ایران سے آنے والے پاکستانی طلبا پر کیا بیتی: ’فضا میں ڈرونز کو پھٹتا دیکھ کر محسوس ہوا جیسے زندگی ختم ہونے والی ہے‘

ایران سے پاکستان واپس آنے والے طلبا نے بی بی سی اردو سے گفتگو کے دوران پڑوسی ملک میں موجودہ صورتحال کی جو منظر کشی کی ہے اسے سُن کر معاملے کی کشیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایران
Getty Images
ایران کی وزارتِ صحت کے مطابق جمعے کو شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 224 سے زیادہ ایرانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں

’تہران میں جو خوف کا ماحول تھا اس سے تو ہم بچ کر نکل گئے لیکن ہم اپنے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے بہت پریشان ہیں کیونکہ امتحانات نہ دے پانے سے ہمیں نقصان ہوسکتا ہے۔‘

یہ الفاظ پاکستانی طالب علم سخی عون محمد کے ہیں جو کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان پہنچے ہیں۔

ایران سے پاکستان واپس آنے والے ان طلبا نے بی بی سی اردو سے گفتگو کے دوران پڑوسی ملک میں موجودہ صورتحال کی جو منظر کشی کی ہے اسے سُن کر معاملے کی کشیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ایران کی وزارتِ صحت کے مطابق جمعے کو شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 224 سے زیادہ ایرانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

تہران میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طالب علم سخی عون محمد کہتے ہیں کہ ’کئی بار ہم نے فضا میں ڈرونز کو پھٹتے دیکھا جس سے یہی لگا کہ بس زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے۔‘

ایران سے پاکستان واپس آنے والی ایک اور طالبہ فضا مریم کہتی ہیں کہ وہ شدید حملوں کے سبب اتنی خوفزدہ تھیں کہ اکثر راتوں کو ان کی نیند بھی اُڑ جاتی تھی۔

پاکستان میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی صورتحال کے باعث پاکستانی شہریوں کا انخلا شروع ہونے کے بعد اب تک چھ سو سے زیادہ پاکستانی طالب علم دو زمینی راستوں سے بلوچستان کے سرحدی اضلاع چاغی اور گوادر پہنچے ہیں۔

ان میں سے دو سے زیادہ طالب علم منگل کی شب کوئٹہ پہنچے تھے جن کو وہاں سے پنجاب اور دیگر آبائی علاقوں کی طرف روانہ کردیا گیا ہے۔

ایران
BBC
ایران سے پاکستان پہنچنے والے طلبہ

پاکستانی طلبا نے تہران میں صورتحال کے بارے میں کیا بتایا؟

سخی عون محمد کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ وہ تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز میں ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ایران میں تہران پر پہلا حملہ ہوا تو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہمیں ہاسٹل سے باہر جانے نہیں دیا اور یہ کہا کہ آپ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں محفوظ مقامات پر رہیں۔‘

ان کے بقول ایک اور حملے کے دوران لڑکوں کے ایک ہاسٹل پر ایک ڈرون گرنے سے اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا اور اس حادثے میں بہت سارے لڑکے زخمی بھی ہوئے۔

’اس کے علاوہ اسی عمارت کے نیچے دو کاریں پارک ہوتی تھیں ان میں سے ایک کار میں بھی دھماکہ ہوا تھا۔‘

سخی عون محمد کے مطابق اسرائیلی حملے شروع ہونے کے بعد ان کی تین راتیں تہران میں گزریں اور چونکہ راتوں کو مسلسل حملے ہورہے تھے جس کی وجہ سے سونا ممکن نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں کے دوران جب اسرائیل کے وزیر اعظم نین یاہو کا یہ بیان آیا کہ لوگ تہران کو خالی کریں تو لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔

’ایک شام جب ہم نے کھانا وغیرہ کھالیا تو وہاں علاقے میں ڈرون آئے اور ایران کے فضائی دفاعی نظام نے جب ان کا پیچھا کیا تو وہ ہمارے ہاسٹل کے اوپر ہی پھٹ گئے۔ اس وقت ہمیں ایسا لگا جیسے اب ہمارا دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہے۔‘

پاکستانی طالب علم سخی عون محمد کے مطابق وہاں ایک خوفناک صورتحال تھی جس کے باعث ہم نے پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا جنھوں نے ہمیں بسوں کے ذریعے پہلے تفتان اور اس کے بعد کوئٹہ پہنچایا۔

سخی عون محمد کی طرح عالم حسین بھی ایران میں مقیم تھے اور تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع شروع ہوا تو تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت دیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہر طرف سے میزائل آ رہے تھے اور بالخصوص تہران میں کچھ یونیورسٹیاں اور ہاسٹلز تھے جن پر ان کے بقول میزائل اور ڈرونز آکر لگے۔

’ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ ہر طرف ایک خوف و ہراس کا عالم تھا جب ہر طرف سے میزائل اور ڈرون گر رہے تھے۔ ایسے میں بڑی تعداد میں طالب علموں کو محفوظ طریقے سے نکالنا وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارتخانے کی ایک بڑی کامیابی ہے۔‘

ایران
BBC
اس وقت ایران میں ہزاروں پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی ہے

انھوں نے کہا کہ ’ہم جن جن علاقوں سے آئے ہیں وہاں سویلین علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تہران اس وقت نہ صرف غیرملکیوں بلکہ وہاں کے شہریوں کے لیے بھی محفوظ نہیں تھا۔‘

خیال رہے اسرائیل کی جانب سے متعدد مرتبہ کہا گیا ہے کہ وہ ایران میں صرف عسکری مقامات کو اپنا ہدف بنا رہے ہیں۔

تہران میں میڈیکل کے چھٹے سیمیسٹر کی طالب علم فضا مریم کا کہنا ہے کہ میزائلوں اور ڈرونز کی آوازیں اتنی خوفناک تھیں کہ وہ اور ان کے ساتھی طلبا ڈر کے سبب سہم سے جاتے تھے

انھوں نے کہا کہ ’جب ہسپتال اور طلبا کے ہاسٹلز پر حملے ہو رہے تھے تو ہمارے خوف میں اضافہ ہوا کیونکہ جب ہسپتال اور ہاسٹلز محفوظ نہ ہوں تو پھر کچھ بھی محفوظ نہیں۔‘

فضا مریم کے مطابق اس کے بعد جب اسرائیل کی جانب سے تہران کو خالی کروانے کا بیان سامنے آیا تو پھر پاکستانی سفارتخانے نے انھیں وہاں سے نکال لیا۔

’ایران کے لوگ بہت زیادہ خوفزدہ نہیں تھے‘

سخی عون محمدنے بتایا کہ جس دن پہلا اسرائیلی حملہ ہوا وہ جمعہ اور عید غدیر کا دن بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے اعلان کیا تھا کہ ان حملوں کے باوجود بھی عید غدیر کی تقریب منعقد ہوگی۔

’یہ تین گھنٹے کی تقریب ہوتی ہے جو کہ منعقد ہوئی۔ دکانیں اور مارکیٹیں صبح کھل جاتی تھیں تاہم شام ہوتے ہی دوبار بند ہوتی تھیں۔‘

دیگر طالب علموں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیلی حملوں کے باوجود بھی ایرانی لوگوں کو کسی خوف کا شکار نہیں پایا۔

عارف حسین کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ وہاں خوف کا ایک ماحول تھا لیکن جو ایرانی شہری ہیں ان میں بہت زیادہ خوف و ہراس نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے روز کے حملے کے بعد تہران میں ایک مارچ ہوا تھا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔‘

پاکستانی طالبہ فضا مریم کے مطابق ایرانی شہریوں میں زیادہ ڈر اس لیے بھی نہیں تھا کیونکہ ’خامنہ ای کہہ چکے تھے کہ وہ صورتحال کو دیکھ لیں گے‘ اور ایران کا فضائی دفاعی نظام میزائلوں اور ڈرونز کو تباہ بھی کر رہا تھا۔

پاکستانی طلبا ایران میں میڈیکل کی تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہیں؟

اس وقت ایران میں ہزاروں پاکستانی طالب علم تعلیم حاصل کررہے ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اس سوال پر کہ پاکستانی طلبا کی بہت بڑی تعداد کیوں ایران کا رخ کررہی ہے تو ایران سے کوئٹہ پہنچنے والے ایک طالب علم زرناب کمیل کا جواب یہ تھا کہ ایران میں میڈیکل کی تعلیم نسبتاً سستی ہے۔

ایران
Getty Images
سخی عون محمدنے بتایا کہ جس دن پہلا اسرائیلی حملہ ہوا وہ جمعہ اور عید غدیر کا دن بھی تھا

انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایران پاکستان کے ساتھ واقع ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی سڑک کے زریعے اس کے کسی بھی حصے تک آسانی کے ساتھ انتہائی کم کرایے پر آمد و رفت کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح دنیا کے بعض دیگر ممالک کی نجی یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا کو دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایران میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ایران میں یونیورسٹیاں حکومت کے زیر کنٹرول ہیں جس کی وجہ سے کسی یونیورسٹی کا عملہ دھوکہ دہی نہیں کرسکتا ہے۔

ایران میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک اور طالب علم نے بتایا کہ ایران میں خوراک اور رہائش کے اخراجات بھی کم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایران میں کسی اور ملک کے مقابلے میں انتہائی کم خرچے پر ایک طالب علم اچھا اور معیاری کھانا کھا سکتا ہے۔

واپس آنے والے طلبا تعلیم کے حوالے سے پریشان کیوں ہیں؟

اگرچہ ایران سے محفوظ طریقے سے پاکستان پہنچنے پر ہر طالب علم خوش تھا لیکن انھیں تعلیم کے حوالے سے پریشانی بھی لاحق تھی۔

سخی عون محمد کا کہنا تھا کہ ایران میں ہزاروں طالب علم پڑھ رہے ہیں، وہاں اگر ایک طالب علم دو سمسٹرز میں فیل ہو یا امتحانات میں شریک نہ ہو تو ان کو فیل قرار دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کو سارے سیمسٹرکی فیس دوبارہ ادا کرنی پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایران کی کسی بھی یونیورسٹی کی جانب سے انھیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ہماری کلاسز یا امتحانات آن لائن ہوں گے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس یہ پیغامات آرہے ہیں کہ صورتحال ٹھیک ہوتی ہے اور اگر طالب علم یہاں نہیں ہوں گے تو اس کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی تعلیم کے حوالے سے بہت پریشانی ہے اس لیے وہ حکومت پاکستان بالخصوص وزارت خارجہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایرانی حکام سے رابطہ کرکے کسی بھی ممکنہ تعلیمی نقصان سے بچائیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.