ایران کی پارلیمان نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اقدام بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور ایران کے جوہری پروگرام کی عالمی نگرانی میں ایک بڑا خلا چھوڑ سکتا ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی (بائیں سے دوسرے نمبر پر) حال ہی میں ویانا میں ایران کی پارلیمان نے اس کی جوہری تنصیبات پر حالیہ اسرائیل اور امریکی فضائی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے بل کی منظوری دے دی ہے۔
یہ اقدام بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور ایران کے جوہری پروگرام کی عالمی نگرانی میں ایک بڑا خلا چھوڑ سکتا ہے۔
یہ بل جو بدھ کو منظور کیا گیا آئی اے ای اے کے عملے کے معائنے، نگرانی کی سرگرمیوں اور رپورٹنگ کو روک دے گا۔
اگرچہ اسے ابھی بھی ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل سے حتمی منظوری درکار ہے لیکن یہ بل تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔
کمیٹی کے ترجمان، رکن پارلیمنٹ ابراہیم رضائی نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد ایران کی خودمختاری قائم کرنا اور ’سیاست زدہ ایجنسی‘ کو پیچھے دھکیلنا ہے۔
اس کے باوجود ایران اس بل کے ذریعے سودے بازی بھی کر سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ایران کی طرف سے مغرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کی تجدید کے اشارے مل رہے ہیں اور صدر پژشکیان نے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ملک کی آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔
لیکن اب ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہ فیصلہ ایران پر مسلّط کی جانے والی بارہ روزہ فضائی جنگ کے بعد کیا گیا ہے جس میں اسرائیلی اور امریکی افواج نے فوردو، نظانز اور اصفہان سمیت متعدد ایرانی جوہری مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔
ایران نے جواب میں اسرائیل پر میزائلوں کی بوچھاڑ کی اور قطر میں امریکی اڈے پر بھی میزائل داغے۔
ایرانی پارلیمان کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر ان دونوں کے حملوں اور آئی اے ای اے کی حالیہ قرارداد کے سیاسی ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں ایران پر عدم پھیلاؤ کے وعدوں کی نان کمپلائنس یا عدم تعمیل کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ قرارداد اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے شروع کرنے سے ایک دن قبل سامنے آئی تھی اور ایران کے اعلیٰ عہدیداروں کا خیال ہے کہ اس نے حملوں کی راہ ہموار کی تھی۔
آئی اے ای اے ایران میں کیا کرتا ہے؟
آئی اے ای اے کے انسپیکٹرز اور ایرانی اہلکار سنہ 2014 میں نطانز کی جوہری فیسیلیٹی میںآئی اے ای اے نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
سنہ 2015 میں ایران نے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر ایک طویل مدتی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ ان طاقتوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی شامل تھا۔
معاہدے کی شرائط کے تحت، ایران نے افزودگی کی سطح کو محدود کرنے اور پابندیوں میں ریلیف کے بدلے بین الاقوامی معائنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔
سنہ 2018 میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو تاریخ کا بدترین معاہدہ کہہ کر امریکہ کو اس معاہدے سے نکالا اور دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ جس کے بعد ایران نے معاہدے کے کچھ حصوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔
اس نے یورینیم کو اعلیٰ سطح تک افزودہ کرنا شروع کر دیا، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو کم رسائی دی اور یہاں تک کہ جوہری مقامات پر اقوام متحدہ کے کچھ نگرانی والے کیمرے بھی بند کر دیے۔
تاہم آئی اے ای اے نے پہلے کے مقابلے میں کم ٹولز اور کم معلومات کے ساتھ بنیادی معائنہ جاری رکھا، کیونکہ ایران جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کا ابھی بھی ممبر ہے۔
جون 2025 کے تنازعے سے پہلے، آئی اے ای اے کے انسپکٹرز ایران میں تعینات رہے اور انھوں نے آخری بار ملک میں 400 کلوگرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی 60 فیصد تک افزودگی کی تصدیق کی تھی، جو کہ ہتھیار بنانے کے درجے سے نیچے ہے لیکن اسے اس سے ایک مختصر تکنیکی دوری پر سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی شہری استعمال کے لیے یہ ضرورت سے کہیں زیادہ افزودہ ہے۔
12 جون کو آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ایران پر اہم جوہری تنصیبات تک رسائی سے انکار، غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے نشانات کی وضاحت کرنے میں ناکامی اور آئی اے ای اے کی نگرانی کو کم کر کے اپنی این پی ٹی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کا الزام لگایا۔
آئی اے ای اے کے بورڈ میں شامل 35 ممالک میں سے 19 نے، بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیا جب کہ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس کی مخالفت کی۔
ایران نے کو سیاسی طور پر محرک اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور صرف ایک دن بعد، اسرائیل نے متعدد ایرانی جوہری مقامات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
دوہرا معیار؟
مارچ 2022 میں یوکرین کے زیپوریززیا جوہری پلانٹ پر آگ لگنے پر پوری دنیا کو تشویش ہوئی تھی آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کی مایوسی کی وجہ یہ ہے ایران سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ غیر مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔
جب روسی افواج نے 2022 میں یوکرین کے زیپوریززیا جوہری پلانٹ پر قبضہ کیا تو آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے فوری وارننگ جاری کی اور ماسکو پر ’آگ سے کھیلنے‘ کا الزام لگایا۔
اس کے برعکس، ایرانی جوہری ڈھانچے پر حالیہ حملوں کے دوران، گروسی نے اسرائیل یا امریکہ کا نام لینے سے گریز کیا، اور اس کے بجائے جوہری مقامات کے قریب کسی بھی حملے کے خلاف وارننگ دی۔
گروسی نے اس ہفتے کے شروع میں سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’میرا کام الزام لگانا نہیں ہے بلکہ حفاظتی اقدامات اور حادثات کو روکنا ہے۔ میں نے مسلسل خبردار کیا ہے کہ کسی بھی طرف سے کسی بھی جوہری سائٹ کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد گروسی نے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے۔
گروسی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ’آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو دوبارہ شروع کرنا ایک کامیاب سفارتی معاہدے کے لیے اہم ہے۔‘
’میں نے جلد از جلد وزیر خارجہ (ایرانی) عراقچی سے ملاقات کی تجویز پیش کی ہے۔‘
آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ انسپکٹر تنازع کے دوران ایران میں ہی رہے لیکن حفاظتی خدشات کی وجہ سے نگرانی کا کام معطل کر دیا لیکن اب وہ سائٹس پر واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔
آئی اے ای اے کی ’نمبر ون‘ ترجیح
آئی اے ای اے اپنے معائنہ کاروں کو جلد جلد از جلد ایرانی جوہری تنصیبات کے اندر واپس لانا چاہتا ہےبدھ کو آسٹریا میں ایک خطاب کے دوران گروسی نے کہا کہ ان کی ’نمبر ایک ترجیح‘ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات میں واپس لانا ہے، خاص طور پر افزودگی کے ان تین پلانٹوں میں جن پر 13 جون کو حملہ کیا گیا تھا، تاکہ نقصان کی حد کا اندازہ لگایا جا سکے اور ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر کی حیثیت کی تصدیق کی جا سکے۔
جب ان سے ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے بارے میں پوچھے گیا تو گروسی نے کہا کہ تہران نے انھیں 13 جون کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ جوہری مواد اور آلات کی حفاظت کے لیے ’خصوصی اقدامات‘ کرے گا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ دو طرفہ بات چیت میں کمی کی وجہ سے تفصیلات کا علم نہیں ہو سکا۔
’انھوں نے اس بات کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن واضح طور پر اس کا مطلب یہی تھا۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یہ مواد وہاں موجود ہے۔‘ گروسی کی بات سے لگا کہ شاید ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہحملوں سے بچ گیا ہے۔
آئی اے ای اے بورڈ آف گورنرز کو ایک الگ بریفنگ دیتے ہوئے گروسی نے فوردو اور نطانز میں بہت کم تابکاری اور کیمیائی ریلیز کی تصدیق کی لیکن یہ بھی کہا کہ سائٹ کی حدود سے باہر کسی تابکاری کا پتہ نہ چلا۔
گروسی نے خبردار کیا کہ ’سنگین ریڈیولاجیکل نتائج کے خطرے کی وجہ سے جوہری تنصیبات پر کبھی بھی حملہ نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
اگر ایران آئی اے ای اے کے ساتھ تمام تعاون معطل کر دیتا ہے تو بین الاقوامی برادری دنیا کے حسّاس ترین جوہری پروگراموں میں سے ایک کی ریئل ٹائم انفارمیشن سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
مغربی سفارت کار خبردار کرتے ہیں کہ یہ 2003 میں آئی اے ای اے کے نظام سے شمالی کوریا کے انخلا کے بعد سے اقوام متحدہ کی جوہری نگرانی میں سب سے سنگین بریک ڈاؤن ہو گا۔
مستقبل کا انحصار اب دو اہم فیصلوں پر ہے ایک، آیا ایرانی حکام قانون نافذ کرتے ہیں اور دوسرا کیا گروسی کی رسائی سفارتی اعتماد کو بحال کر سکے گی، اس سے پہلے کہ نگرانی کا نظام مکمل طور پر ہی ختم ہو جائے۔