ایرانی کے ربرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اسرائیلی افواج کی جانب سے قتل کیے جانے کے خدشے کے باعث مکمل طور پر تنہائی میں ہیں اور ان کا کسی سے رابطہ نہیں یہاں تک کہ حکومت کے اعلیٰ ترین حکام تک کو ان سے ملاقات یا رابطے کی اجازت نہیں ملی۔ اگرچہ اسرائیل ایران کے درمیان جنگ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کے امیر کی ثالثی سے عمل میں آئی تاہم اس کے باوجود خامنہ ای کو انتہائی محتاط رہنا تجویز کیا جائے گا۔

اسرائیل اور ایران کی جنگ کے دوران تقریباً دو ہفتے کسی خفیہ بنکر میں گزارنے کے بعد ایران کے 86 سالہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای جنگ بندی کے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ممکنہ طور پر اب باہر نکلنے کا ارادہ کریں گے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی افواج کی جانب سے قتل کیے جانے کے خدشے کے باعث مکمل طور پر تنہائی میں ہیں اور ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کے اعلیٰ ترین حکام تک کو ان سے ملاقات یا رابطے کی اجازت نہیں ملی ہے۔
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر کی امیر کی ثالثی کے سبب اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی خامنہ ای کو انتہائی محتاط رہنے کا کہا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیادت کو واضح طورکہا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کو قتل نہ کیا جائے، تاہم اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو نے اس امکان کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا ہے۔
جب بھی خامنہ ای اپنی پناہ گاہ سے باہر نکلیں گے تو ایران میں موت، تباہی اور بربادی سے بھرے منظر ان کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے۔
تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ سرکاری ٹی وی پر اپنے خطاب میں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کامیابی کا ہی دعویٰ کریں گے اور انھوں نے توقع کے عین مطابق کیا بھی ایسا ہی۔
جمعرات کو ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایران ’صیہونی ریاست‘ کے خلاف جنگ میں ’فاتح‘ بن کر اُبھرا ہے۔
انھوں نے اپنے پیغام میں امریکہ اور امریکی صدر پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ امریکہ براہ راست جنگ میں ’اس لیے داخل ہوا کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو صیہونی ریاست مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔‘
آیت اللہ علی خامنہ ای نے مزید کہا کہ امریکہ کو ’اس جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ اور ایران نے ’امریکہ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ مارا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران سے ’سرینڈر‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
’ایک عظیم ملک اور قوم کے لیے سرینڈر لفظ کا ذکر بھی توہین ہے۔‘
ایرانی رہبرِ اعلیٰ نے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے حملوں میں وہاں ’زیادہ نقصان نہیں ہوا۔‘
آیت اللہ علی خامنہ ای کے ’فتح‘ کے دعوے اپنی جگہ لیکن وہ ضرور اب اپنی ساکھ بحال کرنے پر کام کریں گے۔ تاہم اب انھیں نئے حقائق اور شاید نئے سیاسی دور کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ جنگ نہ صرف ایران کو شدید طور پر کمزور کر گئی ہے بلکہ اس کے باعث خامنہ ای کی حیثیت اور اثر و رسوخ میں بھی نمایاں حد تک کمی آئی ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای 1989 سے ایران کے رہبرِ اعلیٰ ہیں تاہم اس بار ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد انھیں ایران کو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ٹکرؤ کی راہ پر ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرائے گی جس کا نتیجہ ملک اور اس کے عوام کے لیے شدید تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔
عوام انھیں اسرائیل کو تباہ کرنے سے متعلق نظریے کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور اس نظریے کی بیشتر ایرانی حمایت نہیں کرتے۔
خامنہ ای کو ان کے اس عقیدے پر بھی تنقید کا سامنا ہو گا جس کے مطابق اگر ایران ایٹمی طاقت بن جائے تو ان کی حکومت ناقابلِ شکست ہو جائے گی۔
بین الاقوامی پابندیوں نے ایرانی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا کا ایک نمایاں تیل برآمد کرنے والا ملک اب ایک کمزور اور غریب ملک بن چکا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک سکالر پروفیسر لینا خطیب کہتی ہیں کہ ’یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایرانی حکومت اس شدید دباؤ کے ساتھ مزید کتنے عرصے تک برقرار رہ سکے گی، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ یہ شاید اختتام کی جانب بڑھتے قدم ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’علی خامنہ ای غالباً اسلامی جمہوریہ ایران کے آخری حقیقی رہبرِ اعلیٰ ثابت ہوں گے۔‘
یاد رہے کہ 1989 میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ بننے والے آیت اللہ علی خامنہ ای پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے ملک کو اسرائیل کے ساتھ تصادم کی راہ پر ڈالا ہے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای 1989 میں ایران کے سپریم لیڈربنےایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران ایران میں اعلیٰ سطح پر اختلافات کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں۔
جنگ کے دنوں میں ایک نیم سرکاری ایرانی نیوز ایجنسی نے خبر دی تھی کہ ملک کے بعض اعلیٰ سابق عہدیداروں نے آیت اللہ خامنہ ای سے دوری اختیار کرنے والے قُم میں موجود بعض خاموش مزاج مذہبی علما سے مداخلت کی اپیل کی تھی تاکہ قیادت میں تبدیلی لائی جا سکے۔
سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف ایرانی سٹڈیز کے بانی ڈائریکٹر پروفیسر علی انصاری کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل واضح ہے کہ قیادت کے اندر شدید اختلافات موجود ہیں جبکہ عوام میں بھی شدید بے چینی اور ناخوشی پائی جاتی ہے۔ غصہ اور مایوسی کی جڑیں گہری ہوں گی اور حساب کتاب دینا ہو گا۔‘
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران بہت سے ایرانی ایک اندرونی کشمکش کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف ان میں اپنے وطن کا دفاع کرنے کی خواہش رہی اور دوسری طرف حکومت سے شدید نفرت بھی برقرار رہی۔
انھوں نے ملک کے لیے یکجہتی تو دکھائی مگر یہ حکومت کے دفاع میں نہیں تھی بلکہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے تھی۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں جن میں بڑی پیمانے پر ہمدردی، تعاون اور قربت کی مثالیں دیکھی گئیں۔
شہروں سے بمباری کے خطرے کے باعث بھاگنے والوں کے لیے دیہی علاقوں اور قصبوں میں موجود لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھولے۔ دکانداروں نے کھانے پینے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دیں۔
پڑوسی ایک دوسرے کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے تاکہ معلوم کرسکیں کہ کسی کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔
تاہم عوام کو اس بات کا ادراک بھی تھا کہ اسرائیل شاید ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ایرانی خود بھی حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں تاہم وہ اپنی خواہش کو اس وقت دبا دیتے ہیں جب اس کا بیرونی طاقتوں کے ذریعے مسلط ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای دنیا میں طویل ترین عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حکمرانوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنے تقریباً 40 سالہ دورِ حکمرانی میں ملک کے اندر ہر طرح کی سیاسی مخالفت کو کچل دیا ہے۔
اپوزیشن کے اہم سیاسی رہنما یا تو جیلوں میں قید ہیں یا ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ بیرونِ ملک موجود حزب اختلاف کے رہنما بھی اب تک ایسا کوئی واضح موقف وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں جو حکومت مخالف عناصر کو متحد کر سکے۔
وہ اب تک ایسی کوئی مؤثر تنظیم بھی نہیں بنا پائے ہیں جو موقع ملنے پر ملک کے اندر اقتدار سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اور ان دو ہفتوں کی جنگ کے دوران وہ وقت بھی آیا جب ایسا لگنے لگا تھا کہ اگر جنگ مزید شدت اختیار کرتی ہے تو حکومت کا زوال ممکن ہو سکتا ہے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر حکومت چلی بھی جائے تو اگلے دن کا ممکنہ منظرنامہ اپوزیشن کا اقتدار سنبھالنا نہیں بلکہ ملک میں انارکی کا پھیلنا اور قانون کی مکمل تباہی ہونا ہوتا۔
پروفیسر لینا خطیب کہتی ہیں کہ ’یہ امکان کم ہے کہ ایرانی حکومت اندرونی مخالفت کے ذریعے گرائی جا سکے۔ موجودہ حکومت ملک کے اندر اب بھی طاقتور ہے اور وہ اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے جبر و ستم میں مزید اضافہ کرے گی۔‘
ایرانی عوام کو اب بھی خدشہ ہے کہ حکومت مزید کریک ڈاؤن کرے گیایرانی عوام کو اب بھی خدشہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کرے گی۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک (گزشتہ دو ہفتوں کے دوران) کم از کم چھ افراد کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دی جا چکی ہے۔
حکام کے مطابق اسی الزام میں تقریباً 700 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک ایرانی خاتون نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ ’اس جنگ کی ہلاکتوں اور تباہی سے زیادہ مجھے جس چیز کا خوف ہے وہ یہ ہے کہ ایک زخمی اور شکست خوردہ حکومت اپنا غصہ اپنی ہی عوام پر نکالے گی۔‘
دوسری جانب پروفیسر علی انصاری اس صورت حال کو بتدریج آگے بڑھتا ہوا قرار دیتے ہیں۔
’اگر حکومت عوام کو بنیادی اشیائے ضرورت اور خدمات فراہم کرنے سے قاصر رہی تو غصے اور مایوسی میں اضافہ ہوگا۔‘
ان کے مطابق ’ تاہم یہاں کوئی ایسی عوامی تحریک بنتی نظر نہیں آتی جو فوری طور پر جڑ پکڑ لے۔‘
ایران میں بہت کم لوگ پیر کے روز ہونے والی جنگ بندی کو دیرپا سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل اب بھی ایران میں مکمل فضائی برتری کے ساتھ مزید کارروائی کرے گا اور اس کے مقاصد ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں۔
ایران کے بیلسٹک میزائل
صدر ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ختم نہ کرےایک چیز جو اب تک تباہی سے محفوظ رہی ہے وہ ہیں ایران کے بیلسٹک میزائل کے لانچنگ مراکز (silos) جنھیں تلاش کرنا اسرائیل کے لیے مشکل رہا ہے کیونکہ یہ مراکز پورے ملک میں پہاڑوں کے نیچے سرنگوں میں چھپائے گئے ہیں۔
اسرائیلی ڈیفینس فورس کے چیف آف سٹاف ایال زامیر کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل نے جب ایران پر پہلا حملہ کیا تو اسے علم تھا کہ ایران کے پاس تقریباً 2,500 زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔‘
ایران کی جانب سے داغے گئے ان میزائلوں نے اسرائیل میں شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔
اسرائیل کو اب بھی اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ایران کے پاس تقریباً 1,500 میزائل ابھی باقی ہیں۔
تل ابیب، واشنگٹن اور دیگر مغربی و علاقائی دارالحکومتوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ایران شاید اب بھی ایٹمی بم بنانے کی کوشش کرے گا۔ تاہم تہران اس الزام کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ختم نہ کرے۔
ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ ’نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی‘
اگرچہ ایران کی جوہری تنصیبات کو اسرائیل اور امریکہ کی بمباری کے دوران شدید نقصان پہنچا ہے اور ممکنہ طور پر وہ اب ناکارہ بھی ہو چکی ہیں۔ تاہم ایران کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنا 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ ایک محفوظ اور خفیہ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یورینیم کے 60 فیصد ذخیرے کو 90 فیصد تک افزودہ کر لیا جائے، جو تکنیکی طور پر ایک نسبتاً آسان مرحلہ ہے، تو یہ تقریباً نو جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہوگا۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے ایران نے اعلان کیا تھا کہ اس نے یورینیم افزودگی کے لیے ایک اور خفیہ مرکز قائم کر لیا ہے جو جلد کام شروع کر دے گا۔
ایرانی پارلیمان نے اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران کے ادارے (IAEA) کے ساتھ تعاون میں کمی لانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
گو کہ اس اقدام کی ابھی حتمی منظوری ہونا باقی ہے تاہم اگر یہ منظور ہو جاتا ہے تو ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے نکلنے سے صرف ایک قدم کی دوری پر رہ جائے گا۔
رہبرِ اعلیٰ کے حامی سخت گیر حلقے ایران کو جوہری بم کی تیاری کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔
آیت اللہ علی خامنہ ای ممکنہ طور پر اب بھی اس گمان میں ہوں گے کہ ان کی حکومت کسی نہ کسی طرح بچ گئی ہے۔
مگر 86 برس کی عمر اور بیماری کی حالت میں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ان کے اپنے دن بھی گنے چنے ہی باقی رہ گئے ہیں۔
لہٰذا وہ نظامِ حکومت کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے اقتدار کی منظم منتقلی کی کوشش کر سکتے ہیں۔
یہ منتقلی چاہے کسی سینئر مذہبی رہنما کو اقتدار سونپنے کی صورت میں ہو یا پھر کسی کونسل کے ذریعے کی جائے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی موت کی صورت میں جانشینی کے لیے نہ صرف تین سینیئر علما کا انتخاب کیا ہے بلکہ فوجی قیادت میں بھی متبادل شخصیات کا انتخاب کر لیا ہے تاکہ اگر ان کے مزید قریبی کمانڈرز مارے جائیں تو ان کے خلا کو فوری پر کیا جا سکے۔
کسی بھی صورت میں سپریم لیڈر کے وفادار باقی ماندہ پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈر اب شاید پسِ پردہ اقتدار سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔