درد کی لکیر

وہ بوڑھا شخص ہاتھ میں پرچی تھامے یہاں سے وہاں دوڑ رہا تھا،،اس کی زبان
بھی سب کے لیے اجنبی سی تھی،،،
مگر اس کے چہرے پر درد کی لکیریں ،،،ہر انسان کی مشترکہ تھیں،،،

وہ دعائیں،،خون،،،درد اور پیسوں کی لکیریں لیے گھوم رہا تھا،،،کاغذ پر لکھی
ہوئی لکیریں ہر کوئی پڑھ رہا تھا،،،مگر اس کے چہرے پر درد کی لکیر کسی
کے سمجھ میں نہیں آرہی تھی،،،

وہ وارڈ کی کھڑکی سے اندر نیم مردہ سے جسم کو ہاتھ سے اشارہ کرتا تھا،،،
وہ بیمار لاغر سی عورت جو کہ اس بوڑھے سے کوئی آٹھ سال کم ہوگی،،،مگر
اس کی درد دکھ کی لکیریں اس بوڑھے سے کئی ذیادہ تھیں،،،

نرس نے اس بڑھیا کو دیکھا،،،پھر ہاتھ میں بندھی ہوئی ورسٹ واچ کو دیکھا،،،
غصے اور افسوس سے ملے ہوئے احساس سےکندھے اچکائے،،،
اور بے حس سی وارڈ سے باہر نکل گئی،،،

بوڑھا ڈبڈوباتی آنکھوں سے اس بڑھیا کو دھندلی سی تسلی دے کر اک بار
پھر کھڑکی سے غائب ہوگیا،،،

بڑھیا کا درد ناقابلِ برداشت ہو گیا تو اس نے آنکھیں بند کرلیں،،،شاید وہ
سوچ رہی تھی،،،‘‘میں آنکھیں بند کرکے غائب ہو جاؤں گی،،،اور،،،درد مجھے
نہیں ڈھونڈ پائے گا،،،‘‘

وارڈ میں انچارج ڈاکٹر آیا،،،جونیئر ڈاکٹر اس کے آگے پیچھے ایسے ہو رہے
تھے،،،جیسے وہ اس ملک کی کوئی بڑی شخصیت ہو،،،
جونیئر اس کو ہرمریض کا کیس بتارہے تھے،،،اور وہ چارٹ دیکھے بنا ہی
کچھ کہتا اور آگے بڑھ جاتا،،،

جیسے ہی وہ اس بڑھیا کے بیڈ کے پاس آیا،،وہ بوڑھا دوڑ کے ڈاکٹر صاحب
کے پاس آگیا،،،بتانے لگا کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ سب کچھ
لاسکے،،،
ڈاکٹر کو اس کی بات سمجھ ہی نہیں آئی،،،جونیئر نے بتایا،،سر ! یہاں ہر دوسرا
کیس ایسا ہی آتا ہے ،،،ہم اس کو پین کلر دے رہے ہیں،،،اس سے ذیادہ کیا
کرسکتے ہیں،،،ہم ڈاکٹر ہیں جادوگر نہیں،،،

بوڑھا وارڈ سے باہر نکل آیا،،،اپنے کندھے پر پڑا ہوا کپڑا زمین پر بچھا کر سڑک
پر بیٹھ گیا،،،
اذان ہوگئی،،،کچھ لوگ خدا کو دیکھنے مسجد کی جانب چل پڑے،،،
بوڑھا بھوکا پیاسا ،،،کچھ گھنٹوں میں کچھ روپے جمع کرسکا،،،مگر اس کا
کپڑا پورا اس کے آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا،،،

اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی دکھ سکھ کے جیون ساتھی کے سامنے
بھکاری بن جانے کے بعدجائے،،،وہ چھپ کر کھڑکی سے دیکھنے لگا،،،
وہ چادر اوڑھے سو رہی تھی،،،چلو اسے نیند تو آئی،،،بہت راتوں سے وہ درد کی
وجہ سے سو نہیں پائی تھی،،،

پھر اک خوف نے اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا،،،‘‘گل خان!! تم نے کبھی
بھی ہاتھ پھیلایا،،،چاہے میں مر بھی رہی ہوں،،،ایسا کبھی نہ کرنا،،،میں اسی
دن جان دے دوں گی‘‘،،،

وہ دوڑتا ہوا وارڈ میں گیا،،،اس نے وعدہ توڑ دیا تھا،،،چلو سو رہی ہے،،،پاؤں پکڑ
کے معافی مانگ لوں گا،،،اس کو پتا بھی نہیں چلے گا،،،

بوڑھے نے چادر میں ہاتھ ڈال کر اس کے پاؤں پکڑ لیے،،،اس بڑھیا کے پاؤں کے
دونوں انگوٹھے آپس میں باندھ دئیے گئے تھے،،،
اس نے اپنی بات پوری کردی،،،بوڑھے نے سر اس کے پاؤں میں رکھ دیا،،،
اجنبی زبان میں کہا،،،
‘‘معاف کردو اللہ کا واسطہ‘‘
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1194078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.