مقبرہ، مندر یا جنت کا راستہ: قدیم مصریوں کا وہ مقدس راز جو اہرام کی تعمیر کی وجہ بنا

مصریوں نے بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اہرام کی شکل کا سہارا کیوں لیا؟ ان بڑے پتھروں کے بلاکس کی تعمیر کی مذہبی اور فلسفیانہ اہمیت کیا ہے؟ کیا اہرام کو صرف مقبروں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا؟ اور کیا اہرام کی تعمیر ’مزدوروں کے استحصال اور تشدد‘ کے ذریعے کی گئی تھی؟
گیزا کے اہرام
Getty Images
گیزا کے اہرام

قدیم مصر میں اہرام کی تعمیر کوئی بے ترتیب، بے معنی عمل نہیں تھا اور نہ ہی بادشاہوں کی شان کے لیے پتھروں کے بڑے مقبرے تعمیر کیے جاتے تھے۔

موت کے بعد ابدی زندگی کے خیال کو قدیم مصری فکر میں نمایاں اہمیت حاصل تھی اور یہ ان کی بہت سی دنیاوی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ اہرام ان کے لیے روحانی مندروں کی حیثیت رکھتے تھے جنھیں وہ قیامت اور مرنے کے بعد دیوتاؤں کے ساتھ اتحاد کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔

قدیم مصری زمین پر رہتے ہوئے اپنی ابدی زندگی کی ضمانت کے لیے ہر ممکن چیز جمع کرنے کے خواہشمند تھے۔ ان کے خیال میں بادشاہ کے لیے ایک قلعہ بند اہرام مقبرے کی تعمیرموت بعد کی زندگی میں اس کے سفر کو جاری رکھنے کی ایک ابدی ضمانت ہے۔

مصریوں نے اہرام کیوں تعمیر کیے اس سوال نے صدیوں سے لوگوں کو الجھائے رکھا ہے۔ اکثر لوگ اس جواب کی کھوج میں منطق سے ہٹ جاتے ہیں۔ انھوں نے اہرام مصر کے تعمیراتی طریقہ کار اور تعمیر کی وجہ کے بارے میں دلچسپ کہانیاں اور افسانے بُن لیے ہیں۔

اس مضمون میں ہم جن سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے ان میں: مصریوں نے بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اہرام کی شکل کا سہارا کیوں لیا؟ ان بڑے پتھروں کے بلاکس کی تعمیر کی مذہبی اور فلسفیانہ اہمیت کیا ہے؟ کیا اہرام کو صرف مقبروں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا؟ اور کیا اہرام کی تعمیر ’مزدوروں کے استحصال اور تشدد‘ کے ذریعے کی گئی تھی؟

مصر کے بادشاہ اہرام کی شکل کے مقبرے کیوں بناتے تھے؟

چوتھے خاندان کے بادشاہ خفرے کے اہرام کا ایک فضائی منظر (2437-2414 قبل مسیح)
Getty Images
چوتھے خاندان کے بادشاہ خفرے کے اہرام کا ایک فضائی منظر (2437-2414 قبل مسیح)

ایک سوال جو ہمیشہ پوچھا جاتا رہا ہے کہ قدیم مصر کے بادشاہ اپنے مقبروں کو اہرام کی شکل میں کیوں بنانا چاہتے تھے؟

اس کا جواب ہے کہ وہ اس مخصوص تعمیراتی شکل کو سورج کے متعلق اپنے عقیدے کے اظہار کے طور پر دیکھتے تھے جو قدیم مصر میں مذہبی عقیدے کا مرکزی جزو تھا۔

قدیم مصری اہرام خاص طور پر اس کی چوٹی (جسے قدیم مصری زبان میں ’بینبین‘ کہا جاتا تھا) کو سورج کی شعاعوں کے زمین پڑنے کے مجسم شکل کے طور دیکھتے تھے۔ اس ہی لیے وہ اپنے بادشاہوں کو ایسے مقبروں میں دفن کرنا چاہتے تھے جن کی شکل سورج کی کرنوں کی طرح ہو تاکہ جب وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں تو وہ جنت میں جا سکیں۔

قدیم بادشاہت (3150-2117 قبل مسیح) کے دوران، مصر کے بادشاہ کو ’دیوتا‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس دور کی اہرام جیسی عمارتوں کی ترتیب اور تقسیم دیوتا را (سورج دیوتا) اور بادشاہ کے قریبی تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

مراكب الشمس الخشبية التي عُثر عليها بجانب هرم خوفو
Getty Images
خوفو (2470-2447 قبل مسیح) کے اہرام کے پاس لکڑی کی سورج کی کشتیاں پائی گئیں۔

ایسا لگتا ہے کہ چوتھے خاندان (2520-2392 قبل مسیح) کے دور تک اہرام کو سورج کے متعلق عقیدے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔

اسکندر بداوی اپنی کتاب ’قدیم مصر میں فن تعمیر کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ مشرق وسطی میں (2066-1781 قبل مسیح) کے دوران مقبروں کی اوپری عمارتوں نے اہرام کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان کا اوپری حصہ اہرام کی شکل کا ہوتا تھا جس پر دو آنکھوں کی شکل کندہ ہوتی تھی اور ساتھ میں تحریر درج ہوتی تھی جس میں مرنے والے کو اٹھ کر افق کے رب (سورج) کو دیکھنے کا حکم ہوتا تھا۔

بداوی کے مطابق، مقبرے کے مختلف عناصر میں سورج کا اثر دیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ اہرام کے جنازے کے مندر اور اس جگہ سے دریافت ہونے والی تدفین کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی کی کشتیوں میں۔

ابدی زندگی کے سفر کا ذریعہ

الهرم الأحمر في منطقة دهشور
Getty Images
پہلی مرتبہ بادشاہ سنیفیرو کے انجینئروں نے دہشور کے علاقے میں مقبرے کو ایک مکمل اہرام کی شکل میں لانے میں کامیابی حاصل کی جسے سرخ اہرام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

قدیم مصری زبان میں اہرام کو ’میر‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب اوپر کی طرف جانے والی جگہ ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے جو ان کے اس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے کہ اہرام ’بادشاہ کی روح کے آسمان پر پہنچنے اور دیوتا را کے ساتھ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔‘

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لفظ ’اہرام‘ ایک قدیم سامی لفظ ہے جس کا مطلب ایک جیومیٹرک شکل ہے جس کی چار سائیڈز ہوتی ہیں اور جو اوپر کی جانب جا کر ایک مرکزی نقطہ پر ملتی ہیں۔

اہرام جس شکل میں موجود ہیں اس تک پہنچنے کے لیے قدیم مصری بہت سے تجربات اور کوششوں سے گزرے۔

اہرام کی تعمیر کے ابتدائی اشارے پہلے شاہی خاندان (3150-2890 قبل مسیح) کے دور میں پتھر کی ایک پرانی عمارت جسے ’مستبہ‘ کہا جاتا ہے سے ملتے ہیں۔ اس کے نچلے کونے چوڑے جبکہ اوپر جاتے جاتے یہ عمارت تنگ ہوتی جاتی ہے۔

قدیم مصر کے معمار پہلی مرتبہ اہرام کی شکل کا مقبرہ بادشاہ سنیفیرو (چوتھے خاندان کا پہلا بادشاہ، 2520-2470 قبل مسیح) کے دور میں بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بادشاہ سنیفیرو کے انجینیئرز کے بنائے گئے مقبرے کو سرخ اہرام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں اہرام ’ابدی سفر کا راستہ‘ اور بادشاہ کے لیے آسمان پر پہنچنے کا ایک ذریعہ تھا۔ مصریوں کا ماننا تھا کہ موت زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک اور زندگی کا آغاز اور روح کے لیے ابدیت کی دنیا تک کا سفر ہے۔

اہرام کو ایک ’جنت تک پہنچنے کی سیڑھی‘ سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات تیسرے خاندان کے پہلے بادشاہ جوسر (2584-2565 قبل مسیح) کے اہرام کی طرزِ تعمیر سے واضح ہے جسے ایک سیڑھی کی طرح تعمیر کیا گیا ہے۔

الهرم المدرج في سقارة
Getty Images
تیسرے خاندان کے بادشاہ گیسر کا سٹیپ اہرام اور سقرہ میں اس کا جنازہ گاہ

اہرام کی تعمیر کے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ یہ مقبرہ مرحوم بادشاہ کے جسم کو محفوظ رکھ سکے تاکہ اس کی روح محفوظ رہے اور ابدی زندگی میں اس کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس کی ایک وجہ مصری عقیدے میں جسم کو دی جانے والی اہمیت تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ انسانی جسم کئی عناصر پر مشتمل ہے، جن میں سب سے نمایاں اور نظر آنے والا پہلو جسم اور ’با‘ (روح) ہے جو روحانی دنیا میں انسان کی شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ’با‘ (روح) کو ہمیشہ ایک پرندے کی شکل میں دکھایا جاتا تھا جس کا سر انسان کا ہوتا تھا۔ ’با‘ وقتاً فوقتاً اپنے جسم کو دیکھنے کے لیے آتا ہے۔

انسانی جسم میں تیسرا عنصر ’کا‘ (ہمزاد) ہے۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ یہ ایک مادی روح ہے جو انسان کے ساتھ پیدا ہوتی اور اپنے مالک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ قدیم مصری عقیدے کے مطابق ’کا‘ جسم کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ ’با‘ واپس نہ آجائے اور ان کا ملاپ نہ ہو جائے۔ اس کے بعد مرنے والا اگر یومِ حساب کی آزمائش میں کامیاب ہو جائے تو دائمی نعمتوں کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے جسے یارو کے میدان کہا جاتا ہے۔ اس امتحان میں ناکامی کی صورت میں اسے ابدی سزا ہو جاتی ہے۔

رسم مقطعي يبين التنظيم المعماري لغرف الدفن داخل هرم الملك خوفو
Getty Images
سیکشنل ڈرائنگ جس میں تدفین کے کمرے کے تعمیراتی انتظام کو دکھایا گیا ہے جس کا مقصد چوتھے خاندان کے بادشاہ خوفو (2470-2447 قبل مسیح) کے اہرام کے اندر متوفی بادشاہ کی لاش کو احتیاط سے محفوظ کرنا ہے۔

مصریوں کا خیال تھا کہ روح اور اس کا ہمزاد ایک محفوظ اور برقرار جسم کے بغیر ابدیت کی طرف اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا، اہرام ایسے ڈیزائن کیے جاتے تھے کہ بادشاہوں کی ممیوں کی مقبروں کے لٹیروں اور قدرتی عناصر سے حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے اہرام میں پیچیدہ تدفین کے کمرے اور خفیہ حصے تعمیر کیے جاتے۔

مصری ان تدفین کے حجروں میں بادشاہ کی زمینی زندگی میں استعمال ہونے والے اوزاروں اور فرنیچر کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا رکھتے تاکہ جسم اور اس کے ’کا‘ کو ابدی زندگی کے لیے اس ماحول میں محفوظ رکھا جا سکے جس کے وہ زمین پر رہنے کے عادی تھے۔

اہرام کی تعمیر کو کائنات کی تخلیق کے نظریہ سے بھی جوڑا جاتا جسے ’ابدی پہاڑی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

قدیم مصریوں کے عقیدے کے تحت دنیا کی تخلیق سے پہلے جب کوئی انسان یا جاندار نہیں تھے تو پانی کا ایک سمندر تھا۔ اس سمندر کو’نون‘ کہا جاتا تھا اور اس کے اندر’ابدی پہاڑی‘ موجود تھی۔

سورج دیوتا را نے خود کو تخلیق کرنے کے بعد اس ’ابدی پہاڑی‘ سےپوری دنیا کو تخلیق کیا۔ لہذا، اہرام کو اس مقدس پہاڑی کی علامتی نمائندگی سمجھا جاتا تھا۔

ہمیشہ رہنے والا فنِ تعمیر

الهرم منكسر الأضلاع من عهد الملك سنفرو في دهشور
Getty Images
الهرم منكسر الأضلاع من عهد الملك سنفرو في دهشور من عصر الأسرة الثالثة (2584-2117 قبل الميلاد)

ابتدائی شاہی خاندانوں کے بادشاہوں نے اپنے مقبرے زمین کی سطح سے اوپر مستطیل شکل میں بنائے تھے جو مٹی کی اینٹوں سے بنے تھے۔ انھیں ’مستبہ‘ کہا جاتا تھا۔

شاہی مقبرہ بنانے کا رواج پرانی بادشاہت کے دوران شروع ہوا۔ سقرہ میں جیسر اور سیکھم کیت کے دور حکومت میں سیڑھیوں کے شکل کے اہرام بنانے کا آغاز ہوا اس کے بعد ہنی کے دور حکومت کے دوران دو منزلہ اہرام بنائے گئے۔ دہشور میں سنیفیرو کے دور میں ایسے اہرام بنائے گئے جو دور سے ایک جانب سے ٹوٹے ہوئے دکھتے اور سنیفیرو کے ہی دور میں مکمل اہرام تعمیر کیے گئے۔

شاہی مقبروں کی فنِ تعمیر میں آنے والی فنکارانہ ترقی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ’مقامی اور مصری‘ تھے نہ کہ کسی غیر ملکی سوچ سے متاثر ہو کر بنائے گئے تھے۔

اس سے ان دعووں کی تردید ہوتی ہے کہ یہ اہرام کسی ایسی تہذیب کے لوگوں نے تعمیر کیے تھے جن کا براعظم بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا ہے۔

قدیم مصری فن تعمیر کا پہلا معروف معمار انجینئر اور وزیر امہوٹیپ (تیسرے شاہی خاندان 2584-2520 قبل مسیح) ہے جس نے سقرہ میں بادشاہ جیسر کا قدیم اہرام تعمیر کروایا تھا۔ امہوٹیپ کو اہرام کی تعمیر کے لیے اینٹوں اور لکڑی کے بجائے پتھر کے استعمال کو شروع کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امہوٹیپ نے اس کام کے لیے بڑی تعداد میں مزدوروں کو ملازم رکھا، جنھیں کھانا، پینا، لباس، رہائش فراہم کی جاتی اور ان کی ضروری دیکھ بھال بھی کی جاتی۔

تیسرے خاندان کے بادشاہ گیسر کا سقرہ میں سٹیپ اہرام
Getty Images
تیسرے خاندان کے بادشاہ گیسر کا سقرہ میں سٹیپ اہرام (حکومت 2584-2565 قبل مسیح)

’قدیم مصری تاریخ‘ کے مطالعے پر رمضان عبدو لکھتے ہیں کہ امہوٹیپ بظاہر مذہبی نظریات سے متاثر تھا اسی لیے اس نے ایک ایسا اہرام تعمیر کیا جو شاید سورج کے مندر اور آسمانی دائرے کی طرف بادشاہ کے چڑھنے کی عکاسی کرتا تھا۔

ابتدائی دور میں شاہی مقبرے کسی بھی طرز کی تحریر سے مبرا ہوتے تھے۔ پانچویں خاندان (2392-2282 قبل مسیح) سے تدفین کے حجروں اور ملحقہ راستوں کی دیواروں پر نوشتہ کندہ کیے جانے لگے تاکہ متوفی بادشاہ کو اس کے آخری سفر میں مدد فراہم کی جا سکے۔

بادشاہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ ان کے اہرام ان کی اس دنیا کی زندگی سے مطابقت رکھے۔ اسی لیے بادشاہوں کے اہرام اور رانیوں کے چھوٹے اہرام صحرا کے کنارے پر مغرب کے رخ پر قطاروں میں بنے ہوئے ہیں۔

ان کی ایسی ترتیب اس لیے رکھی گئی تھی تاکہ بادشاہ کا وفد مرنے کے بعد اپنے بادشاہ اور سرپرست سے الگ نہ ہو۔

صورة بالقمر الصناعي لأهرامات الجيزة
Getty Images
گیزا اہرام کمپلیکس کی سیٹلائٹ تصویر

کیا بادشاہوں نے مزدوروں کو غلام بنا کر اور اذیتیں دے کر اپنے اہرام بنوائے تھے؟

گیزا اہرام کمپلیکس کا ایک فضائی منظر
Getty Images
گیزا اہرام کمپلیکس کا ایک فضائی منظر

کچھ مغربی سکالرز نے طویل عرصے سے اس دعوے کو فروغ دیا ہے کہ مصر کے اہرام ’غلاموں‘ نے بنائے تھے جس سے تاریخ کے سب سے بڑے تعمیراتی معجزے کی تعمیر میں ’استحصال اور جبر‘ کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔ تاہم، حالیہ آثار قدیمہ کی دریافتیں ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہیں۔

گیزا اور دیر المدینہ جیسی تعمیراتی جگہوں سے ملنے والے شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اہرام کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور ریاستی غلام نہیں بلکہ ہنر مند مزدور تھے جو مخصوص رہائش گاہوں میں رہتے تھے اور نہ صرف ان کی خوراک اور صحت بلکہ ان کے آرام کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کچھ نوشتہ جات میں کام کرنے والی ٹیموں اور ان کے رہنماؤں کے نام بھی ملتے ہیں جنھیں موت کے بعد اعزازات سے نوازا گیا۔

یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس اور دیگر یونانی مسافروں نے سب سے پہلے یہ دعوے کیے تھے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں حصہ لینے والے مزدوروں سے ’جبری مشقت اور غیر انسانی سلوک‘ کیا گیا۔

اپنی کتاب ’قدیم مصر کی تاریخ‘ میں فرانسیسی سکالر نکولس گرمل نے ہیروڈوٹس کے کچھ دعوے پیش کیے ہیں۔ ہیروڈوٹس کا کہنا تھا کہ مصری بادشاہ خوفو نے تمام مندروں کو بند کر کے مصریوں پر وہاں نذرانے پیش کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے انھیں کام کرنے پر مجبور کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر تین ماہ میں ایک نیا گروپ اہرام کی تعمیر پر کام کرتا اور ہر گروپ میں ایک لاکھ مزدور ہوتے۔ اس اہرام کی تعمیر میں 20 سال لگے۔

تاہم گریمل کا کہنا ہے کہ ہیروڈوٹس کے بیان کے مطابق اہرام کی تعمیر پر کام کرنے والوں کی کثیر تعداد کسانوں پر مبنی تھی جو سیلاب کے موسم اور دریائے نیل میں پانی کی سطح میں اضافے کے وقت تعمیراتی کام میں حصہ لیتے تھے۔

خوفو کے اہرام کا فضائی منظر
Getty Images
خوفو کے اہرام کا فضائی منظر

یہ بات قابل غور ہے کہ اُس زمانے میں مصر بنیادی طور پر ایک زرعی ملک تھا۔ زرعی زمین زیادہ تر بادشاہ اور مندر کے پجاریوں کی ملکیت تھی۔ تاہم، بہت سے کسانوں کے پاس اپنی زمینیں تھیں جن کی زندگیاں اپنی زمین سے ہونے والی پیداوار پر منحصر تھی۔ یہ کسان دریائے نیل کے سیلاب کے رحم و کرم پر تھے۔

قدیم مصری اپنی زندگی کے ہر پہلو میں روحانی اور مذہبی محرکات کو مدِ نظر رکھتے تھے۔ جو لوگ اس خیال کو فروغ دیتے ہیں کہ بادشاہوں نے اپنے مقبروں اور یادگاروں کی تعمیر کے لیے جبری مشقت کا استعمال کیا وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قدیم مصر کے لوگوں کے انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر تمام رویوں کے پیچھے یہی روحانی محرکات کارفرما تھے۔

پروفیسر عبدالمنعم عبد الحلیم سید اسکندریہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس میں قدیم تاریخ کے پروفیسراور ’فرعونی مصر کی تاریخ اور تہذیب کے خلاف صیہونی غلط فہمیاں اور تہمتیں: آثار قدیمہ کے شواہد پر مبنی ایک ردعمل اور تردید‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔

پروفیسر سید کہتے ہیں قدیم مصریوں کو اس بات پر یقین تھا کہ موت کے بعد وہ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے اور ان کی یہ زندگی موت سے پہلے کی زندگی سے بالکل مماثل ہوگی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس عقیدے کا ایک اہم ستون یہ تھا کہ جو فرعون اس دنیاوی زندگی میں ان کا بادشاہ رہا وہی قیامت کے بعد آخرت میں بھی ان کا فرعون ہوگا۔

پروفیسر سید کے مطابق اس ہی لیے وہ لوگ فرعون کے مقبرے کی تعمیر میں پیش پیش رہتے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ان کی خدمت کے عوض موت کے بعد کی زندگی میں ان کا بادشاہ ان پر مہربان ہوگا۔

’اس لیے، جب مصری مزدور بھاری بھرکم پتھروں کے ٹکڑے اٹھاتے تو ان کا خیال تھا کہ یہ کام موت کے بعد ان کی خوشگوار زندگی کی ضمانت دے گا۔‘

اہرام کمپلیکس
Getty Images
2414-2396 قبل مسیح کے دوران حکومت کرنے والے چوتھے شاہی خاندان کے ایک اہرام کمپلیکس کی تصویر

فرانسیسی محقق لالوئٹ بھی اس نظریے سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق یونانیوں کے دعوؤں اور ہالی وڈ کی فلموں میں کی جانے والی تصویر کشی کے برعکس ان تعمیرات کے لیے غلاموں کے گروہوں کا استعمال نہیں کیا گیا جنھیں کوڑوں سے مارا جاتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اہرام تعمیر کرنے والے کارکنان خصوصی طور پر مصری تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کسان تھے جنھیں فوجیوں کے ساتھ بھرتی کیا گیا تھا۔‘

لالوئٹ نے دعویٰ کیا کہ اہرام کی تعمیر پر کام کرنے والے اپنے بادشاہ کی ابدیت کو محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہے تھے اور وہ اپنے کام کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔

صورة جوية لهرم الملك(خع-ف-رع)
Getty Images
چوتھےشاہی خاندان کے بادشاہ خفرے کے اہرام کا ایک فضائی منظر

مصری سکالر زاہی ہواس اپنی کتاب ’عظیم اہرام کا معجزہ‘ میں لکھتے ہیں کہ اہرام ’مصر کا قومی منصوبہ تھا، جس میں سب نے حصہ لیا کیونکہ بادشاہ کے دیوتا ہونے کے ناطے لوگوں کے لیے اس میں حصہ لینا ضروری تھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں ’اہرام بنانے والوں کے مقبروں کی دریافت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انھیں اہرام بنانے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے مقبرے اہرام کے ساتھ بنائے اور ان کے اندر بادشاہوں، شہزادوں اور حکام کی طرح ایسی چیزیں بھی رکھیں جو انھیں آخرت میں زندہ رہنے میں مدد فراہم کریں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پتھر منتقل کرنے والے مزدوروں کو قومی مذہبی منصوبے کی تکمیل میں حصہ لینے کے لیے بالائی اور زیریں مصر میں پھیلے ہوئے خاندان قومی فریضے کے طور پر انھیں ادائیگیاں کرتے تھے جبکہ فورمین، فنکار اور مجسمہ ساز بادشاہ کے لیے کام کرتے تھے اور انھیں ریاست کی طرف سے ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ ان کی اجرت جو، گندم اور شراب پر مشتمل ہوتی تھی۔

اہرام
Getty Images

الاحرام اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زاہی ہواس کا کہنا تھا کہ اب تک جو شواہد ملے ہیں اس کی بنیاد پر، ہم سمجھتے ہیں کہ اہرام کی تعمیر میں تقریباً 10,000 مزدور دن بھر کام کرتے اور ضرورت کے مطابق انھیں تبدیل کر دیا جاتا۔

ان کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کے سیلاب کے دوران مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا کیونکہ زرعی زمینیں ڈوب گئیں تھیں اور کسانوں کے پاس کام نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ اہرام کی تعمیر میں شامل ہوئے۔

بالائی اور زیریں مصر کے خاندانوں مزدوروں کی مدد کے لیے روزانہ 11 بچھڑے اور 23 بھیڑیں بھیجتے تھے جب کہ ریاست بدلے میں ان سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتی تھی۔

گیزا سطح مرتفع پر اہرام بنانے والوں کے مقبروں کی دریافت ان تمام دعووں کی تردید کرتی ہے کہ مزدوروں سے جبری مشقت کروائی جاتی تھی۔ مزدوروں کے مقبرے گیزا کے شاہی اہرام کمپلیکس کے بالکل ساتھ واقع ہیں، جس کی وجہ سے کچھ سکالرز کا خیال ہے کہ بادشاہ نے اپنے کارکنوں کو ان وفاداری کی بنا پر بغیر کسی طبقاتی امتیاز کے اپنے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔

مصر کہ اہرام
Getty Images

رمضان عبدو علی اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ایک بیکری ملی جہاں ان مقبروں کے انچارج روٹی تیار کرتے اور لہسن اور پیاز کے ساتھ مزدوروں میں تقسیم کرتے۔ مزدوروں کو کھانا پیش کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے برتن بھی ملے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا ان قبروں کے مشرق میں، دو گاؤں کی باقیات ملی ہیں۔ ’ایک میں مزدور آباد تھے اور دوسرا فنکاروں اور نگرانوں کا تھا۔‘

یہ بات اچھی طرح ثابت ہو چکی ہے کہ اہرام کی تعمیر کے لیے ذمہ دار اتھارٹی ہر تین ماہ بعد مزدوروں کو تبدیل کر دیتی تاکہ کاشتکاری کے ان کے بنیادی کام میں خلل نہ پڑے۔

ایسے بھی شواہد ملے ہیں جو اس بات کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ تعمیراتی کاموں کے دوران مزدوروں کو آنے والی چوٹوں کا علاج کیا جاتا حتیٰ کہ جن مزدوروں کو جراحی کی ضرورت پڑتی ان کی سرجری بھی کی جاتی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست نے ان مزدوروں کے صحت کی دیکھ بھال کا ایک جامع نظام فراہم کیا تھا۔

مصریوں نے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اپنے بادشاہوں کی ابدی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے اہرام بنائے۔ ان کے لیے یہ محض شہر کی حدود سے باہر صحرا کے قلب میں کھڑی بڑی بڑی عمارتیں نہیں تھیں بلکہ، وہ ایک تہذیبی وژن اور گہرے مذہبی نقطہ نظر کی عکاس ہیں۔

یہ اہرام بیک وقت ایک مقبرہ، ایک مندر، ایک علامت اور جنت کا راستہ تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.