پاکستان اور انڈیا کی ’بلیم گیم‘ کے بعد ’میم گیم‘: ’انھوں نے جنگ کو بھی کھیل سمجھ لیا ہے‘

پہلگام واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کشیدگی تاحال بڑھ رہی ہے کم نہیں ہو رہی۔ تاہم پاکستان کا سوشل میڈیا اس انتہائی سنگین صورتحال کو بھی ’میم گیم‘ کا حصہ بنا رہا ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے تفریحی مقام پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر فریقین میں فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے کی اطلاعات ہیں اور سرحدی علاقوں کے باسیوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

سرحدی علاقوں سے کئی ایسی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئی ہیں جہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرحد کے قریب کے زرعی علاقوں میں کسان عجلت میں اپنی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔

پاکستان کے حکام کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین جنگ کے خطرات ’حقیقی‘ ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے منگل کی شب کہا کہ پاکستان کے پاس مستند انٹیلیجنس اطلاعات ہیں کہ انڈیا اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں پہلگام کے واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ان کا یہ بیان منگل کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اپنی مسلح افواج کو پہلگام حملے کے ردعمل کے حوالے سے طریقہ کار، اہداف اور وقت کا تعین کرنے میں 'مکمل آپریشنل آزادی' دیے جانے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا۔

تاہم اگر آپ پاکستان میں سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو وہاں پاکستان انڈیا کے درمیان ممکنہ جنگ کے موضوع کو لے کر جو ماحول پایا جاتا ہے اور اس پر جو ’میمز‘ بنائے جا رہے ہیں ان سے ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ یہاں عوام بظاہر ممکنہ جنگ کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ آخری مرتبہ سنہ 1971 میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا ایک حصہ کھونا پڑا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔

محدود پیمانے پر ایک چوتھی جنگ سنہ 1999 میں کارگل کے مقام پر بھی لڑی گئی جس میں پہلی مرتبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خدشات کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔ تاہم ان تمام مواقع پر سوشل میڈیا کا رجحان موجود نہیں تھا۔

سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جنھوں نے اپنی زندگیوں میں پہلے کبھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ نہیں دیکھی۔ تو کیا سوشل میڈیا صارفین معاملے کی حساسیت کو نہ سمجھتے ہوئے غیر سنجیدہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں؟

پاکستان پر ممکنہ انڈین حملے کے خطرے جیسی صورتحال میں کیا سوشل میڈیا کا نسبتاً نیا رجحان کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیا یہ کشیدگی کو کم کرتا ہے یا بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے؟

جنگ کو لے کر سوشل میڈیا پر ’میم گیم‘

پاکستان میں مخلتف سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ فیس بک، ایکس، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام وغیرہ پر گذشتہ چند روز میں پاکستان انڈیا ممکنہ جنگ کے موضوع کو لے کر درجنوں میم سامنے آئے ہیں۔

کئی ویڈیوز ایسی سامنے آئی ہیں جن میں انڈیا کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا مذاق اڑایا گیا ہے جن میں سے ایک پانی کا مسئلہ ہے۔ پہلگام میں حملے کے دوسرے روز انڈیا نے پاکستان کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل تھا۔

اس کے بعد اس خطرے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انڈیا پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو روک سکتا ہے یا اس کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔

اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ جس میں صارفین اس دھمکی کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ’پانی بند ہو گیا تو میں نہاؤں گا کیسے۔‘

ایک ویڈیو میں صارف کہہ رہے ہیں کہ ’چلو اچھا ہے اس طرح گوالا دودھ میں پانی نہیں ملائے گا، ہمیں خالص دودھ ملے گا۔‘

انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ کے امکانات پر بھی سوشل میڈیا پر ہونے والی بات چیت مذاق کے پیرائے میں ہی دکھائی دیتی ہے۔

ایکس پر ایک صارف صبا بشیر نے لکھا ’اتنی گرمی میں کوئی ولیمہ نہیں رکھتا، انھوں نے جنگ رکھ لی ہے۔‘

ایک اور صارف ارم نے لکھا ’ڈیئر انڈینز اگر کراچی پر حملہ کرنا ہو تو موبائل فونز انڈیا میں ہی چھوڑ کر آنا۔‘ ان کا اشارہ کراچی میں بظاہر موبائل فون چھیننے کے واقعات کی طرف تھا۔

’ابھی تک انڈیا کا بھیجا ہوا میزائل آیا نہیں‘

بہت سے صارفین نے پاکستانی فوج سے منسلک ہاؤسنگ سکیم ڈیفینس ہاؤسنگ یعنی ڈی ایچ اے کو لے کر بھی میمز بنائے ہیں جن میں ’ڈی ایچ اے گوا‘ اور ’ڈی ایچ اے ممبئی‘ کا لے آؤٹ پلان دیا گیا ہے۔

ایک انڈین صارف کی طرف سے تبصرہ کیا گیا کہ ’پاکستان کو نقشے سے مٹانے کا وقت آ گیا ہے‘، جس پر جواب میں ایک پاکستانی صارف عبداللہ نے ایک پنسل کی تصویر بنا کر ساتھ لکھا ’میں پھر ڈرا کر {بنا لوں} لوں گا۔‘

ایک اور پوسٹ میں ایک صارف نے ایک تصویر لگائی جس میں ایک شخص کو ہاتھ باندھےانتظار میں کھڑا دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے کان میں ہیبسکس کا لال رنگ کا پھول لگا ہے۔ اس پر کیپشن میں درج ہے ’ابھی تک انڈیا کا بھجوایا ہوا میزائل آیا نہیں۔‘

پاکستان کی اس ’میم گیم‘ پر ایک انڈین صارف سڈ شرما نے بھی کچھ میمز کے سکرین شاٹس لگا کر لکھا ’ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا ’مزاح کی جنگ‘ میں بُری طرح جنگ ہار رہا ہے۔‘

اسی طرح انڈیا کی حکمراں جماعت بے جی پی کی ایک ایکس اکاؤنٹ نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کرنے والے ایک شخص کو سراہا۔ اس شخص نے انڈیا کی طرف سے پانی بند کیے جانے پر ہاتھ میں پانی کی بوتل اٹھائے طنز کیا تھا۔

جنگ کا خطرہ مگر صارفین غیر سنجیدہ کیوں؟

صحافی فرزانہ علی نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ جنگ جیسے معاملے پر اس طرح کا ردعمل تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر پاکستانی قوم نے جنگ کو بھی کوئی کھیل سمجھ لیا ہے اور انھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ دو جوہری طاقتیں اس وقت کس حالت میں ہیں۔

تو کیا سوشل میڈیا تناؤ کی اس صورتحال پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ انڈیا کی طرف سے آنے والے دنوں میں کوئی محدود فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

’اس کے بعد پاکستان اس کا جواب دے گا اور وہ جواب کس قسم کا ہو گا اور کس نوعیت کا ہو گا اور اس کے بعد کشیدگی میں کس طرح اور کتنا اضافہ ہو گا اس کی پیشن گوئی کرنا اس وقت مشکل ہے۔‘

تاہم ان کے خیال میں ’سوشل میڈیا کیونکہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسی صورتحال میں براہ راست اثرانداز نہیں ہوتا۔‘

’وہ ایسکیلیشن یا ڈی ایسکیلیشن میں تو کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا لیکن سوشل میڈیا پر جنگ جیسے معاملے کو لے کر غیر سنجیدہ قسم کا بحث مباحثہ تناؤ کی صورتحال پر مزید برا اثر ڈالتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نا صرف پاکستان کے سوشل میڈیا بلکہ انڈیا کی طرف سے بھی سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا پر بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ قسم کا رویہ اپنایا گیا ہے۔‘

ڈاکڑ حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ حکومتیں اس قسم کے سوشل میڈیا کے رویے کو مکمل طور پر بند تو نہیں کر سکتیں اور نہ روک سکتی ہیں ’تاہم انھیں چاہیے کہ جنگ جیسے سنگین معاملے پر ایسے غیر سنجیدہ رویے کی حوصلہ شکنی کریں۔‘

خیال رہے کہ حال ہی میں انڈیا میں حکومت نے کئی پاکستانی یوٹیوبرز اور کئی پاکستانی ٹی وی چینلز کے یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی ہے تاہم پاکستان کی طرف سے ایسا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.