پاکستان میں ٹیکس اور بجٹ امور پر کام کرنے والے افراد کے مطابق منظور شدہ بجٹ تقریباً پیش کردہ بجٹ جیسا ہی ہے۔ اس بحٹ میں ٹیکس کی تفصیلات کیا ہیں؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے یکم جولائی 2025 سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی ہے جس کا حجم ساڑھے سترہ ہزار ارب روپے ہے۔
پاکستان کے نئے مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ پارلیمان میں دس جون کو پیش کیا گیا تھا جس کے بعد اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی فنانس کمیٹیوں میں بحث کے لیے بھیجا گیا تھا جہاں اس میں ترامیم کی تجاویز سامنے آئی تھیں۔
وفاقی بجٹ کے پیش ہونے کے بعد بزنس کمیونٹی کی جانب سے جہاں اس پر ردعمل دیا گیا تھا تو اس کے ساتھ حکومت کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس پر کچھ اعتراضات اٹھائے تھے اور بجٹ کی منظوری کے لیے ان اعتراضات کو دور کرنے کی شرط رکھی تھی۔
پارلیمان میں بجٹ پیش ہونے سے لے کر اس کی پارلیمان کے دو ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں میں بحث میں توقع تھی کہ ترامیم کے ذریعے فنانس بل کی منظوری کے وقت کچھ بڑی تبدیلیاں کی جائیں گے جن میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس، سولر پینل پر ٹیکس، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس، پٹرولیممصنوعات پر کاربن لیوی وغیرہ شامل تھیں۔
تاہم قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے فنانس بل کی تفصیلات کے مطابق کچھ معمولی تبدیلیوں کے علاوہ منظور شدہ فنانس میں اور دس جون کو پیش کردہ فنانس بل میں زیادہ فرق نہیں۔
پاکستان میں ٹیکس اور بجٹ امور پر مہارت رکھنے والے افراد کے مطابق منظور شدہ بجٹ تقریباً پیش کردہ بجٹ جیسا ہی ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں کوئی تبدیلی کی گئی؟

دس جون کو پارلیمان میں پیش کیے جانے والے فنانس بل میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی جو شرح مقرر کی گئی تھی اس کے مطابق پہلے سلیب میں چھ لاکھ تک تنخواہ دار ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔
دوسرے سلیب میں چھ لاکھ سے 12 لاکھ تک تنخواہ لینے والے افراد چھ لاکھ سے اوپر رقم پر ایک فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
دوسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر ایک فیصد انکم ٹیکس چھ لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
تیسرے سلیب میں 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لینے والے چھ ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 11 فیصدٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
تیسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 11 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 12 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
چوتھے سلیب میں 22 لاکھ سے 32 لاکھ تک سالانہ تنخواہ پر ایک لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 23 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
چوتھے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 23 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 22 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
پانچویں سلیب میں 32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر 3 لاکھ 46 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 30 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا گیا تھا یعنی پانچویں سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 30 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 32 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
چھٹے سلیب میں 41 لاکھ سے اوپر سالانہ تنخواہ لینے والوں کو چھ لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 35 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ چھٹے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 35 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 41 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
قومی اسمبلی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے ریلیز ہونے والے فنانس ترمیمی بل کے مطابق اس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں۔
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ منظور شدہ ترمیمی فنانس بل میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں، اس کا مطلب ہے کہ جو پیش کردہ فنانس بل میں ٹیکس کی شرح تجویز کی گئی تھی وہی لاگو ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ ترمیمی فنانس بل میں جب کسی چیز کا ذکر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ پیش کردہ فنانس بل میں تجویز کردہ ہی منظور سمجھا جائے گا۔
تاہم انھوں نے نشاندہی کی کہ گریجویٹی اور پینشن پر ٹیکس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا فنانس بل کے پش کرتے وقت ایک کروڑ پینشن اور گریجویٹی پر پانچ فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا تھا تاہم منظور شدہ بجٹ میں ایک کروڑ روپے تک کوئی ٹیکس نہیں ہوگا تاہم ایک کروڑ سے تجاوز کرنے پر پانج فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔

سولر پینل پر ٹیکس کی شرح میں ردوبدل ہوا؟
نئے مالی سال کے پیش کردہ بجٹ میں سولر پینل کی درآمد پر 18 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے اس ٹیکس کی تجویز کے بعد اس پر اعتراضات سامنے آئے جس کے بعد پارلیمان کی فنانس کمیٹیوں میں اس پر بحث کے بعد اس میں کمی کی ترامیم پیش کی گئی تھیں اور اسے دس فیصد تک کرنے کی ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔
تاہم پارلیمان کے ایوان زیریں میں پاس ہونے والے ترمیمی فنانس بل میں سولر پینل کی درآمد پر دس فیصد عائد ٹیکس کی شرح کی منظوری دی گئی۔

پراپرٹی پر ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کی گئی؟
نئے مالی سال کے فنانس بل کو پیش کرتے وقت وزیر خزانہ نے کہا تھا ’بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد، ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔‘
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے ترمیمی فنانس بل میں پراپرٹی سے متعلق کوئی ترمیم شامل نہیں۔
معاشی اور بجٹ امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ منظور شدہ فنانس بل میں پراپرٹی پر ٹیکس کی شرح وہی ہے جو بجٹ پیش کرتے وقت تجویز کی گئی تھی۔

ٹیکس فراڈ پر نئے ترمیمی بل میں کیا تبدیلی کی گئی؟
نئے مالی سال کے فنانس بل میں ٹیکس فراڈ اور ٹیکس کی چوری پر سزاؤں اور گرفتاری کی ترمیم بھی کی گئی اور ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا۔
10 جون کو پیش کردہ فنانس بل میں سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کر کے ایف بی آر کے حکام کو ٹیکس فراڈ کی تحقیقات اور گرفتاری کا اختیار دیا گیا تھا تاہم منظور شدہ ترمیمی بل کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث اگر انکوائری میں شامل ہو گیا تو گرفتار نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ٹیکس فراڈ پر پہلے جو طریقہ کار تجویز کیا گیا تھا وہ نامناسب تھا اب ترمیمی بل میں جب تک تحقیقات مکمل ہو کر کوئی فراڈ ثابت نہ ہو جائے تب تک گرفتاری نہ کرنے کا کہا گیا۔‘