیں یا ذو معنی قسم کا تبصرہ کرتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاسی مخالفت میں ایسی کسی بات کی کم از کم مذمت نہیں کرتے۔ یہ صحافت نہیں ہے اور اگر کوئی اس قسم کی صحافت پر حملہ قرار دے تو میں اس سے متفق نہیں ہوں۔‘

تاہم اس سے قبل خواجہ آصف نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جو سلسلے ہیں کہیں سیاستدان تو کہیں صحافی حدود کراس کر جاتے ہیں اور ہمارے حالات سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے اور صحافی برادری کوئی اس سے آئسولیٹ یعنی لاتعلق تو نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.