پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سابق وزیراعظم عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق وزیراعظم عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
’ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں۔ پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس انٹرویو میں بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں، فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات سمیت انڈیا اور افغانستان سے متعلق کردار سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔
واضح رہے کہ یہ انٹرویو 18 مئی کو آئی ایس پی آر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بعض بین الاقوامی میڈیا ٹیموں کو انٹرویوز دیے تھے جن میں بی بی سی بھی شامل تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں، جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے۔ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے۔ اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔‘
خیال رہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان نیب اور فوج مخالف مقدمات کے باعث جیل میں قید ہیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ نو مئی 2023 کے پُرتشدد مظاہروں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ عمران خان یہ موقف اختیار کرتے آئے ہیں کہ وہ موجودہ اتحادی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر مذاکرات ہوں گے تو صرف فوجی قیادت سے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چند ماہ بعد ایسی خبریں سامنے آتی ہیں کہ ان کے اور فوج کے درمیان بیک چینل بات چیت ہو رہی ہے۔
جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟
ان کا کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں فوج کا سیاست میں کردار ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ پسِ پردہ اصل فیصلے فوجی قیادت ہی کرتی ہے اور یہ کہ فوجی قیادت سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ اور ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ خود فوج کے اندر بھی فوجی قیادت کی مبینہ سیاسی مداخلت پر سوال اٹھائے گئے۔ فوج کے اندر احتساب کا عمل بھی تیزی سے سخت ہوا اور کئی افسران کو سزائیں ملیں۔
حال ہی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ کا الزام لگا۔ ان تمام واقعات کے دوران یہ تاثر بھی موجود رہا کہ انہی سیاسی مداخلت کے الزامات کی وجہ سے فوج کی صفوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

’جب حکومت کہتی ہے تو فوج عوام کے لیے آتی ہے‘
تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کے لیے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔
’اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے۔ لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے۔ یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔‘
پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ فوج اپنی اصل ذمہ داری یعنی دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اب وہ دیگر شعبوں جیسے معیشت، ٹیکنالوجی اور انتظامی امور میں بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس سوال پر کہ فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سویلین معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور فوج اپنے مینڈیٹ سے ہٹ رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔
’میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں۔ اس ملک میں، اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں۔ ہم عوام کی فوج ہیں، اور جب بھی حکومت وقت،چاہے وفاقی ہو یا صوبائی،جب وہ ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان حد تک پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے، وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے۔ ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے۔ یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔‘
’سٹریٹجک غلط فہمیوں کا شکار لوگ اپنا ذہن صاف کریں‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق بھی بات کی۔
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں کئی دہائیوں سے سیاسی عدم اعتماد، شورش، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی اداروں پر اعتماد کے بحران کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل نشاندہی کرتی ہیں کہ یہاں لوگوں کو جبری طور پر اٹھا کر غائب کر دیا جاتا ہے اور ان کی بازیابی یا قانونی کارروائی کے کوئی شفاف راستے موجود نہیں۔
لاپتہ افراد کے خاندان برسوں ان کی تلاش میں گزارتے ہیں اور بعض اوقات ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں دہشتگردی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں لیتی ہیں جن میں بی ایل اے یا بلوچستان لبریشن آرمی سرفہرست ہے۔
پاکستانی حکومت یہ الزام لگاتی ہے کہ کئی مبینہ لاپتہ افراد دراصل انہی علیحدگی پسند تنظیموں کا حصہ بن کر ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ مقامی آبادی کی حمایت کے بغیر کیا بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے کوئی آپریشن کامیاب ہو سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’یہ انڈیا کی جانب سے پھیلایا گیا پراپیگنڈہ ہے کہ بلوچستان کے عوام پاکستانی فوج کے ساتھ نہیں ہیں۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’جو لوگ سٹریٹجک غلط فہمیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، انھیں اپنا ذہن صاف کرنا چاہیے۔ یہ خیال کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ نہیں ہیں، یہ بالکل غلط ہے۔ بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ یہ حقائق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان اور پاکستان ایک ہیں۔ یہ ہمارے سر کا تاج ہے۔ بلوچستان اور پاکستان کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہے۔ ایک بلوچ، پنجابی، پختون، کشمیری یا سندھی کے درمیان ہم سب ایک ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ مفروضے ان لوگوں نے پیدا کیے ہیں جو انڈین پیسے سے ملازمت کر رہے ہیں اور یہ الٹے سیدھے آئیڈیاز دے رہے ہیں۔ ’را‘ نے ہزاروں جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے ہیں جو یورپ میں چل رہے ہیں اور وہ ایک خام خیالی میں رہتے ہیں کہ جیسے بلوچستان میں وسیع پیمانے پر پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو دہشت گرد کام کر رہے ہیں، وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ وہ ہم سے براہ راست مقابلے سے گھبراتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے سامنے آئیں تو ہم انھیں مار دیتے ہیں۔ وہ گوادر آئے، ہم نے انھیں ختم کر دیا۔ جہاں بھی وہ ہماری پوسٹوں پر حملہ کرنے آتے ہیں، ہم انھیں مار دیتے ہیں۔ وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ وہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
’وہ عوام پر حملہ کر رہے ہیں، بسوں سے لوگوں کو اتار کر قتل کر رہے ہیں۔ وہ آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کیا ایسی کارروائیاں انھیں عوام میں کوئی عزت دلا رہی ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں؟ وہ اصل میں کس چیز کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ وہ ہر اس چیز پر حملہ کر رہے ہیں جو بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’پاکستان کی حکومت اور بلوچستان کی حکومت بلوچستان کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے مختلف شعبوں میں دن رات کام کر رہی ہیں۔ معدنیات، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی۔‘

’کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو غائب کرے‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن کام کر رہا ہے، تاہم یہ بھی کہا کہ فوج جبری گمشدگیوں کی اجازت نہیں دیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے ہمیں بیانیے، جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ہوگا۔ کیا لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان میں منفرد ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کیا انڈیا میں لاپتہ افراد ہیں؟ جی ہاں، بہت بڑی تعداد میں، لاکھوں میں۔ کیا برطانیہ میں لاپتہ افراد ہیں؟ جی ہاں۔ کیا امریکہ میں ہیں؟ جی ہاں، وہاں بھی ہیں۔ اب پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر، ایک کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنسز ہے، جو ایک مستقل کمیشن ہے۔ اس کی سربراہی سپریم کورٹ کی سطح کے ایک جج کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان ہر ایک ایک بندے کو تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہنے کے بعد میں واضح کر دوں کہ کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی شخص کو غائب کرے، اس کو اٹھائے اور اس کو حبس بے جا میں رکھے۔ اس کی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ ہم سختی سے اس کی ممانعت کرتے ہیں اور جو بھی ذمہ دار ہیں انھیں تلاش کیا جاتا ہے اور انھیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ لاپتہ افراد کی تعداد پر بحث سے قطعہ نظر، یہ الزام فوج پر آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ ایسی صورت میں ایف سی کو اس کی تفتیش کرنا نامناسب ہوتا ہے، کیونکہ ان پر الزام ہے۔ اس لیے ریاست نے ایک مناسب قانونی عمل وضع کیا ہے۔ اس نے ایک ایسا کمیشن بنایا ہے جو بہت آزاد، بااختیار اور خاص طور پر انہی کیسز کی تحقیقات پر مامور ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ ’میرے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم تحقیق کریں۔ یہ ادارہ جاتی نظام کی بات ہے۔ میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی بھی فرد کو اس کے گھر سے اٹھانا اور غیر قانونی حراست میں رکھنا بالکل غلط ہے۔ اس کا ایک قانونی عمل ہے۔ کسی بھی فرد کو قانون کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، اور اگر وہ قصوروار ہے تو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں قانون کے نظام کو موثر اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح یورپ میں ہوتا ہے کہ فسادات ہوئے تو ایک ہفتے میں سزا ہوئی لوگوں کو۔‘
سائبر نگرانی اور آزادیِ اظہارِ رائے پر کنٹرول، اور فوج کا موقف
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، خاص طور پر آئی ایس آئی جیسی خفیہ ایجنسی کو مسلسل ان الزامات کا سامنا رہا کہ وہ شہریوں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی خفیہ سائبر نگرانی کرتے ہیں اور ان کی ٹیکنیکل سرویلنس کی جاتی ہے، جبکہ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ ملک میں خاص طور پر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بی بی سی نے ان الزامات سے متعلق بھی ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری سے سوال کیا اور پوچھا کہ اگر یہ الزام سچ ہے تو پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہی شہریوں کی سائبر نگرانی کی ضرورت کیوں ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق بنیادی دستاویز ہے جس میں لکھا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی تو ہو گی لیکن اس کے کچھ اصول اور پابندیاں ہوں گی۔‘
’یہ پابندیاں بالکل واضح ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو، یا پاکستان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے، ہمارے عدالتی نظام کی توہین کرے، عوام کی اخلاقیات کو تباہ کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ اصول اور قوانین ہیں اور یہ اس لیے اہم ہیں کہ معاشرہ ان کے بغیر چل نہیں سکتا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا تقابل انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران انڈیا میں مبینہ قدغنوں سے کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان میں کتنی اظہارِ رائے کی آزادی ہے اور اس کا گذشتہ دنوں انڈیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت سے موازنہ کریں۔ آپ نے دیکھا کہ انھوں نے نہ صرف بین الاقوامی یا پاکستان کے اکاؤنٹس بند کیے بلکہ اپنے ہی انڈین سمجھدار لوگوں کے اکاؤنٹس بھی بند کر دیے۔ وہ اب بھی ایسا کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں۔‘
تاہم اس سوال پر کہ اس حالیہ کشیدگی کی بجائے گذشتہ چند سالوں میں دیکھا جائے تو پاکستان میں صحافیوں کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا ہاؤسز پر دباؤ کی باتیں بھی سامنے آئیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نےکہا کہ میڈیا چینلز کی اپنی رپورٹنگ کے حوالے سے اپنی ترجیحات اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتے ہیں۔ پھر پیمرا کا ایک قانونی فریم ورک ہوتا ہے۔ انھوں نے خود اس پر دستخط کیے ہوتے ہیں اور بطور لائسنس ہولڈر اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
’اب جب وہ خود ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو لوگ اس پر مفروضے بنا لیتے ہیں، جن پر ہم کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔‘
'ایک پاکستانی شہری کی زندگی ہمیں ہزاروں افغان شہریوں سے زیادہ مقدم ہے'
پاکستان میں گذشتہ دو برسوں کے دوران دہشتگردی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں شدت آئی ہے اور پاکستان بار بار افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو کہتا رہا ہے کہ ان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ہم عبوری افغان حکومت سے مختلف سطحوں پر رابطے میں رہے ہیں کہ آپ ہمارے برادر مسلم ہمسایہ ہیں اور آپ برائے مہربانی ان خوارج اور دہشت گردوں کی حمایت نہ کریں۔ یہ ان کے ہیڈکوارٹرز اور مراکز ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں۔ اور ساتھ ہی، جب ہم بہت سلیقے اور سفارتی احترام کے ساتھ بات کرتے ہیں، تو اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک پاکستانی کی زندگی اور خون ہمارے لیے ہزار افغانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے مسلح افواج بنی ہیں یعنی پاکستانی عوام کی جان، عزت اور خودمختاری کا تحفظ۔ اور ہم نے یہ صرف کہا نہیں، بلکہ بارہا کر کے دکھایا ہے، میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہمیں معلوم ہے ہم کس سے نمٹ رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ افغان نہیں ہیں بلکہ انڈین پیسہ، انڈین مدد اور انڈیا کی حکمت عملی ہے اور ان میں سے کچھ افغانوں کے پیچھے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا پاکستان افغانستان کے اندر دہشت گرددوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’ہم ہمیشہ اس معاملے پر افغان حکومت سے کھل کر بات کرتے ہیں کہ ہماری اوّلین ترجیح پاکستانی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے اور یہ ہمارا مقدس فریضہ ہے۔ یہ وہ مقدس ذمہ داری ہے جو ہمیں سونپی گئی ہے۔ ہم جو بھی ضروری ہو گا، کریں گے۔ اور آپ نے اس کا عملی مظاہرہ 10 مئی کو آپریشن بنیان المرصوص میں دیکھا۔ ‘
پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ’ہم نے 26 مقامات پر اعلانیہ حملہ کیا، صرف ایل او سی یا ورکنگ باؤنڈری پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سرحد پار بھی جا کر ان کو مارا۔ ہم اپنے ملک اور اس کی حفاظت میں کسی چیز سے گریز نہیں کر سکتے۔ لیکن ساتھ ہی ہم افغانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی زمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔‘