جنوبی پنجاب ’دہشت گردی کا نیا محاذ‘، پولیس مقابلے کے لیے تیار ہے؟

image
راجن پور کی ایک پولیس چوکی کے باہر، کانسٹیبل عارف کھڑے ہیں جن کی نظریں دریائے سندھ کے کنارے گھنی جھاڑیوں پر جمی ہیں۔

یہ علاقہ، جو کچے کے ڈاکوؤں کی پناہ گاہ ہے، اب تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد بھی اس کے جغرافیائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس چوکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

گزشتہ ایک سال میں، جنوبی پنجاب کی پولیس چوکیاں دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں، حکومت کا ماننا ہے کہ ہر حملے کو پسپا کیا گیا ہے۔ اسی طرح دوسری طرف کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن پولیس کے دوہرا محاظ بن چکا ہے۔

حملوں کی تعداد اور نقصانات:

گزشتہ ایک سال میں جنوبی پنجاب کی پولیس چوکیوں اور تھانوں پر کم از کم 6 بڑے دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ چھوٹے حملوں کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔

یہ حملے  زیادہ تر میاںوالی، راجن پور، اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ علاقوں میں ہوئے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان حملوں میں 22 پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ کم از کم  35 سے زائد زخمی ہوئے۔

کب کب حملہ ہوا؟

جنوری 2024 میاںوالی میں مشتبہ شدت پسندوں نے پولیس چوکی پر حملہ کیا، عمارت کو نقصان پہنچا، لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسی طرح جنوری میں ہی خانیوال میں دو انٹیلی جنس افسران بھی اپنی جان سے گئے۔

اسی طرح فروری میں ہی میانوالی کی قبول خان چیک پوسٹ پر 13 دہشت گردوں نے رات کی  تاریکی میں تین اطراف سے حملہ کیا۔

دہشت گردوں نے راکٹ لانچرز، ہینڈ گرنیڈز اور جدید اسلحہ استعمال کیا۔ پولیس نے تھرمل کیمروں کی مدد سے دہشت گردوں کو ٹریس کیا اور جوابی کارروائی میں انہیں پسپا کر دیا۔

گزشتہ برس مئی میں 15 سے 20 دہشت گردوں نے تونسہ کے علاقے میں جھنگی چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں راکٹ لانچرز، ہینڈ گرنیڈز اور لیزر لائٹ گنز استعمال کی گئیں۔ پولیس اہلکاروں نے تین گھنٹے تک مقابلہ کیا اور اس دوران 7 اہلکار زخمی ہوئے۔

گزشتہ ایک سال میں جنوبی پنجاب کی پولیس چوکیاں دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

رحیم یار خان میں پنجاب پولیس نے خیبرپختونخوا سے ملحقہ سرحد پر دہشت گردوں کے چار حملے ناکام بنائے۔ جوابی کارروائی میں  دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ پولیس کے مطابق ایک اہلکار اس لڑائی میں زخمی ہوا۔

رواں سال فروری کے مہینے میں  ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس نے دو آپریشنز  کئے جس میں سات دہشت گرد ہلاک ہوئے تاہم اس سے قبل چوکیوں پر حملوں سے نقصان بھی رپورٹ ہوا۔

مارچ  میں ڈیرہ غازی خان میں دہشت گردوں نے بارڈر چیک پوسٹ پر حملہ کیا جسے پولیس نے ناکام بنایا، تاہم معمولی نقصان رپورٹ ہوا۔

جنوبی پنجاب ٹارگٹ کیوں؟پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب دہشت گردی کا نیا محاذ بن رہا ہے، اور اس کی وجوہات گہری اور کثیر الجہتی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ دفاعی تجزیہ کار نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’جنوبی پنجاب کی سرحد، خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ علاقے، ٹی ٹی پی اور اس کے زیلی دھڑوں جیسے تحریک جہاد پاکستان کے لیے سٹریٹجک اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ علاقے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملحق ہیں، جہاں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’2021 کے بعد سے افغان طالبان کے اقتدار سے فائدہ اٹھایا، امریکی ساختہ ہتھیار لیے اور تربیت حاصل کی، اور اپنی حکمت عملی کو بہتر بنایا۔‘

عائشہ صدیقہ کے مطابق پولیس کی ناکامی کا بنیادی سبب اس کا ’ری ایکٹو نقطہ نظر‘ ہے: ’پولیس حملوں کا جواب دیتی ہے لیکن پیشگی انٹیلی جنس اور سرحدی نگرانی کی کمی انہیں کمزور کرتی ہے۔‘

سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہر ڈاکٹر ارشد علی جو یونیورسٹی آف اوٹاگو نیوزی لینڈ میں لیکچرار ہیں، کا خیال ہے کہ ’ٹی ٹی پی کی حکمتِ عملی اب چھوٹے، تیز حملوں پر مرکوز ہے جن کا مقصد پولیس کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنا اور مقامی آبادی میں خوف پھیلانا ہے۔‘

ڈاکٹر ارشد علی  پولیس کی ناکامی کو انٹیلی جنس کی کمی سے جوڑتے ہیں۔ ’پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ میں خلا ہے، جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی دراندازی کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔‘

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردی اور ڈاکوؤں کے دوہرے محاذ سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات اُٹھائے گئے ہیں (فوٹو: پنجاب پولیس)

انہوں نے تجویز دی کہ پولیس کو مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی اور ڈرون ٹیکنالوجی اپنانے کی ضرورت ہے لیکن فنڈز کی کمی اسے محدود کرتی ہے۔

کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ ایک نیا خطرہ ہے، کیونکہ وہ ڈاکوؤں کو بطور سہولت کار استعمال کر رہے ہیں، جو مقامی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہر ڈاکٹر ارشد علی نے بتایا کہ 2024 میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا اور جنوبی پنجاب اس لہر کا نیا مرکز ہے۔

’ناکافی فنڈنگ، ناقص تربیت، اور مقامی آبادی کا خوف۔ کچے کے علاقوں میں ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ اغوا برائے تاوان اور منشیات کی سمگلنگ ہے جو ڈاکوؤں کے تعاون سے چلتا ہے۔‘

ان کے مطابق پولیس کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کو الگ الگ خطرات کے طور پر دیکھتی ہے، جبکہ حقیقت میں دونوں کے درمیان عملی تعاون بڑھ رہا ہے۔

پولیس کی بہتری کے اقدامات:

آئی جی پنجاب آفس کا کہنا ہے کہ پولیس سرحدی چوکیوں پر ان حملوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

’میاںوالی اور راجن پور میں سی سی ٹی وی، موشن سینسرز، اور ڈرون نگرانی متعارف کروائی گئی ہے۔ اسی طرح سی ٹی ڈی نے خصوصی تربیتی کورسز شروع  کیے ہیں، جن میں دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی شامل ہے۔‘

حالیہ فنڈز اور ٹیکنالوجی کا حصول:

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ  حالیہ برسوں میں پولیس کی استعداد بہتر کرنے خاص طور پر جنوبی پنجاب میں دہشت گردی اور ڈاکوؤں کے دوہرے محاذ سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔

’2024-25 کے مالی سال میں، پنجاب حکومت نے پولیس کے لیے 430 ملین روپے کی فنڈنگ مختص کی جس کا ایک حصہ جنوبی پنجاب کی چوکیوں کی مضبوطی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اس فنڈنگ سے میاںوالی، راجن پور، اور ڈیرہ غازی خان کی چوکیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے، موشن سینسرز، اور ڈرونز نصب کیے گئے ہیں۔‘

آئی جی آفس کے مطابق پولیس نے ڈرون ٹیکنالوجی کو کچے کے علاقوں میں آپریشنز کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے جو رات کے وقت نگرانی اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنے میں مدد دیتی ہے۔

’اس کے علاوہ، پنجاب پولیس نے اپنے ٹیلی کمیونیکیشن ونگ کو اپ گریڈ کیا ہے جس میں تمام چوکیوں کو ایک ڈیٹا نیٹ ورک سے جوڑنے کا نظام شامل ہے، تاکہ انٹیلی جنس شیئرنگ بہتر ہو۔‘

کچے کے علاقوں میں آپریشنز اور دوہرا محاذ:

کچے کے علاقے (راجن پور، رحیم یار خان، سکھر، اور گھوٹکی کے قریب دریائے سندھ کے کنارے) دہشت گردوں اور ڈاکوؤں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جہاں گھنی جھاڑیاں اور دشوار گزار زمین پولیس کے لیے چیلنج ہیں۔

پنجاب پولیس کا ڈاکووں کے خلاف آپریشن (2024 کے آخر سے جاری) راجن پور میں چل رہا ہے، جہاں اب 18 مشتبہ دہشت گرد گرفتار ہوئے۔

دوسری جانب سندھ پولیس نے سکھر اور گھوٹکی میں آپریشنز تیز کیے ہیں جہاں ڈاکووں کے ساتھ ساتھ مشتبہ افراد کی بھی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔

جنوری 2025  میں اسی علاقے سے بی ایل اے تعلق رکھنے والے دو دہشت گرد گرفتار ہوئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کو دہرے محاظ کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ کچے کے ڈاکووں سے نبرد آزما ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں سے۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.