رٹّا نہ ہی پوزیشن سسٹم، چنیوٹ کا سرکاری سکول جو ’روایتی تعلیمی نظام کو بدل رہا ہے‘

image
صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ کے نواحی علاقے میں موجود ترکھان والا ہائی سکول کا نام شاید ہی کبھی کسی قومی تعلیمی رپورٹ یا اخباری سرخی میں آیا ہو، مگر آج یہی سکول ایک خاموش انقلاب کی قیادت کر رہا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جو روایتی نظامِ تعلیم کی بنیادوں کو چیلنج کر رہا ہے، اور جس کی بازگشت فیس بک کی ویڈیوز سے لے کر تعلیمی دفاتر تک سنی جا رہی ہے۔

اس تبدیلی کی وجہ ایک معلم ابنِ محمد یار ہیں جو گذشتہ 10 برسوں سے اس سکول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مضمون پڑھا رہے ہیں مگر اُن کا اثر صرف کمپیوٹر لیب تک محدود نہیں رہا۔

انہوں نے سکول کے ہر گوشے کو نئی فکر، نئی روشنی دی ہے۔ انہوں نے اس سکول کو ایک تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں بچے صرف رَٹا نہیں مارتے بلکہ سوچتے، سوال کرتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے سرکاری سکولوں کو فیس بک پر اپنے پیجز بنا کر تعلیمی سرگرمیاں اَپ لوڈ کرنے کی ہدایات جاری کیں تو ترکھان والا ہائی سکول کے فیس بک پیج کی ذمہ داری ابن یار محمد کے سپرد ہوئی، جنہوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے روایتی نظام تعلیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف سکول کے نظام میں تبدیلیاں متعارف کروائیں بلکہ سوشل میڈیا پر بچوں کے ساتھ ایسی ایسی ویڈیوز تخلیق کی ہیں جنہوں نے 78 برس پرانے نظام تعلیم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

ابنِ یار محمد نے کہا کہ ’ہماری ویڈیوز نظامِ تعلیم کے حوالے سے ناقدانہ بھی ہیں اور اصلاحی بھی۔ ہم دونوں پہلوؤں سے چیزوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔‘

صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے جب سکولوں کو آزادی دی کہ وہ تعلیم کو اپنے طور پر بہتر کرنے کی کوشش کریں، تو ابنِ یار نے اس موقع کو ایک انقلابی تجربے میں بدل دیا۔

انہوں نے پاکستان کے روایتی تعلیمی ڈھانچے کا موازنہ فن لینڈ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کیا اور محسوس کیا کہ ہمارا نظام بچوں کو صرف نمبر لینے کی دوڑ میں جھونک رہا ہے۔ وہ تعلیم جو بچوں کی فکری پرورش کرے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارے، ہمارے ہاں ناپید ہے۔

ابن محمد یار نے سکول کو ایک تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں بچے صرف رَٹا نہیں مارتے بلکہ سوچتے، سوال کرتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

چنانچہ انہوں نے آہستہ آہستہ وہ پرانے طریقے ترک کرنا شروع کیے جو بچوں کو محض رَٹا لگانے اور امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر لینے تک محدود رکھتے ہیں۔

ابنِ یار نے سکول میں ’گائیڈ بک‘ کا نظام ختم کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ بچے کو پہلے سے تیار شدہ سوالات اور جوابات دے دیتے ہیں تو آپ دراصل اس کی یادداشت کا امتحان لیتے ہیں، نہ کہ اس کی سمجھ کا۔‘

وہ اس کے بجائے بچوں کو سکول میں سبق سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں، جو گھر جا کر اپنے سبق کا تجزیہ کر کے خود اپنے سوالات بناتے اور ان کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔ یہی طریقہ اب ہوم ورک اور اسائنمنٹس کا حصہ بن چکا ہے۔ شروع میں بچے الجھن میں تھے، لیکن استاد نے ان کی ہر کوشش کو سراہا اور رفتہ رفتہ بچے اس نئے طریقہ کار کے عادی ہوتے گئے۔ اب وہ جو سوالات بناتے ہیں، ان کا معیار حیران کن حد تک بلند ہو چکا ہے۔ اس عمل نے نہ صرف بچوں کی فہم و فراست کو نکھارا بلکہ ان میں اعتماد بھی پیدا کیا ہے۔

سکول کی روزمرہ زندگی میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔ اب یہاں پوزیشن سسٹم نہیں ہے۔ ابنِ یار نے محسوس کیا کہ اس نظام سے بچوں میں حسد، لالچ اور ناکامی کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بجائے چھ مختلف زمروں میں انعامات دیے جاتے ہیں جیسے بہترین مسئلہ حل کرنے والا، بہترین مقرر، بہترین تخلیق کار وغیرہ۔ سال کے اختتام پر یہی انعامات کارکردگی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ ہر روز ایک بچہ ’سٹوڈنٹ آف دی ڈے‘ منتخب کیا جاتا ہے جس کی کارکردگی کو سب کے سامنے سراہا جاتا ہے، اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے۔ یہ اعزاز بچوں کے لیے کسی انعام سے کم نہیں، اور انہیں روزانہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی تحریک دیتا ہے۔

سکول کی روزمرہ زندگی میں بھی تبدیلی آ چکی ہے۔ اب یہاں پوزیشن سسٹم نہیں ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

بچوں کو اب صرف کتابی علم ہی نہیں سکھایا جا رہا بلکہ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے کسی مسئلے کی شناخت کریں اور پھر اس کا حل سوچ کر سکول میں پیش کریں۔ اس سے نہ صرف ان کی مشاہداتی صلاحیت بہتر ہوئی ہے بلکہ ان میں عملی مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوا ہے۔

ابنِ یار کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام سرگرمیاں نہ صرف بچوں کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ ان کے والدین بھی ان تبدیلیوں کو سراہ رہے ہیں، چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں یا نہ ہوں۔ والدین کو لگ رہا ہے کہ اُن کے بچے بہتر ہو رہے ہیں، ان میں اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔‘

اس تمام عمل کی خاص بات یہ ہے کہ سکول کے افسر اور تعلیمی حکام اس تجربے کو نہ صرف سراہ رہے ہیں بلکہ اسے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کر رہے ہیں۔

ابنِ یار محمد کے مطابق ’ہماری تعلیمی سرگرمیاں وزیرِ تعلیم، ڈی ای او اور سی ای او تک سب کے علم میں ہیں، اور وہ ہماری حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ حکومت اگر سنجیدگی سے اس ماڈل کو اختیار کرے تو یہ نظام پورے صوبے میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔

اس تبدیلی کا اثر صرف تعلیمی ماڈل تک محدود نہیں رہا بلکہ بچوں کی زندگیوں پر بھی براہِ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ساتویں جماعت کے طلب علم احمد شہزاد نے بتایا کہ ’میں پانچویں جماعت تک ایک عام سا طالب علم تھا۔ نہ بولنے کی ہمت تھی، نہ سٹیج پر جانے کی۔ پھر میری زندگی میں ابنِ محمد یار صاحب آئے۔ انہوں نے مجھے پہچانا، سنوارا، اور وہ اعتماد دیا جس کی مجھے سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، انہی کی محنت کا نتیجہ ہے۔‘

ترکھان والا ہائی سکول آج ایک خاموش انقلاب کی قیادت کر رہا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

استاد ابن یار محمد نے کہا کہ ’تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم غربت، جرائم اور معاشرتی مسائل کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ تعلیم سب کچھ بدل سکتی ہے اور بے شک، ہم اگر سنجیدگی سے کام لیں تو تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روایتی نظام تعلیم کو جدید خطوط کے مطابق تبدیل کیا جائے۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.