’فوٹوگرافی صرف میرا شوق نہیں بلکہ ایک مشن ہے جس کے ذریعے میں بلوچستان کو اس کے اصل رنگوں میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے خوبصورت صوبے اور لوگوں کے بارے میں باقی پاکستان اور دنیا کے خیالات تبدیل ہو سکیں۔‘یہ کہنا ہے بلوچستان کے پسماندہ ضلع بارکھان سے تعلق رکھنے والے رحیم کھیتران کا جو شوقیہ مگر ماہر فوٹوگرافر ہیں۔ ان کا فن نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ بین الاقوامی گیلریوں میں بھی بلوچستان اور پاکستان کے رنگ بکھیر رہا ہے۔جمعے کو ان کے تصاویر کی نمائش متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے یوم پاکستان کی مناسبت سے منعقدہ اس نمائش میں رحیم کھیتران کی 26 تصاویر کو پیش کیا گیا۔ نمائش میں 200 سے زائد سفارت کاروں، متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان اور حکومت کے نمائندوں، تاجروں اور اپنے شعبوں کی نمایاں شخصیات نے شرکت کی اور رحیم کھیتران کے کام کو سراہا۔اس سے پہلے فرانس کے دارالحکومت پیرس کی گیلکسی آرٹ گیلری میں دو مرتبہ ان کی تصاویر بین الاقوامی نمائش کا حصہ بن چکی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رحیم کھیتران نے بتایا کہ ’ابوظبی نمائش میں رکھی گئیں تصاویر میں گلگت بلتستان کے برفیلے پہاڑوں اور خوبصورت جھیلوں سے لے کر سکردو کے سرد ترین صحرا، بلوچستان کے پہاڑوں میں پرنسسز آف ہوپ جیسے قدرتی شاہکار اور اور بارکھان کی دیہی زندگی تک پاکستان کی خوبصورتی اور ثقافتی تنوع کو اجاگر کیا گیا۔‘
اُن کے مطابق اس نمائش کا مقصد پاکستان کی خوبصورتی اور ثقافتی تنوع کو دکھانا تھا۔ شرکا نے تصاویر کو بہت پسند کیا۔’یہ میری زندگی کا بہت بڑا اور کامیاب ترین ایونٹ تھا۔ شرکا نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ یہ موقع فراہم کرنے پر میں حکومت اور پاکستانی سفیر فیصل نیاز ترمذی کا شکر گزار ہوں۔‘رحیم کھیتران نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ مگر خوبصورت ضلع بارکھان سے ہے جہاں سے انہوں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ثانوی تعلیم کے لیے وہ لورالائی اور پھر کوئٹہ منتقل ہوئے۔ اس کے بعد اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی سے اینتھروپولوجی (بشریات) میں ماسٹرز اور پھر ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ اب وہ بیرون ملک پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔انہوں نے اپنے فوٹوگرافی کے شوق کے حوالے سے کہا کہ ’میری کیمرے سے دوستی سکول کے زمانے سے شروع ہوئی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران شوق مزید پروان چڑھا۔ بشریات کی تعلیم کے دوران میں نے انسانوں کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ اور مشاہدہ شروع کیا جس نے میرے اندر کے فوٹوگرافر کو مزید بیدار کیا۔‘رحیم کے مطابق تعلیم کے بعد انہوں نے مختلف غیرسرکاری اداروں میں کام کیا جس کے دوران انہیں پاکستان کے طول و عرض میں سفر کا موقع ملا۔ اپنے کام کے ساتھ ساتھ وہ کیمرہ بھی ہمراہ رکھتے اور ہر خوبصورت لمحے، منظر اور چہرے کو تصویروں میں محفوظ کرتے۔
رحیم کھیتران نے اپنے فوٹوگرافی کے نمونے آن لائن شیئر کیے تو انہیں داد و تحسین ملنے لگی۔ (فوٹو: رحیم کھیتران)
انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں وہ یہ تصاویر صرف اپنے پاس رکھتے لیکن جب انہوں نے اپنے فوٹوگرافی کے نمونے آن لائن شیئر کیے تو انہیں داد و تحسین ملنے لگی۔ لوگ انہیں پیغامات بھیجتے کہ وہ ان جگہوں، لوگوں اور ثقافتوں کو ان کے ذریعے دیکھ رہے ہیں جہاں وہ خود کبھی نہیں جا سکے۔
’سوشل میڈیا کے ذریعے ہی میرا رابطہ فیصل نیاز ترمذی سے ہوا جو مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف میرے کام کو سراہا بلکہ عملی طور پر بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان ہی کی کوششوں سے میری تصاویر کی نمائش متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوئی۔‘رحیم کھیتران نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش ہی عالمی سطح پر ہوئی۔ سنہ 2022 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس کی گیلکسی آرٹ گیلری نے عالمی میلے میں میری دو تصاویر کی نمائش کی جسے دنیا بھر سے آنے والے افراد نے دیکھا اور سراہا۔ پیرس کی آرٹ گیلری نے مجھے آرٹسٹک فوٹوگرافر کا ٹائٹل دیا۔‘’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ پیرس کی آرٹ گیلری نے دو مرتبہ میری نہ صرف تصاویر کی نمائش کی بلکہ درجنوں تصاویر گیلری کی ویب سائٹ پر بھی پیش کی ہیں۔‘رحیم کھیتران کے مطابق انہوں نے دنیا کے 20 سے زائد ممالک میں فوٹوگرافی کی ہے جن میں سعودی عرب، ترکیہ، امریکہ، چین، اور یورپ کے مختلف ممالک شامل ہیں مگر ان کی پہلی ترجیح ہمیشہ بلوچستان، اس کا کلچر اور یہاں کے لوگ رہے ہیں۔
رحیم کھیتران کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ مگر خوبصورت ضلع بارکھان سے ہے۔ (فوٹو: رحیم کھیتران)
ان کا ماننا ہے کہ بلوچستان کے بارے میں جو منفی تاثر دنیا میں پایا جاتا ہے وہ زمینی حقیقت سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کام کے ذریعے بلوچستان کی خوبصورتی، رنگینی اور انسانی جذبات کو نمایاں کرتے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت اور متوازن تصویر پیش کی جا سکے۔
’بلوچستان ایک خوبصورت سرزمین ہے جسے ابھی دنیا نے مکمل طور پر نہیں جانا۔ بدقسمتی سے بلوچستان زیادہ تر منفی خبروں کا مرکز بنتا ہے مگر میری کوشش ہے کہ تصویروں کے ذریعے اس خوبصورت مگر نظر انداز شدہ دھرتی کا مثبت چہرہ سامنے لاؤں۔‘ان کے مطابق بلوچستان کا ایک ایک حصہ خوبصورت ہے۔ یہاں کے لوگ محبت کرنے والے، مہمان نواز اور اپنی ثقافت سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ہماری ثقافت بہت متنوع اور وسیع ہیں۔’میں چاہتا ہوں کہ لوگ تصاویر کے ذریعے جانیں کہ بلوچستان کے پہاڑ ہی نہیں بلکہ لوگوں کے دل بھی وسیع ہیں۔ میں چاہتا ہوں بلوچستان کے لوگوں کی ان کہی کہانیوں کو تصویر کی زبان میں سناؤں کیونکہ ایک تصویر ہزار الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔‘رحیم کھیتران کی خاص دلچسپی پورٹریٹ فوٹوگرافی میں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ایک چہرہ ہی احساسات اور جذبات کی صحیح عکاسی کر سکتا ہے۔وہ تصویروں کو دلچسپ اور بامعنی عنوان بھی دیتے ہیں تاکہ دیکھنے والا صرف منظر ہی نہ دیکھے بلکہ اس کے پیچھے چھپی کہانی کو بھی محسوس کرے۔