کراچی کی مشہور موبائل مارکیٹس جیسے صدر، قائد آباد، طارق روڈ اور صفورا گوٹھ میں سستے داموں نئے سمارٹ فونز کے بینرز اور ڈبہ پیک فونز کی فروخت کی گونج معمول کی بات ہے، مگر ان میں سے کئی فونز یا تو جعلی ہوتے ہیں یا کمپنیوں کے بند شدہ ماڈلز جنہیں دوبارہ پیک کر کے نئے کے طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد منہاج گلفہام نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کی نشاندہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں شہریوں کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے کہ انہیں جعلی یا ناقابل اعتبار موبائل فونز فروخت کیے گئے۔
یہ موبائل فونز عام طور پر پرانے، ری کنڈیشن یا پیچ فونز ہوتے ہیں، جنہیں نیا ظاہر کر کے بیچا جاتا ہے۔ خریدار کو اصل ماڈل اور وارنٹی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا اور 10 سے 20 دن میں ان کا موبائل پی ٹی اے سے بلاک ہو جاتا ہے۔پیچ فون کیا ہے؟پیچ فون دراصل ایسے موبائل ہوتے ہیں جو پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی سے منظور شدہ فون نہیں ہوتے، بلکہ ان میں مختلف آئی ایم ای آئی استعمال کر کے ایک نیا فون بنایا جاتا ہے۔ یہ فون دیکھنے میں بالکل اصلی لگتے ہیں، ان کی پیکنگ بھی برانڈڈ ہوتی ہے، مگر اندر سے یہ اصل حالت میں نہیں ہوتے ہیں۔ایسے فونز کی قیمت نسبتاً کم رکھی جاتی ہے تاکہ خریدار کو سستا فون خریدنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ کچھ پیچ فونز مکمل طور پر بند ہو چکے ماڈلز جیسے ویوو ایس 1 یا اوپو کے کچھ ماڈلرز کے نام پر فروخت کیے جا رہے ہیں جو دراصل اب کمپنیوں نے بنانے بند کر دیے ہیں۔محمد زوہیب نامی شہری کا واقع بھی اسی طرز کا ہے، جو اپنے پرانے فون کی سکرین مرمت کرانے صدر کی مارکیٹ آئے تھے۔ دکاندار نے انہیں مشورہ دیا کہ مرمت کی جگہ نیا فون لے لیں، جو ’ڈبہ پیک‘ ہے۔ زوہیب نے کچھ اضافی رقم دے کر فون خرید لیا۔ مگر صرف ایک دن بعد فون پی ٹی اے سے بلاک ہو گیا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ وہ پیچ فون تھا۔ اس ماڈل کے فون کمپنی نے نئے بنانے بند کر دیے ہیں۔
پیچ فون دراصل ایسے موبائل ہوتے ہیں جو پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی سے منظور شدہ فون نہیں ہوتے۔ (فائل فوٹو: ٹیک ٹائمز)
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کی مداخلت کے بعد دکاندار نے پیسے واپس کیے، تاہم زوہیب جیسے کئی افراد ایسے فراڈ کا نشانہ بنتے ہیں اور اکثر شکایت نہیں کر پاتے۔
موبائل کٹس کا کاروبارمنہاج گلفہام کے مطابق ’مارکیٹ میں موجود موبائل کٹس کا کاروبار بھی اسی طرح کے فراڈ کا حصہ ہے۔ موبائل کٹ وہ فون ہوتے ہیں جو ڈیوٹی ادا کیے بغیر پاکستان میں لائے جاتے ہیں، ان کی نہ وارنٹی ہوتی ہے نہ ہی کوئی تصدیق یہ فیک آئی ایم ای آئی نمبر پر فون چلائے جاتے ہیں۔‘’یہ کٹس بیرون ممالک سے سمگل شدہ حالت میں آتی ہیں اور پاکستان میں مقامی سطح پر ان میں نئے آئی ایم ای آئی نمبر لگا کر نئے فون کے طور پر مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک منظم دھندہ ہے، جس میں کچھ دکاندار جعلی آئی ایم ای آئی نمبر جعلی وارنٹی کارڈ اور جعلی پیکنگ استعمال کر کے خریدار کو مکمل دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسا فون عموماً کچھ دن بعد ہی خراب ہو جاتا ہے یا بلاک ہو جاتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایسوسی ایشن ایسے عناصر کے خلاف متحرک ہے اور شکایت موصول ہونے پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ تاہم حکومت، خاص طور پر پی ٹی اے اور ایف بی آر کو بھی اس معاملے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
منہاج گلفہام کے مطابق ’مارکیٹ میں موجود موبائل کٹس کا کاروبار بھی اسی طرح کے فراڈ کا حصہ ہے۔‘ (فائل فوٹو: عرب نیوز)
کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر نے مزید کہا کہ ’ہم نے متعدد بار تجویز دی ہے کہ مارکیٹ میں کام کرنے والے ہر دکاندار کو رجسٹرڈ کیا جائے اور ان کے سسٹم کو آن لائن وارنٹی چیک اور رجسٹریشن سے منسلک کیا جائے تاکہ دھوکہ دہی روکی جا سکے۔‘
خریداروں کے لیے احتیاطی تدابیرماہرین کا مشورہ ہے کہ فون خریدنے سے قبل چند اہم باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہمیشہ فون کی آفیشل وارنٹی چیک کریں، جو زیادہ تر برانڈز کی ایک برس کی ہوتی ہے۔ آئی ایم ای آئی نمبر پی ٹی اے سے فوری چیک کریں کہ آیا فون رجسٹرڈ ہے یا نہیں۔ یہ *8484# پر ڈائل کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ایسے ماڈلز نہ خریدیں جو مارکیٹ میں بند ہو چکے ہوں یا جو کمپنی کی ویب سائٹ پر درج نہ ہوں۔ دکاندار سے رسید ضرور لیں اور واضح طور پر تحریر کرائیں کہ فون نیا، رجسٹرڈ اور برانڈڈ ہے۔