پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے تھانہ بھکھی کی حدود میں مہمانوں کے لیے تکہ اور کباب بنانے میں مبینہ تاخیر کی وجہ سے فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل کردیا گیا۔
پولیس کے مطابق قتل ہونے والے شخص کا نام محمد سلیم ناصر تھا اور وہ تکہ بنانے کی دکان چلاتے تھے۔
تھانہ بھکھی پولیس نے مقتول کے بھائی سید ثنا الرحمان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس مقدمے کے تفتیشی افسر انسپکٹر ہمایوں رشید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ واقعہ 8 اپریل کی رات 11 بجے کے قریب پیش آیا۔‘
اُن کے بقول ’پولیس اس وقت کیس کی تفتیش کر رہی ہے اور ہم نے ابتدائی طور پر نعش کو قبضے میں لے کر اپنا کام شروع کر دیا تھا۔‘
تھانہ بھکھی میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ دو بھائیوں محمد سلیم ناصر اور سید ثنا الرحمان نے مل کر ’شاہ جی تکہ شاپ‘ کے نام سے ایک دکان کھول رکھی تھی۔
مقدمے میں مقتول کے بھائی نے موقف اختیار کیا کہ ’واقعے سے دو تین روز قبل ضیغم عباس ورک آئے اور بتایا کہ میرے بھائی کی شادی ہے آپ تکے کا سامان لے کر میرے گاؤں نواں کھوہ بشمولہ میانہ ٹھٹھہ میں مہندی کی تقریب میں سہ پہر چار بجے میرے گھر پہنچ جائیں۔‘
مدعی مقدمہ سید ثنا الرحمان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے سہ پہر 4 بجے سے رات 11 بجے تک کام کیا اور آنے والے مہمانوں کو تکہ اور کباب سمیت دیگر باربی کیو بنا کر دیے۔‘
تھانہ بھکھی میں درج ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے مزید بتایا کہ رات 11 بجے جب ہم اپنا کام ختم کر کے واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ ضیغم عباس ورک اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے اور انہیں تکہ اور کباب بنانے کا کہا۔
’میں اور میرے بھائی نے انہیں کہا کہ آپ تھوڑی دیر بیٹھ جائیں ہم تیار کر کے دیتے ہیں لیکن انہیں ہماری بات پسند نہیں آئی اور ہم پر فائرنگ کر دی۔‘
پولیس نے ’ضیغم عباس، خرم عباس، عباس ورک اور فیصل عباس کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
مقدمے کے مطابق تکہ شاپ کے مالک اور دیگر ساتھی اپنے کاؤنٹر کے پیچھے چُھپنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک فائر محمد سلیم کے بائیں کان کے پاس سر میں لگا۔ محمد سلیم گولی لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی چل بسے۔
میزبان ضیغم عباس ورک سمیت ان کے دیگر ساتھیوں خرم عباس، عباس ورک، فیصل عباس ورک سمیت تین چار نامعلوم افراد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر ہمایوں رشید کے مطابق ملزمان نے ضمانت کروا لی ہے جبکہ پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔
ثنا الرحمان بتاتے ہیں کہ ہماری صرف یہ غلطی تھی کہ ہم اپنا سامان سمیٹ رہے تھے اور انہیں کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا جس پر وہ طیش میں آگئے اور کہا کہ تم نے مہمانوں کے لیے تکہ بنانے میں دیر کیوں کی؟‘
مقتول محمد سلیم کی عمر لگ بھگ 35 سال تھی اور وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے گذشتہ 20 برس سے محنت مزدوری کر رہے تھے۔
مقتول کے بھائی ثنا الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کے دو بچے ہیں۔ ایک چار سال کی بیٹی اور ایک ڈیڑھ سال کا بیٹا ہے۔