ہم میں سے اکثر لوگ اپنے کھانے پینے کی چیزوں سے مکھیوں کو دور بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوڑے دان میں ننھے منے کیڑوں کی موجودگی کا تصور بھی کسی کا دل متلا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن شاید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو کہ یہی مکھیاں ہمارے بچے کچھے کھانے کو کارآمد بنانے کا کام کر سکتی ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ اپنے کھانے پینے کی چیزوں سے مکھیوں کو دور بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوڑے دان میں ننھے منے کیڑوں کی موجودگی کا تصور بھی کسی کا دل متلا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن شاید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو کہ یہی مکھیاں ہمارے بچے کھچے کھانے کو کارآمد بنانے کا کام کر سکتی ہیں۔
اسی لیے دنیا میں بعض مقامات پر مکھیوں کے لاروا کہلائے جانے والے ان کیڑے مکوڑوں کی سڑتے ہوئے کھانے سے رغبت کو خوش دلی سے قبول کیا جا رہا ہے۔
بالٹک ریاست لیتھوانیا کے دارالحکومت ویلنیئس میں مکھیوں کے لاروا کو باضابطہ طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ شہر کے چھ لاکھ سے زیادہ شہریوں کی جانب سے ہر سال جمع ہونے والے 2,700 ٹن کھانے کے کچرے کو پروسیس کریں اور ساتھ ہی چھ پڑوسی کونسلوں کے کچرے کو بھی موثر طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔
اینیریجسمین وہ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی ہے جس نے اس سال کے آغاز میں ویلنیئس سے کھانے کا کچرا ہٹانے کا کام شروع کیا۔ ان کی سروس شہر سے اس ضمن میں کوئی فیس وصول نہیں کرتی۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو الجرداس بلاسگیس کے مطابق اس سے شہر کو سالانہ تقریباً 20 لاکھ یورو (1.7 ملین برطانوی پاؤنڈ یا 2.3 ملین امریکی ڈالر) تک کی بچت ہوتی ہے جس کا اندازہ 2026 میں 12,000 ٹن کچرے کی پروسیسنگ کے ہدف کی بنیاد پر لگایا گیا۔
اینیریجسمین نے شہریوں میں کھانے کے کچرے کو علیحدہ کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے نئے نارنجی رنگ کے کچرے کے تھیلے تقسیم کیے اور ایک سوشل میڈیا مہم بھی چلائی تاکہ ویلنیئس کے مزید باشندے کھانے کا فضلہ الگ کریں۔
ان کے مطابق جو 2,700 ٹن کچرا جمع کیا جاتا ہے وہ اندازاً شہر میں پیدا ہونے والے 40,000 ٹن گھریلو کچرے کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہے۔
گزشتہ سال کونسلوں کے لیے کھانے کے کچرے کو جمع کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا اس لیے شہر کو اس کے انتظام کے نئے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
دوسری طرف اینیریجسمین نے ان تندرست ہوتی مکھیوں کے لاروا کو آمدنی کے نئے ذریعے میں تبدیل کرنے کے منصوبے بھی بنائے ہیں۔
کمپنی کے ویلنیئس پلانٹ میں ایک خصوصی زون میں تقریباً 60 لاکھ مکھیاں رکھی گئی ہیں۔ کمپنی کے سی ای او الجرداس بلاسگیس کے مطابق ان میں سے نر اور مادہ مکھیاں ہر چھ گھنٹے بعد ملاپ کرتی ہیں۔
ایک مادہ مکھی اپنی اوسط 21 دن کی زندگی میں تقریباً 500 انڈے دے سکتی ہے چنانچہ الجرداس بلاسگیس اور ان کی ٹیم ہر ماہ 30 لاکھ سے زیادہ لاروا کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو اپنی زندگی کے ابتدائی اور سب سے زیادہ خوراک کی ضرورت والے دنوں میں 11 ٹن سے زائد کھانے کے کچرے کو کھا سکتے ہیں۔
اینیریجسمین پینٹ، گوند اور فرنیچر کی صنعت میں سپلائی کے آزمائشی منصوبے شروع کر چکی ہے اور اس کے لیے پارٹنرز کے ساتھ رابطے بھی کر لیے ہیں تاہم الجرداس تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کام ان کی توقع سے کہیں زیادہ پیچیدہ ثابت ہو رہا ہے۔
ان کی کمپنی کے تیار کردہ مکھیوں کے لاروا سے بنائے جانے والے سیمپل میں پینٹ کا مطلوبہ رنگ نہیں آیا تاہم اس سے جو لیمپ شیڈ تیار کیے گئے ان کا نتیجہ کافی امید افزا رہا۔
انھوں نے تحقیقاتی مقاصد اور بیکٹیریا کی خوراک کے لیے مکھیوں کے لاروا فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی رابطے کیے۔
تاہم یورپی یونین کی ہیلتھ اینڈ سیفٹی ریگیولیشنز کے رہنما اصول ہمیں بتاتے ہیں کہ باورچی خانے سے نکلنے والے کچرے ( کچن ویسٹ) سے پلنے والا مکھیوں کا لاروا انسانی خوراک کے لیے بنائے جانے والی کیڑوں کی پروڈکٹس میں استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ گوشت اور مچھلی کے کچرے کے آلودہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
الجرداس کے مطابق ’ہم نے کچھ منفرد خیالات سوچے اور پھر دوسرے لوگوں کو شامل کرنا شروع کیا جو یہ سوچیں کہ ہم اس سے کیا کچھ اور انوکھا کر سکتے ہیں۔‘
’چونکہ یہ خیال ابھی بہت نیا ہے تو کچھ لوگ ناکامی کے ڈر سے گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں اور اس کو قابل فخر سمجھنے کے موڈ میں نہیں لیکن مجھے لگتا ہے ہم کچھ اچھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘
دو گھنٹے میں 16 انچ کے پیزا کو چٹ کر جانا
یہ انھی ننھے جانداروں کی شدید بھوک ہے جو انھیں کھانے کے کچرے کی پروسیسنگ کا بہترین زریعہ بناتی ہے۔
ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان مکھیوں کے لاروے کا ایک جھنڈ صرف دو گھنٹوں میں 16 انچ کے پیزا کو چٹ کر گیا تاہم اس سارے عمل میں اصل مہارت یہ ہے کہ انھیں بالغ مکھی بننے سے پہلے ختم کر دیا جائے۔
اس طرح پروٹین سے بھرپور مکھیوں کے لاروا کو پروٹین مصنوعات میں تبدیل کر کے جانوروں کی خوراک یا صنعتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے، مثلاً پینٹ، گوند، لیمپ شیڈ اور فرنیچر کے غلاف بنانے میں یہ بہترین طریقے سے استعال ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کو کھاد کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لاروے کا کھاد اور جانوروں کے کھانے میں استعمال
اگرچہ دنیا بھر میں کھانے کی اشیا کے کچرے کو مکھیوں کے لاروا میں استعمال کیے جانے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور انھیں پروٹین کے اجزا کے طور پر حاصل کیا جا رہا ہے لیکن زیادہ تر یہ تجارتی بنیادوں پر ہوتا ہے۔
مثلاً کسی ہوٹل یا اپارٹمنٹ بلڈنگ کے مالک اور مکھیوں کے لاروا پالنے والے کے درمیان نجی معاہدے کی صورت میں اس پروٹین کو حاصل کیا جا رہا ہے۔
پروجیکٹ میلا کینیا کا سماجی بہتری سے متعلق ایک ادارہ ہے جو مومباسا کے بڑھتے ہوئے کھانے کے کچرے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مکھیوں کے لاروا کو استعمال کر رہے ہیں اور ساتھ ہی مقامی کسانوں کو فریس (لاروا کی کھاد) بطور کھاد فراہم کر رہا ہے۔
اس کے باوجود صرف چند گنی چنی ہی سٹی کونسلز ہیں جنھوں نے کھانے کے کچرے کو پروسیس کرنے کا یہ طریقہ اپنایا۔
آسٹریلیا میں گوٹیرا (Goterra) نے سڈنی میں فوڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے مکھیوں کا لاروا استعمال کیا جو اس سال شروع ہونے والے ایک محدود آزمائشی منصوبے کا حصہ ہے۔
گزشتہ تین سال سے گوٹیرا تین مزید قصبوں کے ساتھ کام کر کے تقریباً 10 ٹن کھانے کے کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنا رہا ہے۔
تو کیا گھریلو کھانے سے 64 لاکھ ٹن سالانہ نکلنے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے برطانیہ کی کونسلز کو لاکھوں مکھیاں منگوانے کی اجازت ملے گی؟ یہ تو ہمیں وقت ہی بتائے گا۔
تاہم کیڑوں سے کچرے کو موثر طریقے سے ٹھکانے لگانے والی کمپنی فلائی باکس کے سی ای او اور شریک بانی لیری کوچ اس حوالے سے کافی پرامید ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی کیڑوں سے فضلہ پروسیسنگ کے مراکز برطانیہ میں کسی بھی اور کمپنی کے مقابلے میں زیادہ چلاتی ہے اور بنیادی طور پر نجی خوراک بنانے والوں اور سپر مارکیٹوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔
فلائی باکس کمپنی انسیکٹ بایوکنورژن ایسوسی ایشن (Insect Bioconversion Association) کی بانی رکن بھی ہے جو اس شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والا صنعتی ادارہ ہے۔
لیری کوچ کا خیال ہے کہ برطانیہ کی کونسلز اس میں دلچسپی رکھتی ہیں خاص طور پر اس لیے کہ مارچ 2026 سےوہاں گھریلو کھانے کے کچرے کو ہفتہ وار جمع کرنا لازمی ہو جائے گا۔
لوکل ری سائیکلنگ ایڈوائزری کمیٹی کے مطابق برطانیہ کی 317 مقامی انتظامیہ میں سے تقریباً 148 ابھی تک یہ سہولت فراہم نہیں کرتیں۔
تاہم محکمہ ماحولیات، خوراک اور دیہی امور(ڈیفرا) کے طے کردہ قواعد و ضوابط کھانے کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مکھیوں کے لاروا استعمال کرنے سے روکتے ہیں۔
لیری کوچ کا کہنا ہے کہ اگر قواعد و ضوابط سائنس کے مطابق طے کیے جائیں تو برطانیہ میں دو سال کے اندر پہلی کونسل سے معاہدہ شدہ کیڑوں کی پروسیسنگ کا پلانٹ قائم ہو سکتا ہے۔
’بدقسمتی سے حکومت میں ہمیشہ انکار کرنا زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کی جن کونسلز سے بھی ہماری بات ہوئی، وہ کیڑوں سے حاصل پروٹین کے بارے میں بہت پُرجوش ہیں اور وہ متبادل ٹیکنالوجی کے بجائے کیڑوں کے فارمز کے ساتھ کام کرنا کہیں زیادہ پسند کریں گے۔‘
ڈیفرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اینمل بائی پروڈکٹ ریگولیشنز (Animal By-Product Regulations) کارآمد کچرے کو کیڑوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے سے روکتی ہیں۔
محکمے کے ترجمان نے کہا کہ ’ہمارے ویسٹ مینجمنٹ کے ضوابط برطانیہ کی بائیو سکیورٹی کو تحفظ فراہم کرنے اور بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ فی الحال ان ضوابط پر نظرثانی کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔‘
کھانے کے کچرے کو زمین بھرنے والی جگہوں میں استعمال کرنے کے موجودہ طریقے میں کچرے کو تحلیل کیا جاتا ہے جس سے بائیو گیس بنتی ہے۔ اس متبادل عمل کو این ایروبک ڈائجیشن (Anaerobic Digestion ) کہا جاتا ہے۔
تاہم لیری کوچ کا کہنا ہے کہ موجودہ پلانٹس اس کچرے کے متوقع بڑے اضافے سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں۔
’عالمی سطح پر ہر سال 1.3 ارب ٹن سے زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس میں سے تقریباً 40 فیصد حصے کو کیڑوں کے ذریعے دوبارہ کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔‘
لیری کوچ مزید کہتے ہیں کہ ’اس سے نہ صرف ٹھکانے لگانے کی لاگت اور میتھین کے اخراج سے بچا جا سکتا ہے بلکہ قیمتی پروٹین اور نامیاتی کھاد بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘