ٹائم میگزین کے مضمون میں لکھا گیا کہ ’جو کام ایڈولف ہٹلر زمینی محاذ پر اتحادیوں کی یلغار روکنے کے لیے نہ کر سکا، وہ جرمن بحریہ کے کمانڈر انچیف گرینڈ ایڈمرل کارل ڈونٹز سمندر میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘یہ کوششیں انتہائی مؤثر ثابت ہوئیں جن کا اعتراف ونسٹن چرچل نے بھی جنگ کے بعد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’جنگ کے دوران صرف ایک چیز جس سے میں واقعی خوفزدہ تھا، وہ آبدوزوں کا خطرہ تھا۔‘
کارل ڈونٹز (1891-1980)وہ یکم مئی 1945 کا دن تھا جب جرمن سلطنت کے وزیرِ اطلاعات جوزف گوبلز نے ایڈمرل کارل ڈونٹز کو ایک نہایت اہم ٹیلیگرام بھیجا۔ جوزف گوبلز ایڈولف ہٹلر کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے ایک تھے،
یہ پیغام ’انتہائی خفیہ‘ اور ’فوری‘ کے الرٹ کے ساتھ بھیجا گیا اور ان کا آغازان الفاظ سے آغاز ہوا کہ ’فیورر(لیڈر) کل سہ پہر تین بج کر 30 منٹ پر وفات پا گئے۔‘
گو کہ یہ جملہ چونکا دینے والا تھا تاہم اس سے اگلا اور بھی زیادہ حیران کن تھا ، ’29 اپریل کی وصیت میں آپ کو جرمنی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔‘
ہٹلر نے خودکشی کرنے سے چند گھنٹے قبل بطور لیڈر اور چانسلر اپنے جانشین کے طور پر ایڈمرل کارل ڈونٹز کا انتخاب کیا تھا جبکہ جوزف گوبلز کو چانسلر بنانے کی ہدایت کی۔۔
وصیت کے مطابق ’فیورر کے حکم سے یہ وصیت آپ کے علاوہ فیلڈ مارشل فردیننڈ شونر اور محفوظ رکھنے و اشاعت کے لیے بھیجی گئی ہے۔‘
جوزف گوبلز نے پیغام میں مزید کہا کہ نازی پارٹی چانسلری کے سربراہ (مارٹن بورمان) آپ کو صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لیے آپ سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اعلان اور فوج کو آگاہ کرنے کا طریقہ اور وقت آپ کی صوابدید پر ہے۔ وصولی کی تصدیق کریں۔‘
تاہم جوزف گوبلز نے تصدیق کا انتظار نہیں کیا بلکہ کچھ ہی دیر بعد انھوں نے اسی بنکر میں اپنی پوری فیملی سمیت خودکشی کر لی جہاں ہٹلر نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔
نہ بورمان اور نہ ہی ہٹلر کی وصیت کبھی پوری ہو سکی کیونکہ اتحادی افواج ہر طرف پھیل چکی تھیں اور انھوں نے اسے پورا ہونے سے روک دیا۔
یوں کارل ڈونٹز کے کندھوں پر مرتی ہوئی نازی جرمنی کی قسمت کا بوجھ آن پڑا حالانکہ وہ خود بھی اس کے لیے تیار نہ تھے۔
انھوں نے بعد میں اپنی کتاب ’ میموریز: ٹین ایئرز اینڈ 20 ڈیز (Memoirs: 10 Years and 20 Days 1959) میں لکھا،
’یہ سب میرے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔ 20 جولائی 1944 کے بعد میں نے ہٹلر سے کوئی بات نہیں کی تھی، سوائے ایک اجلاس کے مجھے اس حوالے سے کبھی کسی سے کوئی اشارہ نہیں ملا۔‘
انھیں کیوں منتخب کیا گیا؟
1930 میں نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی یا نازی پارٹی کی قیادت کی ایک تصویر۔ انتہائی بائیں پر ہیملر اور دائیں جانب گورنگ جبکہ درمیان میں ہٹلر موجود ہیںکارل ڈونٹز کے انتخاب کی وجہ سمجھنے سے پہلے اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ ہٹلر نے نازی جرمنی کی دو طاقتور ترین شخصیات ہرمن گورنگ اور ہائنرک ہملر کو کیوں نظرانداز کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ ہرمن گورنگ جو ایک ماہر پائلٹ تھے اور جنھوں نے 1933 میں ہٹلر کو اقتدار میں لانے میں مدد دی تھی، طویل عرصے تک ہٹلر کا جانشین تصور کیے جاتے رہے۔
1941 میں ہٹلر نے ایک خفیہ فرمان پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ اگر وہ گرفتار یا قتل ہو جائیں تو فضائیہ (لوفت وافے) کا سربراہ ملک کی قیادت سنبھالے گا۔
لیکن 23 اپریل 1945 کو جب نازی حکومت بکھر رہی تھی، ہٹلر کو ہرمن گورنگ کی جانب سے ایک غیر متوقع ٹیلیگرام موصول ہوا۔ گورنگ اُس وقت محفوظ مقام بیرشٹسگاڈن میں موجود تھے۔
انھوں نے پوچھا کہ اگر ہٹلر برلن کے قلعے میں محصور ہو گئے ہوں تو کیا وہ پورے ملک کی قیادت سنبھال لیں؟
انھوں نے مزید لکھا کہ،
’اگر مجھے رات 10 بجے تک کوئی جواب نہ ملا، تو میں سمجھوں گا کہ آپ اپنی آزادی عملا کھو چکے ہیں، میں فرمان کے مطابق عمل کروں گا اور اپنے وطن اور عوام کے مفاد میں اقدامات کروں گا۔‘
اپنے خط کا اختتام انھوں نے ان الفاظ پر کیا،
’آپ جانتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں میرے دل میں آپ کے لیے کیا جذبات ہیں۔ میں ان کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا۔ خدا آپ کی حفاظت کرے اور ہر حال میں آپ کو یہاں لے آئے۔‘
ہٹلر شدید غصے میں آ گئے اور ہرمن گورنگ پر ’غداری‘ کا الزام لگایا۔ ان کو حکم دیا گیا کہ اگر وہ اپنے تمام عہدوں سے فوری مستعفی نہ ہوئے تو انھیں سزائے موت دی جائے گی۔
25 اپریل کی صبح سے قبل ہرمن گورنگ کو نظر بند کر دیا گیا۔
ہٹلر کے دوسرے ممکنہ جانشین ہائنرک ہملر تھے جو خوفناک ایس ایس کے سربراہ اور ہٹلر کے پرانے اور وفادار ساتھی تھے۔
لیکن ہرمن گورنگ کا پیغام ملنے کے پانچ دن بعد ہٹلر کو معلوم ہوا کہ ہائنرک ہملر نے اتحادیوں سے خفیہ طور پر مذاکرات کی کوشش کی تھی یہاں تک کہ مغربی محاذ پر جرمن فوج کو امریکی جنرل آئزن ہاور کے حوالے کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ وہ بغیر اجازت خفیہ احکامات بھی جاری کرنے میں ملوث پائے گئے۔ بنکر میں موجود عینی شاہدین کے مطابق ہٹلران اطلاعات پر شدید غصے میں آ گئے۔
ان تمام غداریوں کے بعد ہٹلر نے کارل ڈونٹز کو اپنا جانشین چنا جو اگرچہ قیادت کے مرکز میں زیادہ عرصہ شامل نہیں رہے تھے تاہم اپنی جنگی وابستگی، نازی نظریات، اور ہٹلر سے وفاداری کے باعث انھیں خاص عزت حاصل تھی۔
بدنام مگر قابل
اگرچہ بہت سے لوگ ہٹلر کے اس انتخاب پر حیران تھے تاہم کارل ڈونٹز کوئی اجنبی شخصیت نہیں تھے۔
جرمن آبدوز فورس کو ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کرنے والے کارل 1942 اور 1943 میں ٹائم میگزین کے سرورق پر آ چکے تھے ۔
ٹائم میگزین کے دوسرے مضمون میں لکھا گیا کہ ’جو کام ایڈولف ہٹلر زمینی محاذ پر اتحادیوں کی یلغار روکنے کے لیے نہ کر سکا، وہ جرمن بحریہ کے کمانڈر انچیف گرینڈ ایڈمرل کارل ڈونٹز سمندر میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہ کوششیں انتہائی مؤثر ثابت ہوئیں جن کا اعتراف ونسٹن چرچل نے بھی جنگ کے بعد کیا۔ انھوں نے کہا کہ
’جنگ کے دوران صرف ایک چیز جس سے میں واقعی خوفزدہ تھا، وہ آبدوزوں کا خطرہ تھا۔‘
اور یہ خطرہ کارل ڈونٹز نے ہی پیدا کیا تھا۔
جنگ کے دوران چرچل کو آبدوزو کے حملے کے خوف نے پریشان رکھاچرچل کی آبدوزوں سے گہری دلچسپی پہلی عالمی جنگ کے دوران سامنے آئی۔ اس وقت وہ شاہی جرمن بحریہ (Imperial German Navy) میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
تاہم اُس جنگ میں ان کی کارکردگی زیادہ قابل ذکر نہ رہی۔
جنگ بندی سے چند ہفتے قبل، انھوں نے مالٹا کے قریب ایک برطانوی قافلے پر حملہ کیا لیکن خود انگلینڈ میں قیدی بن کر پہنچے جہاں انہوں نے پاگل پن کی اداکاری کیناکام کوشش کی۔
برسوں بعد انھوں نے نیورمبرگ جیل میں ایک ماہرِ نفسیات لیون گولڈن سون کو بتایا کہ ’مجھے پاگل پن یا اس کی نقل کرنے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں اور میرے دو ساتھیوں نے سوچا کہ اگر ہمیں پاگل قرار دے دیا جائے تو یہ ہمیں فرار کی کوششوں میں مدد دے سکتا ہے۔‘
’ہم نے آبدوزوں کی نقل اتارنے کا فیصلہ کیا۔ ہم جھکے ہوئے سر کے ساتھ گھومتے، ’بزز، بزز‘ کی آواز نکالتے اور اصرار کرتے کہ ہم آبدوزیں ہیں۔ مگر برطانوی ڈاکٹر بہت چالاک تھے اس لیے ہمیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اور تنہائی نے ہماری ذہنی حالت کو فوراً ٹھیک کر دیا۔‘
لیکن جس چیز نے ان کی خواہش کو نہیں بدلا، وہ تھی دنیا کی سب سے بڑی آبدوز کے بیڑے کو مسلح کرنے کی آرزوچاہے اس کے لیے انھیں اورسائی معاہدے کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرنی پڑے جو جرمنی کو ایسی کشتیوں کا مالک بننے سے روکتا تھا۔
انھیں یقین تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں آبدوزوں نے جرمنی کو کامیابی دلائی تھی اور آئندہ کسی بھی جنگ میں وہی جیت کا ذریعہ بنیں گی۔
اسی لیے جب 1936 میں نازیوں نے انھیں پہلی آبدوز فلوٹیلا کا کمانڈر مقرر کیا تو اس سے پہلے ہی وہ جرمن آبدوز بیڑے کو ازسرنو تعمیر کرنے کی تیاری مکمل کر چکے تھے اور اس عمل کے تمام تکنیکی و عملی پہلوؤں پر عبور حاصل کر لیا تھا۔
وولف پیک
جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو جرمنی کے پاس 50 آبدوزیں تھیں، جن میں سے بیشتر قلیل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں تاہم جنگ کے اختتام تک کارل ڈونٹز کی حکمت عملی سے جرمن آبدوزیں دنیا کی سب سے جدید ترین آبدوزیں مانی جانے لگیں۔
کیونکہ فوجی دستوں اور سامان کی نقل و حمل کی کامیابی نہایت اہمیت کی حامل تھی اسی لیے سمندری راستوں کو نشانہ بنانا ایک زبردست ہتھیار سمجھا تھا۔
اس دوران متعدد آبی محاذ کھولے گئے اور چرچل نے جسے بحر اوقیانوس کی جنگ (Battle of the Atlantic) کا نام دیا، وہ جنگ کا سب سے طویل اورمسلسل فوجی معرکہ بن گیا۔
پیری سکوپ کے ذریعے 1942 میں ایک یو بوٹ سے تارپیڈو کے ٹکرانے کے بعد ڈوبنے والے ایک جہاز کا منظرجرمن بحریہ نے اتحادی افواج کے 3,500 سے زائد بحری جہاز ڈبو دیے جب کہ اس دوران ان کی تقریباً 784 آبدوزیں ضائع ہوئیں۔
یہ بڑی حد تک کارل ڈونٹز کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
انھوں نے ایک نئی جارحانہ حکمت عملی وضع کی جسے ’وولف پیک‘ (یعنی بھیڑیوں کا غول) کہا جاتا تھا، جس میں متعدد آبدوزیں ایک ساتھ اتحادی قافلوں کا شکار کر کے بحری محافظوں کو مغلوب کرتی تھیں۔
اس حکمتِ عملی کے تحت کئی آبدوزیں قافلے کے بیچ پر رات کے وقت حملہ کرتیں، ہر سمت ٹارپیڈو فائر کیا جاتا اور پھر تیزی سے وہاں سے ہٹ جاتیں۔
ایک اور طریقہ یہ تھا کہ جتھے کا سربراہ محافظوں کی توجہ ایک ہی جگہ مرکوز کرنے کے مقصد سے کسی ایک کشتی کو نشانہ بناتا جبکہ باقی آبدوزیں عموماً سطحِ آب پر تاریکی میں سفر کر کے غیر محفوظ تجارتی جہازوں پر حملہ کرتیں۔
یہ حملے تباہ کن تھے۔ یہ جنوری 1942 سے اگست 1942 تک جاری رہا جس میں 609 جہاز تباہ کیےگئے جبکہ اس کے بدلے میں ان کی صرف 22 آبدوزیں ضائع ہوئیں۔ اس دوران ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔
لیکن اصل بحران 1943 کے آغاز میں آیا۔
برطانیہ ایندھن کی شدید قلت کا شکار تھا اور جرمن آبدوزوں کی تعداد 47 سے بڑھ کر 200 ہو چکی تھی۔
تاہم لندن کے حق میں ایک موڑ آیا۔ جارحانہ انسدادِ آبدوز حکمت عملیاں، بہتر ہتھیار، ریڈار سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے طیارے اور وہ راز جو تین دہائیوں بعد منظرِ عام پر آیا، جرمن آبدوزوں کی تباہی میں شدت کا سبب بنے۔
کارل ڈونٹز نے مئی 1943 میں آبدوزوں کی کارروائیاں بند کر دیں۔
اسی سال جب حالات جرمنی کے خلاف ہو رہے تھے ایسے میں کارل ڈونٹز نے جرمن بحریہ کی کمان سنبھالی۔
ابھی تک وہ ہٹلر سے صرف کبھی کبھار ہی ملے تھے تاہم عہدہ سنبھالنے کے بعد اب وہ ماہانہ دو بار ملاقات کرنے لگے اور ہٹلر کی نظر میں ان کی عزت بڑھنے لگی۔
آخری دن
کارل ڈونٹز سیاسی طور پر پس منظر میں ہی رہے یہاں تک کے یکم مئی 1945 کو انھیں ایک ٹیلیگرام موصول ہوا جس کے بعد وہ تیسرے جرمنی کے آخری فیورر (لیڈر) نہیں بن گئے۔
انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’مجھے ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں یہ ذمے داری قبول کروں۔‘
’میں سمجھ گیا تھا کہ کسی بھی سپاہی کی زندگی کا سب سے تاریک لمحہ، یعنی ہتھیار ڈالنے کا وقت قریب ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ میرا نام ہمیشہ اس عمل کے ساتھ جُڑا رہے گا، اور نفرت اور تاریخ کو مسخ کرنے والے عناصر میری عزت پر دھبہ لگا سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن فرض نے ایسی باتوں پر توجہ دینے سے روکے رکھا۔ میری پالیسی سادہ تھی کہ جتنی زیادہ زندگیاں بچا سکتا ہوں، بچاؤں۔‘
اخبار کی سرخی کے مطابق عالمی پریس نے ہٹلر کی موت کی اطلاع دی اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتے ہیں کہ انھیں یقین تھا کہ ہٹلر نے ا نھیں ایک فوجی افسر کے طور پر جنگ ختم کرنے کے لیے منتخب کیا اور اسی بنا پر انھوں نے ہتھیار ڈالنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا۔
انکا اصل مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ جرمن فوجی سوویت افواج کی بجائے مغربی اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈال سکیں کیونکہ سوویت یونین کے جنگی قیدیوں کے ساتھ بدترین سلوک کا خدشہ تھا۔
مئی کے پہلے ہفتے میں 18 لاکھ فوجیوں کو سوویت کنٹرول سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔
سات مئی 1945 کی صبح ایک جرمن وفد نے کارل ڈونٹز کے حکم پر ریمس فرانس میں جنرل آئزن ہاور کے ہیڈکوارٹر میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کیے۔ سوویت رہنما جوزف سٹالن نے ایک اور تقریب برلن میں منعقد کرنے پر زور دیا جو نومئی کی صبح ہوئی۔
23 مئی کو کارل ڈونٹرز اتحادی افواج نے گرفتار کر لیا۔
حماقت پر مبنی مقدمے کی نوعیت
جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں نازی قیادت کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے تھے۔ اس دوران کارل ڈونٹز نے نتیجہ نکالا کہ ہٹلر نے انھیں صرف اس لیے جانشین مقرر کیا کیونکہ وہ واحد زندہ رہنما تھے جو نہ قید میں تھے نہ موت کے حکم کا شکار۔
انھوں نے کہا کہ ’یقیناً فوجی رہنما اب بھی سرگرم تھے، لیکن بحریہ اور فضائیہ ان کی بات نہیں سنتے تھے۔ لہٰذا مجھے اس لیے چُنا گیا کہ انھیں لگا کہ میں امن قائم کر سکتا ہوں۔‘
انھوں نے نیورمبرگ میں قید کے دوران گولڈن سون کو بتایا کہ ’اس مقدمے کی سب سے بڑی حماقت یہ ہے کہ ان دو افراد کو شامل نہیں کیا گیا جو سب سے زیادہ مجرم ہیں یعنی ہٹلر اور ہیملر۔‘
مقدمے کے دوران جسے وہ مضحکہ خیز سمجھتے تھے، ڈونٹز کو احساس ہوا کہ انھوں جو کچھ کیا وہ ان کے محبوب ہٹلر کی خواہش کے برعکس تھا۔
انھیں یقین تھا کہ ہٹلر امن کے لیے مذاکرات چاہتے تھے تاہم 1945-46 میں نیورمبرگ میں انھیں ہٹلر کے سیاسی وصیت نامے کے مندرجات معلوم ہوئے۔
اس وصیت میں ہٹلر نے جرمنوں سے کہا تھا،
’کسی بھی صورت جنگ ختم نہ کی جائےبلکہ دشمن چاہے وہ کہیں بھی ہوں ان کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے۔‘
حقیقت میں وہ پیراگراف جس کے بعد کارل ڈونٹز کو جانشین نامزد کیا گیا وہ کچھ یوں تھا،
’جرمن قوم کو ایک باعزت حکومت دی جا سکے، جو اپنی وعدے کے مطابق ہر ممکن طریقے سے جنگ جاری رکھے اس لیے میں درج ذیل افراد کو نئی کابینہ کے قائد کے طور پر نامزد کرتا ہوں۔۔۔‘
ڈونٹز کے مطابقنیورمبرگ میں مقدمے کی سماعت کے دوران انھیں اپنے محبوب لیڈرکی خواہشات کو پورا نہ کرنے کا احساس ہواڈونٹز نے اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی سیاستدان نہیں رہے بلکہ وہ صرف ایک وفادار فوجی افسر تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں یہودیوں کے قتل عام (ہولوکاسٹ) کی ہولناکیوں کا علم نہیں تھا حالانکہ بعد میں انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ 1934 سے ہی حراستی کیمپوں کے وجود سے واقف تھے۔
انھیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی جو بری نہ کیے جانے والوں میں سب سے ہلکی سزا تھی ۔ یہ فیصلہ عدالت کے سب سے متنازع فیصلوں میں شمار ہوتا ہے۔
آزادی
کارل ڈونٹز نے اپنی باقی زندگی تک نازی نظریات سے ناطہ نہیں توڑا۔ برلن کی سپانڈاؤ جیل سے رہائی سے قبل ہی انھوں نے 1954 میں مغربی جرمنی کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا مگر بری طرح ناکام رہے۔
وہ 1956 میں رہا ہوئے اور ایک سرکاری پنشن کے ساتھ مغربی جرمنی کے چھوٹے سے قصبے آؤمیولے میں ریٹائر منٹ کی زندگی گزارنے لگے۔ انھوں نے دو یادداشتیں لکھیں اور جنگ پر مبنی چند دستاویزی فلموں کے لیے انٹرویوز دیے۔
اپنی وفات سے چھ سال قبل 1980 میں جب وہ 89 برس کے تھے، انھیں علم ہوا کہ جنگ کے دوران جس چیز کا انھیں شبہ تھا، وہ درست نکلی۔
جب 1943 میں انکی آبدوزیں مسلسل تباہ ہونے لگیں، تو انھیں گمان ہوا کہ شاید نازیوں کی مشہور انیگما مشین کا کوڈ توڑ دیا گیا ہے۔
لیکن انھوں نے یہ خیال رد کر دیا کیونکہ اس مشین کے 150 ارب سے زائد کمبینیشنز تھے، جو جرمن افواج خصوصاً آبدوز بیڑے کی خفیہ مواصلات کو ناقابلِ فہم بناتے تھے۔
لیکن 1974 میں انکشاف ہوا کہ برطانوی ماہرین کی ایک ٹیم نے واقعی اس کو توڑنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔
یہ انکشاف اُس جنگ کی تاریخ بدلنے والا تھا جسے کارل ڈونٹز نے خود دیکھا تھا۔
انھوں نے کہا:
’اب مورخین کو ابتدا سے تاریخ دوبارہ لکھنی پڑے گی۔‘