پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں اس وقت سولر پینلز کی کئی اقسام دستیاب ہیں جو ساخت، کارکردگی اور تیاری کے طریقۂ کار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ملک میں مہنگی بجلی اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث متبادل ذرائعِ سے توانائی حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں سولر پینلز کی مانگ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔سولر ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب سولر پینلز کی بڑی اقسام میں مونوکرسٹلائن، پولی کرسٹلائن، پتلی پرت والے (تھِن فلم) اور بائی فیشل پینلز شامل ہیں۔ ہر ٹیکنالوجی کی اپنی خصوصیات ہیں اور یہ مخصوص حالات میں مختلف کارکردگی دکھاتی ہیں۔مونوکرسٹلائن سولر پینلزسولر ڈیلرز کے مطابق مونوکرسٹلائن ٹیکنالوجی پر مبنی پینلز خالص سلیکون سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی شناخت ان کی سیاہ رنگت اور یکساں سطح سے کی جاتی ہے۔ یہ پینلز محدود جگہ میں بھی زیادہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی تیاری کا عمل دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور مہنگا سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ ٹیکنالوجی طویل مدتی کارکردگی کے حوالے سے نمایاں مانی جاتی ہے۔پولی کرسٹلائن سولر پینلزاسی طرح پولی کرسٹلائن پینلز بھی سلیکون سے تیار کیے جاتے ہیں، تاہم ان میں ایک سے زائد کرسٹل استعمال ہوتے ہیں، جس کے باعث ان کی سطح نیلی اور غیر یکساں نظر آتی ہے۔ ان پینلز کو عام طور پر آسان تیاری اور لاگت میں کمی کے باعث وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کارکردگی کے لحاظ سے یہ مونوکرسٹلائن سے مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم مخصوص موسمی حالات میں بہتر نتائج فراہم کرتے ہیں۔پتلی پرت والے سولر پینلزیہ تیسری قسم ہے، پتلی پرت والے سولر پینلز نیم موصل (سیمی کنڈکٹر) مواد کی باریک تہوں سے بنائے جاتے ہیں اور روایتی کرسٹل سلیکون پر مبنی نہیں ہوتے۔ یہ پینلز وزن میں ہلکے، لچکدار اور انسٹالیشن کے لحاظ سے آسان ہوتے ہیں۔ صنعتی تنصیبات یا ایسی جگہوں پر جہاں روایتی پینلز لگانا ممکن نہ ہو، وہاں یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔ گرمی یا کم روشنی کے ماحول میں یہ پینلز کام کرتے ہیں، تاہم ان کی عمومی کارکردگی دیگر اقسام سے کم مانی جاتی ہے۔بائی فیشل سولر پینلزان تین اقسام کے علاوہ چوتھی قسم بائی فیشل سولر پینلز ہے۔ یہ پینلز دونوں جانب سے سورج کی روشنی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس کی بدولت ان کی توانائی پیدا کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہ پینلز خاص طور پر ایسی جگہوں پر لگائے جاتے ہیں جہاں پینل کے نیچے موجود سطح سے روشنی کا انعکاس ممکن ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے مخصوص تنصیب کے طریقے اور ترتیب درکار ہوتی ہے، اور ان کی قیمت دیگر اقسام سے مختلف ہو سکتی ہے۔
سولر ڈیلرز کے مطابق مونوکرسٹلائن ٹیکنالوجی پر مبنی پینلز خالص سلیکون سے تیار کیے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
مارکیٹ رجحانات اور عمومی مشاہداتتوانائی کے شعبے سے وابستہ ان ٹیک سولوشنز کے چیف ایگزیٹو آفیسر آفتاب اشرف کے مطابق سولر پینلز کی طلب میں اضافے کے باوجود اس ٹیکنالوجی کے بارے میں عام شہریوں کو مکمل معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔ ’کئی خریدار مارکیٹ میں دستیاب اقسام اور ان کی تکنیکی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، جس کے باعث انہیں فیصلہ سازی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نیٹ میٹرنگ، درآمدی قیمتوں اور پالیسی معاملات کی پیچیدگیوں کے باوجود شہری اور صنعتی سطح پر شمسی توانائی کی جانب جھکاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ’سولر پینلز کے استعمال سے متعلق قوانین اور تکنیکی ضوابط کے حوالے سے بھی اکثر صارفین مکمل آگاہی نہیں رکھتے، جس کے باعث بعض اوقات انہیں مالی نقصان یا کارکردگی میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘دستیاب معلومات اور چیلنجزماہرین کے مطابق پاکستان میں سولر ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات کا عمومی فقدان موجود ہے۔ تکنیکی اصطلاحات، تنصیب کے تقاضے، اور کارکردگی سے متعلق تفصیلات صارفین تک محدود طور پر پہنچتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں غلط فہمیاں اور غیر معیاری مصنوعات کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔موجودہ صورتحال میں یہ واضح ہے کہ مقامی مارکیٹ میں سولر پینلز کی کئی اقسام موجود ہیں جن میں ہر ایک کی اپنی ٹیکنالوجی، ساخت، اور استعمال کی صورتیں ہیں۔ شمسی توانائی سے متعلق پالیسی، رجحانات اور ٹیکنالوجی کے تناظر میں معلومات کی فراہمی وقت کی ضرورت سمجھی جا رہی ہے تاکہ توانائی کے اس اہم متبادل کو مؤثر طور پر اپنایا جا سکے۔