پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد یہ خواہش رکھتی ہے کہ وہ اپنی تعلیمی زندگی کا کم از کم ایک مرحلہ بیرونِ ملک مکمل کرے۔ خاص طور پر اگر یہ موقع امریکہ یا برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں مل جائے تو اسے ایک غیر معمولی کامیابی اور زندگی بدل دینے والا ’موقع‘ تصور کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک روشن موقعے کی تلاش میں راولپنڈی کے نواحی علاقے کہوٹہ سے تعلق رکھنے والی دو نوجوان بہنیں، 29 برس کی ہاجرہ زاہد اور 25 سالہ حلیمہ زاہد، سال 2025 کے آغاز میں برطانیہ پہنچیں۔ ان کا خواب تھا کہ وہ وہاں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کریں اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں۔برطانیہ پہنچنے کے بعد ابھی چار ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک روز وہ اپنی دوستوں کے ہمراہ نارتھ ویلز کے مشہور نیشنل پارک ایریری گئیں۔وہاں قدرتی چشموں کے قریب سیر کے دوران ایک دلخراش حادثہ پیش آیا۔ دونوں بہنیں پانی میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئیں۔ یوں جو سفر ایک خواب کی تعبیر کے لیے شروع ہوا تھا وہ چند مہینوں میں ہی ایک المناک حادثے کا شکار ہو گیا۔’بیٹیوں کی موت کے بعد والدہ کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے‘اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مرنے والی بہنوں کے قریبی عزیز اور برطانیہ میں ان کے گارڈین راجہ عظیم نے بتایا کہ حادثے کے بعد ان کی والدہ شدید ذہنی صدمے کا شکار ہو چکی ہیں۔’ان کی والدہ اس وقت شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ اس حد تک ٹوٹ چکی ہیں کہ اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر پاتیں۔‘29 سالہ ہاجرہ زاہد کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک کی عمر چھ سال جبکہ دوسرے کی تین سال ہے۔ ان کی چھوٹی بہن حلیمہ زاہد غیر شادی شدہ تھیں۔ دونوں کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے جبکہ اُن کے والد پانچ سال قبل فوت ہو گئے تھے۔وہ برطانیہ کب گئیں؟ہاجرہ اور حلیمہ نے اپنی بیچلرز کی تعلیم پاکستان میں مکمل کی تھی، تاہم دونوں کا خواب تھا کہ وہ اپنی ماسٹرز کی ڈگری بیرون ملک سے حاصل کریں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کافی محنت کی اور سیلف فنانس پر برطانیہ کی یونیورسٹی آف چیسٹر میں انٹرنیشنل بزنس کے پروگرام میں داخلہ حاصل کیا۔دونوں بہنیں سال 2025 کے آغاز میں 5 فروری کو برطانیہ پہنچی تھیں جہاں اُنہوں نے اپنی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ہاجرہ کے شوہر اور بچے کہاں تھے؟راجہ عظیم کے مطابق ہاجرہ زاہد کے شوہر اور بچے برطانیہ میں ان کے ساتھ نہیں تھے بلکہ پاکستان میں ہی مقیم ہیں۔نماز جنازہ اور تدفیندونوں بہنوں کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ سے تھا جبکہ ان کا ننہیال گجرخان میں ہے۔ دونوں بہنوں کی نماز جنازہ جمعرات کو گجرخان میں ادا کی گئی۔ میتیں اسی صبح راولپنڈی پہنچائی گئی تھیں۔حادثہ کیسے پیش آیا؟راجہ عظیم کے مطابق 11 جون کو دونوں بہنیں شیفلڈ میں واقع اپنے گھر سے کھانا کھانے کے بعد اپنے دوستوں کے ہمراہ نارتھ ویلز کے ایک نیشنل پارک گئیں۔ شام تقریباً چھ بجے کے قریب یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جب وہ ایک قدرتی جھیل میں ڈوب گئیں۔ریسکیو ٹیم نے رات ساڑھے نو بجے کے قریب ان کی لاشیں نکالیں۔ راجہ عظیم کا کہنا ہے کہ ایک بہن کی لاش ایک جگہ سے ملی جبکہ دوسری کی کسی اور مقام سے۔ ان کی لاشیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالی گئیں۔’تفتیش جاری ہے‘راجہ عظیم کے مطابق اس واقعے کی مکمل تفصیل تاحال سامنے نہیں آ سکی۔ پولیس حکام کے بیانات میں بھی تضاد پایا جا رہا ہے اور اب عدالتی تفتیش کا آغاز کیا جا چکا ہے۔’تاحال پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی، لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اُن کی موت پانی میں ڈوبنے سے ہوئی۔ عینی شاہدین نے بھی لاشوں کو پانی سے نکالتے دیکھا۔ میں خود بھی اس وقت وہیں موجود تھا۔‘ہاجرہ زاہد کے شوہر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک ویڈیو بیان میں برطانیہ کی پولیس اور عدلیہ سے تحقیقات کی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری اہلیہ اور اس کی بہن جھیل میں کس طرح ڈوبیں، اس واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔