پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ کی جانب احتجاجی لانگ مارچ کرنے والی جماعت بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی نظربندی کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد صورتحال کشیدہ ہے اور ضلع خصدار کے علاقے وڈھ میں سڑکیں بلاک کر دی گئی ہیں۔سینچر کو حکومت کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ ’سردار اختر مینگل کو صبح چھ بجے انتظامیہ نے ایم پی او کے آرڈرز سے آگاہ کر دیا تھا مگر انہوں نے گرفتاری دینے سے انکار کیا۔ انتظامیہ اور پولیس نے انہیں واضح بتایا کہ اگر وہ کوئٹہ کی طرف بڑھے تو گرفتاری ہوگی۔‘ادھر سردار اختر مینگل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم اس وقت لکپاس پر موجود ہیں، چاروں طرف سے سکیورٹی فورسز نے مکمل گھیرے میں لے رکھا ہے۔ میں احتجاج کے طور پر تمام اضلاع کی قومی شاہراہوں کو بند کرنے کی کال دیتا ہوں۔ تاکہ دنیا کو اس ناانصافی کے بارے میں معلوم ہو سکے۔ ہم پُرامن ہیں لیکن پُرعزم ہیں۔ اگر اس کے بعد کچھ بھی ہوا، خون بہا، نتائج نکلے، نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری صرف حکومتی اور مقامی انتظامیہ کے کندھوں پر ہوگی۔‘بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے سردار اختر مینگل کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ ’سنہ 2018 کی بینیفشری جماعتوں میں ایک قدر مشترک ہے بیانیہ گھڑنا، اس لیے دونوں یہی کام کر رہی ہیں۔‘صوبائی حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ لکپاس پر قانون نافذ کرنے والے محکموں کے اہلکار اختر مینگل کی گرفتاری کے لیے موجود ہیں۔ ’اس وقت بی این پی کی جانب سے قومی شاہراہوں کی بندش کی کال دینا شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ تمام اضلاع کی انتظامیہ کو واضح ہدایت ہے کہ قومی شاہراہیں بند نہیں ہوں گی۔‘بی این پی کا کل بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق لکپاس پر پولیس اہلکار اختر مینگل کی گرفتاری کے لیے موجود ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سابق رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان سونا خان کے مقام پر پولیس نے لانگ مارچ کے شرکا کے استقبال کے لیے کھڑے بی این پی کے کارکنوں پر تشدد کیا۔ ’آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج سے متعدد کارکن زخمی ہو گئے۔‘
انہوں نے دعوی کیا کہ پولیس نے بی این پی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا ہے۔
آغا حسن بلوچ نے کہا کہ کہ حکومتی ظلم و جبر کے خلاف پیر کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی ان کا کہنا تھا کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی کی ہے۔
کوئٹہ سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق مستونگ میں لکپاس کے قریب جاری بی این پی کے دھرنے کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اور لانگ مارچ کو کوئٹہ کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہے۔’پولیس کی بھاری نفری نے برمہ ہوٹل کے قریب ایک گھر کو محاصرے میں لے لیا ہے جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کا اجلاس جاری تھا۔‘مقامی رہنماؤں کے مطابق گھر میں سابق گورنر عبدالولی کاکڑ، سابق ارکان اسمبلی ملک نصیر شاہوانی، احمد نواز، پارٹی رہنما موسیٰ جان بلوچ، غلام نبی مری، طاہر شاہوانی ایڈووکیٹ اور دیگر قیادت موجود ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف اور اُن کے رہائی کے لیے 28 مارچ کو ضلع خضدار کے علاقے وڈھ سے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ شروع کیا تھا اور مستونگ کے قریب لکپاس پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے احتجاج کرنے والے افراد کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔
بی این پی کا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو منظرعام پر لایا جائے۔ فوٹو: بی این پی
کوئٹہ میں گزشتہ روز سے ایک بار پھر موبائل فون نیٹ ورک کو بند رکھا گیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنوں کا وڈھ میں احتجاج، شٹر ڈاؤن ہڑتالبلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور ان کے قافلے کا فورسز کی جانب سے گھیراؤ کیے جانے کے بعد وڈھ میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی۔ فورسز کی کارروائی کے خلاف عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا، جس کے نتیجے میں وڈھ کے بازار میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور سڑکیں بلاک کر دی گئی ہیں۔احتجاج میں شامل مظاہرین نے بلوچستان نیشنل پارٹی کی حمایت میں نعرے بازی کی اور فورسز کے اقدامات کی مذمت کی۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سردار اختر جان مینگل اور ان کے ساتھیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے کی اجازت دی جائے۔شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران کاروبار اور دکانیں بند کر دی گئیں، اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی مکمل طور پر متاثر ہو گئی۔ مظاہرین نے یہ واضح کیا کہ یہ احتجاج فورسز کی کارروائی کے خلاف ہے اور جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے، یہ احتجاج جاری رہے گا۔