پہلگام حملے کے بعد انڈیا سے پاکستانی مریضوں کی واپسی: ’بچوں کے دل کا کیا علاج ہوتا، ہمارا تو اپنا دل کرچی کرچی ہو گیا‘

پاکستانی خاندان سات برس کے انتظار کے بعد اپنے دو بچوں کے دل کے علاج کی غرض سے انڈیا پہنچ پایا مگر سات دن کے اندر ہی انھیں پہلگام حملے کے بعد بغیرعلاج کے واپس آنا پڑا۔

عنبرین شاہد اور ان کے شوہر شاہد علی بچوں کے علاج کی غرض سے سات برس سے انڈین ویزے کے حصول کی کوشش کر رہے تھے اور پھر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے اور وہ 21 اپریل کو اپنی سات برس کی بیٹی منسا اور نو برس کے بیٹے عبداللہ کو لے کر ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں واقع ہسپتال ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچے۔

شاہد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی ہسپتال میں ان کا داخلہ بھی نہیں ہوا کہ 22 اپریل کو ہسپتال میں اپنے بچوں کے پاس بیٹھے ٹی وی سکرین پر نظر پڑی جہاں پہلگام میں حملے کی خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں۔

شاہد علی کے مطابق 'میں دوڑا دوڑا ڈاکٹرز کے پاس پہنچا اور انھیں اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ڈاکٹرز نے کہا بے فکر رہو آپ لوگ 45 دن کے میڈیکل ویزے پر آئے ہو تمھارے بچوں کی سرجری کر کے بھیجیں گے۔'

مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ انڈین ڈاکٹرز کو اپنی حکومت سے درخواست کرنا پڑی کہ ان بچوں کی سرجری کی اجازت دی جائے۔

شاہد علی کے مطابق ابھی ان کے بچے ہسپتال میں داخل نہیں تھے مگر ڈاکٹرز نے یہ ظاہر کیا کہ وہ داخل ہیں۔ ان کے مطابق پہلے سرجری 27 اپریل کو طے تھی مگر ڈاکٹرز نے خود ہی ایک دن پیچھے کر کے 26 اپریل ظاہر کی مگر ڈاکٹرز کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔

'ایک اہلکار نے آ کر ہمیں بتایا کہ آپ لوگوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی میری اہلیہ نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔'

ان کے مطابق اہلیہ کو تسلی کیا دیتا وہ تو ایک ایک دن گن کر سات برس بعد اس ہسپتال تک پہنچی تھیں۔ مگر یہ سات سال کے انتظار کے بعد ملنے والی خوشی سات دن میں ہی غم میں تبدیل ہو گئی۔

شاہد علی کے مطابق 'ہم نے جب واپسی کی تیاری شروع کی تو بچوں نے پوچھا ہم بغیرعلاج کے ہی واپس کیوں جا رہے ہیں، اب اہلیہ ہی نہیں بلکہ میں نے بھی رونا شروع کر دیا۔' ان کا کہنا ہے کہ ’جب مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پایا تو میں نے بس بچوں سے اتنا کہا کہ پھر آئیں گے۔‘

شاہد علی اور ان کے اہلخانہ ان پاکستانیوں میں شامل ہیں جنھیں 22 اپریل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلگام کے تفریحی مقام پر سیاحوں پر حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈین حکومت کے سخت اقدامات کے اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پہلگام کے حملے کے بعد انڈین حکومت نے صرف واہگہ کی سرحد بند کرنے کا اعلان کیا بلکہ پاکستانیوں کو دیے گئے ویزے بھی منسوخ کر کے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں قابلِ ذکر تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو علاج کی غرض سے پاکستان سے انڈیا گئے ہوئے تھے۔

شاہد علی کے مطابق ان کے ویزوں کی منسوخی پر جہاں وہ پریشان تھے وہیں ان کے بچوں کا علاج کرنے والے انڈین ڈاکٹرز بھی افسردہ تھے۔

ان کے مطابق ’ان ڈاکٹرز کے دل بھی منسا اور عبداللہ کے لیے بہت رو رہے تھے مگر ان کا بس نہیں چلا۔ ہمارے علاوہ وہاں ہسپتال کے ڈاکٹر بھی بہت افسردہ تھے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ چلیں ہم جب کسی اور ملک جائیں گے تو آپ کو بچوں کی سرجری کے لیے وہاں بلا لیں گے۔'

شاہد علی کے مطابق واپسی کا کا سفر بہت طویل اور تھکا دینے والے تھا اور ان کے بچوں نے جب 65 سے 70 گھنٹوں کا تکلیف دہ سفر کیا تو ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔

شاہد علی کے مطابق 'یہ ہماری زندگی کا مشکل ترین سفر تھا۔' ان کے مطابق 'ہم انڈیا بہت سی امیدیں لے کر گئے تھے مگر سب خواب ادھورے رہ گئے اور بچوں کے دل کا کیا علاج ہوتا، ہمار تو اپنا دل کرچی کرچی ہو گیا ہے۔'

ان کے مطابق وہ انڈیا جانے سے قبل پاکستان میں بھی بچوں کے علاج کے مواقع تلاش کرتے رہے مگر انھیں کہیں سے کامیابی نہ ملی اور ڈاکٹرز کے مشورے پر ہی انھوں نے انڈیا کو منزل بنایا تھا۔

ان کے مطابقٹاف نامی اس بیماری میں دل میں سوراخ اور دل کے والو ناقص ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ منسا اور عبداللہ کو سرجری کے لیے انڈیا لے گئے تھے۔

شاہد علی کے مطابق اس علاج پر کل ایک کروڑ روپے کے اخراجات آنے تھے جن میں سے دس لاکھ تک انھوں نے خرچ بھی کیے۔ عنبرین اور شاہد علی نے اب حکومت سے یہ اپیل کی ہے وہ ان کے بچوں کو علاج کی غرض سے برطانیہ یا امریکہ بھیجیں کیونکہ اب وہ یہ اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

منسا اور عبداللہ کی مشکلات کے بارے میں جب پاکستان کے عسکری حکام کو پتا چلا تو انھوں نے راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ تشکیل دے دیا۔

اس بورڈ کی طرف سے منسا اور عبداللہ کے خاندان سے رابطہ کیا گیا۔ شاہد علی نے رات گئے بی بی سی کو اس پیشرفت کی تصدیق کی اور بتایا کہ انھوں نے ڈاکٹرز سے یہ درخواست کی ہے کہ جو مہنگے ٹیسٹ انڈیا کی ہسپتال میں ہو چکے ہیں اب دوبارہ وہ ٹیسٹ نہ کروائے جائیں۔ ان کے مطابق اب وہ علاج کا خرچہ اٹھانے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔

شاہد علی کے مطابق انھوں نے بورڈ ممبران سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ بہت طویل سفر کے بعد بیمار بچوں کو لے کر لاڑکانہ پہنچے ہیں اور اب وہ راولپنڈی کا براستہ سڑک کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ شاہد علی نے حکام سے فضائی سفر کے لیے انتظامات کرنے کی درخواست کی ہے۔ حکام نے ابھی تک شاہد علی کی کسی بھی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

’پہلگام میں حملے کے بعد ہمارے بچے کا علاج رُک گیا‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد عمران بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو میڈیکل ویزے پر انڈیا میں موجود تھے جب پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا۔

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ان کا 16 سالہ بیٹا ایان پیرالائزڈ ہے اور بعض ڈاکٹروں نے انھیں بتایا تھا کہ پاکستان میں اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ وہ مارچ میں بیٹے کے علاج کی غرض سے انڈیا پہنچے تھے۔ '(ہم) دو سال سے بہت پریشان تھے۔۔۔ فیملی ڈاکٹر نے کہا اس کا علاج انڈیا میں ممکن ہے۔ وہاں میں نے پہلے ہی ڈاکٹر کو رپورٹ بھیج دی تھی۔'

عمران بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ان کے بیٹے کا چیک اپ اور ٹیسٹ کا سلسلہ چل رہا تھا جب 22 اپریل کو پہلگام میں حملہ ہوا جس کے بعد 'ہمارے بچے کا علاج رُک گیا۔'

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں واپس پاکستان جانے کا کہا گیا مگر ان کی اہلیہ انڈین شہری ہیں جنھیں پاکستان جانے سے روک دیا گیا۔ 'ایک پریشانی سے نمٹے نہیں تھے کہ دوسری پریشانی آگئی۔ تیسری پریشانی یہ ہے کہ انھیں (اہلیہ کو) ویزا لے کر پاکستان آنا ہوگا۔'

خیال رہے کہ انڈیا نے بھی انڈین شہریوں کے ویزے منسوخ کیے ہیں۔

عمران نے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے یہ اپیل کی ہے کہ 'آپ لوگوں کی لڑائی جھگڑے سے عام شہری کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ بیٹے کے علاج میں میرا بھی نقصان ہوگیا۔ میری بیوی انڈیا میں رہ گئی ہیں، انھیں جلد اپنے بچوں کے پاس یہاں بھیجا جائے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے بچے اپنی والدہ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔'

انھوں نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کا علاج بیرون ملک ممکن ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے لہذا ان کی مدد کی جائے۔

’انڈیا میں بچوں کے علاج سے متعلق مہارت زیادہ ہے‘

پاکستان سے بڑی تعداد میں لوگ میڈیکل ویزے پر انڈیا علاج کی غرض سے جاتے تھے۔ مگر پہلگام حملے کے بعدفی الحال اس ملک کے ہسپتالوں کے دروازے پاکستانیوں پر بند ہو چکے ہیں۔

سندھ یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے ڈاکٹر عبدال خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کو پاکستان سے کچھ مریض بھی علاج کی غرض سے جاتے تھے خاص طور پر حکمت کے شعبے میں جہاں انڈیا کو برتری حاصل ہے۔

ڈاکٹر عبدال کے مطابق اب پاکستان میں بھی علاج کے مواقع وسیع ہیں اور انڈیا جانے والوں کی تعداد میں پہلگام حملے سے پہلے ہی کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔

طاہر ہارٹ انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر مسعودالحسن نوری نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا میں بچوں کی علاج کی مہارت زیادہ ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی نسبت سستا ہے تو اس وجہ سے لوگ بچوں کو انڈیا لے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان میں بھی چند ایک ایسے ادارے ہیں جہاں دل کے امراض میں مبتلا ایسے بچوں کا علاج ممکن ہے مگر یہ ادارے پانچ یا چھ ہی ہیں۔

ان کی رائے میں لاہور کے چلڈرن ہسپتال کے بارے میں بتایا کہ وہاں ایسے بچوں کا علاج بھی ممکن ہو سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.