پاکستان کا عدالتی نظام برسوں سے اپنی سست روی کے باعث تنقید کی زد میں رہا ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں مقدمات برسوں سے عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔ سست عدالتی کارروائی، تاریخوں پر تاریخیں، اور وکلا و ججز کی شدید کمی جیسے عوامل انصاف کی فراہمی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ایسے میں یہ سوال بجا طور مناسب ہے کہ کیا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جدید ٹیکنالوجی، خصوصاً مصنوعی ذہانت عدالتی نظام کو فعال، تیز اور مؤثر بنانے میں مددگار ہو سکتی ہے؟مصنوعی ذہانت کی مدد سے دنیا کے کئی ممالک میں مقدمات کی چھان بین، قانونی تحقیق اور مقدمے کی پیش رفت کو نہ صرف تیز کیا گیا بلکہ فیصلہ سازی میں بھی اس سے مدد لی جا رہی ہے۔چین، سنگاپور، اور برطانیہ جیسے ممالک نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے قانونی نظام میں کئی سطحوں پر جدت متعارف کروائی ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ابتدائی اقدامات ضرور اٹھائے گئے ہیں، مگر کیا ہم اس ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر اپنا پائیں گے؟
پاکستان میں صدارتی اقدام برائے مصنوعی ذہانت و کمپیوٹنگ (PIAIC) اور ’پاکستان لا ڈاٹ اے آئی‘ جیسے منصوبے اور ادارے نہ صرف ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت فراہم کر رہے ہیں بلکہ قانونی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی تشکیل میں بھی معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
’پاکستان لا ڈاٹ اے آئی‘ کے پلیٹ فارم پر ہزاروں عدالتی فیصلوں کا ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہے جہاں جدید الگوردمز کے ذریعے فیصلوں کی تلاش، تجزیہ اور ان کی تلخیص ممکن ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت کئی عدالتوں میں ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا گیا ہے جہاں وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شنوائی، مقدمات کی آن لائن رجسٹریشن، اور دستاویزی ثبوتوں کی ڈیجیٹل درجہ بندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
سال 2023 کے اختتام تک ای-کورٹس کے ذریعے دو لاکھ چھببیس ہزار مقدمات کی شنوائی ہو چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سال 2023 کے اختتام تک قومی عدالتی خودکار یونٹ کے مطابق ای-کورٹس کے ذریعے دو لاکھ چھببیس ہزار مقدمات کی شنوائی ہو چکی ہے جبکہ صرف دسمبر میں 60 ہزار شہریوں نے اس نظام سے فائدہ اٹھایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل عمر اسلم کے مطابق ’اگر مصنوعی ذہانت کو صرف قانونی تحقیق، فائلوں کی ترتیب، اور مقدمات کی نگرانی تک محدود رکھا جائے تو یہ عدالتی انقلاب کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول فیصلہ سازی کا اختیار ہمیشہ انسانی جج کے پاس ہونا چاہیے، کیونکہ قانون صرف دفعات نہیں، بلکہ انسانی سیاق و سباق، اخلاقی اقدار اور نیتوں کا علم بھی مانگتا ہے۔‘سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی حالیہ ایک فیصلے میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے 18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدلیہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک عدالتی استعدادکار بڑھا سکتے ہیں، دنیا میں کئی ججز کی جانب سے اے آئی کے استعمال سے فیصلوں میں معاونت کا اعتراف کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اے آئی کو فیصلہ لکھنے میں ریسرچ اور ڈرافٹ کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اے آئی صرف معاون ’ٹول‘ ہے، ایک جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں۔سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے میں ریمارکس دیے تھے کہ ’اگر عدالتی نظام میں شفافیت اور تیزی لانی ہے تو ہمیں عدالتوں کو ڈیجیٹل دور کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ مقدمات کی نگرانی، تاریخوں کی ترتیب، اور شواہد کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔‘تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان میں مصنوعی ذہانت پر مبنی عدالتی نظام کے نفاذ کے لیے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ ڈیجیٹل خواندگی کی کمی ہے۔ ضلعی عدالتوں میں کام کرنے والے ہزاروں وکلا اور ججز نہ صرف کمپیوٹر سے ناواقف ہیں بلکہ انٹرنیٹ تک رسائی بھی کئی علاقوں میں محدود ہے۔اس حوالے سے ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اردو اور دیگر علاقائی زبانوں سے انگریزی میں ترجمہ اور قانونی اصطلاحات کی پیچیدگی بھی مصنوعی ذہانت کے مؤثر نفاذ میں رکاوٹ ہے۔اس کے علاوہ ڈیٹا کی حفاظت، ذاتی معلومات کی رازداری اور مصنوعی ذہانت کے اخلاقی دائرہ کار کے حوالے سے بھی کئی سوالات موجود ہیں۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 14 شہریوں کو نجی زندگی کا حق دیتا ہے اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی سے یہ حق متاثر ہو سکتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم مسئلہ پاکستان کے قانونی نظام کی پیچیدگی ہے۔ ملک میں شریعت، کامن لاء، اور قبائلی ضوابط سمیت مختلف نظام ہائے قانون رائج ہیں۔ ان تمام کی نمائندگی کرنا اور مصنوعی ذہانت کو اس حد تک تربیت دینا کہ وہ ہر نوعیت کے مقدمات کو سمجھ سکے، ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہے۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت صرف سادہ دیوانی مقدمات یا مقدمہ جات کی نوعیت کے ابتدائی تجزیے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل خواندگی کی کمی مصنوعی ذہانت پر مبنی عدالتی نظام کے نفاذ میں ایک بڑا چیلنج ہے۔فوٹو: اے ایف پی
ایڈووکیٹ عارف چوہدری کا کہنا ہے کہ ’اگر ایک جامع حکمتِ عملی تیار کی جائے تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے عدالتی نظام میں اصلاحات ممکن ہیں۔ حکومت کو ایک واضح قومی پالیسی مرتب کرنی چاہیے جو تحقیق و ترقی، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، انسانی وسائل کی تربیت، اور چین جیسے ممالک سے تعاون کو فروغ دے۔
’تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت سے متعلقہ مضامین کا شامل ہونا، وکلا اور ججز کی تربیت، اور عوام میں قانونی شعور بیدار کرنا اس منصوبے کے اہم ستون ہو سکتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے عدالتوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ مقدمات کا خودکار اندراج، فائلوں کی ڈیجیٹل درجہ بندی، نظائر کی تلاش، اور قانون کی دفعات کی وضاحت ایسے شعبے ہیں جہاں مصنوعی ذہانت فوری اثر ڈال سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف عدالتی وقت کی بچت ہو گی بلکہ وکلا کو بھی بہتر تیاری کا موقع ملے گا۔‘اسی طرح وکلا کے لیے بھی مصنوعی ذہانت ایک مددگار معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی ویب سائٹس پر موجود عدالتی فیصلے اگر مصنوعی ذہانت سے مربوط کر دیے جائیں تو وکلا چند لمحوں میں اپنی نوعیت کے مقدمات کے فیصلے تلاش کر سکتے ہیں۔ اس سے قانونی بحث کا معیار بھی بلند ہو گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت عدالتی اصلاحات کے لیے ایک طاقتور آلہ ثابت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسے صرف تکنیکی سہولت کے طور پر استعمال کیا جائے البتہ فیصلہ سازی انسانی فہم، اخلاقی بصیرت، اور قانونی تجربے کا متقاضی عمل ہے، جسے کسی مشین کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔مگر مقدمات کی رفتار بڑھانے، تحقیق کو مؤثر بنانے اور عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو شامل کرنا اب محض ایک اختیار نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔