ڈاکٹر غلام شبیر ر انا
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سُنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چُپ چاپ
ممتاز دانش ور ،لسانیات ،تدریس ، نجوم ،عمرانیات ،علم بشریات ،تاریخ
،نفسیات اور فلسفہ کے یگانۂ روزگار فاضل پروفیسر احمد بخش ناصر نے سال
2017کے وسط میں زینہ ٔ ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ
سفر باندھ لیا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت
کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی تحقیق و تنقیدکی
درخشاں روایات کا علم بردارفطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیااُٹھا کہ وفا کے
سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔اس کے سیکڑوں مداح
ہزاروں عقیدت مند اور لاکھوں شاگرد اس یگانہ ٔ روزگار فاضل کی دائمی مفارقت
کی خبر سُن کر سکتے کے عالم میں ہیں ۔
احمدبخش ناصر کا شمارحریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا تھا جنھوں نے
زندگی بھر حرفِ صداقت لکھنا اپنا دستور العمل بنایا۔ ظالم و سفاک ،موذی و
مکار استحصالی عناصر سے اُسے شدید نفرت تھی۔ انسانیت کی توہین،تذلیل ،تضحیک
اور بے توقیری کے مر تکب زمین کے ہر بوجھ پر لعنت بھیجنا اس کا شعار تھا ۔
مصلحت اندیشی کے بجائے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم
بلند رکھنے والے اس جری ادیب نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کوملحوظ رکھا اور فسطائی
جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔ وہ اس بات پر زور دیتا تھا
کہ شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مظالم کو نوشتہ ٔ تقدیر سمجھ کر برداشت کرنا
اور انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے درندوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند نہ
کرنا دُو ں ہمتی،بُزدلی اور منافقت کی دلیل ہے ۔حق گوئی اور بے باکی کو
زادِ راہ بنا کرجو فروش گندم نما ، کفن دُزد،چربہ ساز اور سارق مسخروں کے
مکر کا پردہ فاش کرنے والے اس جری ،فعال ،مستعد اورزیرک تخلیق کار نے اپنی
تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی
مقدور بھر سعی کی ۔اپنے منھ میاں مٹھو بننے والے عادی دروغ گو اور تعلّی کو
وتیرہ بنانے والے خفاش منش سفہا اور اجلا ف و ارذال کے قبیح کردار سے اُسے
شدید نفرت تھی ۔ چو رمحل میں جنم لینے والے اور چور درازے سے داخل ہو کر
اپنی جہالت کا انعام ہتھیالینے والے جامہ ٔ ابو جہل میں ملبوس مرغانِ باد
نما ، متشاعروں ، تحقیق و تنقید کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے کار ناموں پر
ہاتھ صاف کرنے والے ادبی اُچکوں ، مہا مسخروں اور تخلیقِ ادب کی اقلیم کے
سسلین مافیا کو وہ ہٹلر کے ترجمان جرمن فلسفی گوئبلز ( Joseph Goebbles:
1897-1945) کا مقلد قرار دیتا جن کے مکر کی چالوں اور ایذا رسانیوں سے ادبی
منظر نامہ گہنا گیا ہے ۔اُسے یقین تھا کہ جب مظلوموں کا لہو سوزِ یقین سے
گرمانے لگے گا تو کاخِ امرا اور جبر کے ایوان پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔اس
کے نتیجے میں ظلم کا پرچم بالآخر سر نگوں ہو گا اور دُکھی انسانیت کی
امیدیں بر آئیں گی۔اِبن الوقت ،منافق ،تھالی کے بینگن اور مرغانِ باد نما
کے لیے وہ شعلۂ جوالا بن جاتا اور ان کو للکارتے ہوئے یہ اَشعار پڑھ کر
تزکیہ نفس کی صورت تلاش کر لیتا تھا :
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کِس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی اِبلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کِس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
احمد بخش ناصر ؔ کی وفات کی خبر سن کر شہر کا شہرسوگوار تھا اور اہم تجارتی
مراکز اس نابغۂ روزگار تخلیق کار کے سوگ میں بند تھے۔ شہر اور مضافات سے
آنے والے ہزاروں طالب علم ، محنت کش ،معززین شہر اور ہر مکتبہ ٔفکر سے تعلق
رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے خودی کے اس نگہبان کے حضور آنسوؤ ں اور
آ ہوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ اس کے ممتاز معاصرین اور معتقدین نے اپنے جذبات
حزیں کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ احمد بخش ناصر علم و ادب کا ایک دائرۃ
المعارف تھاجس کی موت نے علم وادب کے دبستانوں سے وابستہ افراد اور ہزاروں
تشنگانِ علم کو علمی و فکری اعتبار سے مفلس و قلاش کر دیا ۔ اپنے دیرینہ
رفیق اور معتمد مشیر احمد بخش ناصر کی موت کے صدمے سے نڈھال ہو کر
پروفیسرغلام قاسم خان نے زار و قطار روتے ہوئے کہا :
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اُس سے
وہ جو ایک شخص ہے منھ پھیر کے جانے والا
احمد بخش ناصر کا تعلق جھنگ کے ایک ممتاز علمی وادبی خاندان سے تھا۔
پروفیسر غلام قاسم خان کی طرح اس کے آبا و اجدادکا تعلق بھی طائف سے تھا
اور وہ سال 712میں سندھ پہنچنے والی مسلم فوج کے نوجوان مسلمان سالا ر محمد
بن قاسم (695-715) کے ہمراہ شورکوٹ پہنچے تھے ۔ اپنے آبا و اجدادکی علمی
،ادبی اور تبلیغی خدمات پر احمد بخش ناصر کو ناز تھامگر اپنی خدمات کے بارے
میں وہ کسی تعلّی یا زعم میں مبتلا نہ تھا اور ہمیشہ عجز و انکسار سے کام
لیتا تھا ۔عالمی کلاسیک ،ادبی تحریکوں ،تنقید و تحقیق اور جدید لسانیات پر
احمد بخش ناصر کو خلاقانہ دسترس حاصل تھی ۔ احمد بخش ناصر کو پاکستان کی
تمام علاقائی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔اس نے انگریزی ،اردو ،پنجابی ،عربی
،فارسی ،روسی ،جرمن اور بنگالی زبان کے ادب کا عمیق مطالعہ کیا تھا ۔ کو ہ
پیمائی ، سیر و سیاحت ،مطالعہ اور آثار قدیمہ میں اس کی گہری دلچسپی اس کے
ذوقِ سلیم کا ثبوت ہے ۔اس کے ذاتی کتب خانے میں ادیانِ عالم ،تاریخ ،فلسفہ
،نفسیات ،عمرانیات اورادبیات عالم کے موضوع پردس ہزار کے قریب نادر کتب
موجود تھیں ۔برقی ڈاک (E.Mail)کے ذریعے اس کے دنیا بھر کے جن ممتاز ادیبوں
سے رابطے تھے ان میں ژاک دریدا ( : 1930-2004 Jacques Derrida)،رالف رسل (
1918-2008 : Ralph Russell )،این میری شمل ( 1922-2003 :Annemarie Schimmel
)شامل ہیں ۔ رومانی لو ک کہانیوں پر مشتمل بلا ل زبیری کی تصنیف ’’جھنگ کی
لوک کہانیاں ‘‘ اور ’’تاریخ جھنگ ‘‘پر احمد بخش ناصر کے تجزیاتی مضامین بہت
اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔اﷲ کریم نے احمد بخش ناصر کو صبر و تحمل اور
شگفتہ مزاجی کے ارفع اوصاف سے نوازا تھا ۔اُس کی گُل افشانی ٔ گفتار سے
محفل کِشتِ زعفران بن جاتی تھی ۔ مختلف شعرا کے سیکڑوں اشعار اُسے زبانی
یاد تھے دوران گفتگو ان ضرب المثل اشعار کے بر محل استعمال سے وہ اپنے موقف
کا اثبات کرتا تھا ۔جب اس نے دیکھا کہ اُس کے آبائی شہر میں چور محل میں
جنم لینے والے،سانپ تلے کے بچھو ،مارِ آستین چور درواز ے سے گُھس کر اہلِ
کمال کے در پئے پندار ہیں تواُس کا دِل بُجھ گیا ۔اس لرزہ خیز اور اعصاب
شکن صورتِ حال کے بارے میں وہ اکثر یہ شعر دُہراتا تھا :
یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے
کُوفے کے قریب ہو رہا ہے
آثار قدیمہ ،تاریخی نوادرات اور ماضی کی یادوں کی امین عمارات میں اس نے
ہمیشہ گہری دلچسپی لی اپنے اس ذوق کی تسکین کے لیے اس نے اپنے شاگردوں کے
اشتراک سے قلعہ لاہور ،مقبرہ جہاں گیر،لاہور ،بھنبھور (سندھ)،روات،تخت
بھائی،دراوڑ قلعہ (بہاول پور )، بھون، ماکلی (ٹھٹھہ)، پیر عبدالرحمٰن ،
پنڈی لال مرید ،شورکوٹ ،ہڑپہ ،مو ہنجودڑو ،ٹیکسلا اور پنج پیرکے کھنڈرات کے
مطالعاتی دوروں کا اہتمام کیا۔وہ اس بات کی طرف توجہ دلاتا تھا کہ ماضی کی
یہ نشانیاں در اصل تہذیبی،تاریخی ،ثقافتی ،معاشرتی اور تمدنی نشیب و فراز
کی چشم کشا صداقتوں سے لبریزعبرت ناک کہانیاں زبانِ حال سے سنا کر احتسابِ
ذات پر مائل کرتی ہیں ۔پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں میٹر وبس کی تکمیل
کے بعدسال 2016کے آغاز میں جب اس تاریخی شہر میں اورنج ٹرین چلانے کا فیصلہ
ہواتو احمد بخش ناصر شدید تشویش میں مبتلا دکھائی دیتا تھا۔اس کا خیال تھا
کہ اس قسم کے منصوبے عہد رفتہ کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور تمدن کے مظہر
دُھندلے اور مٹتے ہوئے آثار قدیمہ جوپہلے ہی سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کے
باعث اپنی شان اور شناخت کھو چکے ہیں،ارتعاشات کے خطرناک اثرات کی زد میں آ
کر رفتہ رفتہ نیست و نابود ہو جائیں گے۔ لاہور میں جی ٹی روڈ کے نزدیک سال
1641میں تعمیر ہونے والی عمارت ’’بدھو کا آوا ‘‘ جب اورنج ٹرین منصوبے کی
زد میں آئی تو احمد بخش ناصر فرط ِ غم سے نڈھال تھا ۔ مغل شہنشاہ شہاب
الدین شاہ جہاں (1592-1666)کے عہد سے تعلق رکھنے والے اینٹوں کے اس تھپیرے
کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا ۔زندگی بھر یہ شخص راجوں ،مہاراجوں اور
مجاوروں کا معتوب رہا اور مرنے کے بعد اس کی آخری آرام گاہ بھی میر تقی
میرؔ کی قبر کی طرح ریلوے ٹرین کی پٹڑی کی زد میں آ گئی ۔ نر گسیت کا
شکاربدھو اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ اس بے حس معاشرے میں لوٹو ں اور لٹیروں
کی سدا پانچوں گھی میں رہتی ہیں مگر تھپیروں کے گھروں کی منڈیریں کووں کی
آواز کو ترستی رہتی ہیں اور اُن کا آوا ہمیشہ کا پچھتاوا بن جاتا ہے ۔ اس
موضوع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اس نے بُدھو کمھار کے بارے میں یہ
شعر پڑھا :
ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو
تُو وہی کا وہی رہا بُدھو
سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے والے ماضی کے متعدد کھنڈرات کے بارے
چشم کشا صداقتوں کا احوال احمد بخش ناصر نے اپنی ڈائری ’’یادیں اور فریادیں
‘‘میں زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ لوک داستانوں اور لوک ادب کا وہ دل دادہ تھا او
راپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے حسن و عشق کی جن لوک
داستانوں پر دادِ تحقیق دی ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
رومیو اور جولیٹ (Romeo and Juliet) ،قلو پطرہ اور مارک انٹونی (Cleopatra
and Mark Antony)، لینسلاٹ اور گینوار ( Lancelot and Guinevere)
پیرس اور ہیلینا(Paris and Helena)،ٹرسٹن اور آئسولڈ (Tristan and
Isolde)،آرفوس اور یوریڈس( Orpheus and Eurydice)،لیلیٰ اور مجنوں ،سسی اور
پنوں ،شیریں اور فرہاد ،راول اور جگنی ،رستم اور سہراب ،انار کلی اور
شہزادہ سلیم،ممتاز محل اور شاہ جہاں ،شانتی اور نابو۔ان رومانی داستانوں کے
تنقیدی و تحقیقی مطالعہ پر مبنی اپنے تجزیات کو احمد بخش ناصر نے اپنی
یاداشتوں کے مخطوطہ ’’روداد اور بے داد ‘‘میں سمیٹا ہے ۔ حیف صد حیف کہ
احمد بخش ناصر کو معیشت کے افکار نے اس قدر اُلجھائے رکھا کہ وہ اپنی
تصانیف کی اشاعت پر توجہ نہ دے سکا۔اس کی تصانیف بھی ممتاز فرانسیسی ادبی
تھیورسٹ رولاں بارتھ(1915-1980) کی معروف تصنیف S/Z کی طرح اس کی زندگی میں
منظر عام پر نہ آ سکیں ۔
اپنے وسیع مطالعہ کے اعجاز سے اس نے جدیدیت ،مابعد جدیدیت ، ساختیات ،پس
ساختیات،رد تشکیل اورمافوق اضافی حقیقت (Hyperreality) جیسے اہم موضوعات پر
اپنی تنقیدی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا۔تخلیق اور اس کے
پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات کے بارے احمد بخش ناصر کی پیش بینی کا ایک
عالم معترف تھا ۔اس نے دلائل سے واضح کیاکہ تجربات اور مشاہدات کے دوران
ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جب لاشعور حقیقت اور فریبِ حقیقت ،سائے اور
سراب ،اصلیّت اور تصنع ،کندن اور ملمع سازی کی جانچ پرکھ کے دوران میں بے
بضاعتی کے شدید احساس کے باعث کفِ افسوس ملنے لگتا ہے اور تمنا کے دوسر ے
قدم تک رسائی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔تنقید و لسانیات میں احمد
بخش ناصر نے عالمی شہرت کے حامل جن نامور ادیبوں اور دانش وروں سے استفادہ
کیا ان میں آل احمد سرور ،مشفق خواجہ ،انتظار حسین ،عبداﷲ حسین ،وحید قریشی
،نثار احمد قریشی ،بشیر سیفی ،صابر کلوروی ،صابر آفاقی ،رضا ہمدانی ، گبریل
گارسیا مارکیز(Gabriel García Márquez)، سوسئیر (Ferdinand de Saussure)،
مارٹن ہیڈیگر (Martin Heidegger) ،گائتری چکراورتی سپی واک (Gayatri
Chakravorty Spivak)، رولا ں بارتھ (Roland Barthes)، ژاک دریدا (Jacques
Derrida)،مشل فوکاں ( Michel Foucault,)،جو لیا کر سٹیوا (Julia Kristeva)،
سوساں سونٹیج (Susan Sontag)،گیرارڈ گینٹے (Gérard Genette)،جیمز ووڈ
(James Wood)، ایرک ڈی کائپر (Eric de Kuyper)اور فلپ جوزف سلاذر
(Philippe-Joseph Salazar) شامل ہیں ۔احمد بخش ناصر کے اسلوب میں اس کے
وسیع مطالعہ کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔
احمد بخش ناصر کو اُتر پردیش (بھارت )سے تعلق رکھنے والے اُردو زبان کے
ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی(1892-1977) کا اسلوب بہت پسند تھا۔ اُردو ادب
میں طنز و مزاح کے موضوع پر رشید احمد صدیقی کی تحقیقی کتاب’’طنزیات و
مضحکات ‘‘کو وہ اردو ادب میں طنز و مزاح کے ارتقا کی ایک مستند تاریخ قرار
دیتا تھا ۔ایک باریک بین محقق کی حیثیت سے مطالعہ ٔ ادب کے حوالے سے رشید
احمد صدیقی کی بیٹی سلمیٰ صدیقی (B:18-6-1931,D: 13-2-2017 ) کے ذوق سلیم
کو بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔اس کے باوجود اس کے آگے جب بھی کوئی
سلمیٰ صدیقی کا نام لیتا تو احمد بخش ناصرکی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں اور وہ
اپنے دِلِ صد چاک کو تھام تھام لیتا ۔وہ اپنے احباب کو اکثر اس جانب متوجہ
کرتا کہ جب سال 1957میں سلمیٰ صدیقی نے اردو افسانہ نگار کرشن چندر
(1914-1977)سے شادی کی تو اس کے سیکڑوں مداحوں کو اس غیر متوقع فیصلے پر
حیرت اور قلق ہوا۔اس موضوع پر اگرچہ وہ کم کم اظہار خیال کرتامگر جب بھی
ادیبوں کی نجی زندگی کے ایسے غیر معمولی واقعات کا ذکر ہوتا اس کے چہرے پر
شدید ناگواری اور بے زاری عیاں ہو جاتی ۔ وہ دلِ گرفتہ لہجے میں یہ بات
کہتا کہ محبتیں اور چاہتیں جب ہوس کی مظہر نمود و نمائش اور آرام و آسائش
کی حرص سے لبریز ملمع سازی کی اسیر ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں اسی طرح کے
گُل کھلتے ہیں۔وہ ممتاز ادیبوں کی نجی زندگی کی محبت بھری کیفیات کے بے
ہنگم ارتعاشات اور آلام پر دل گرفتہ رہتا ،خاص طو ر پر جب وہ جون ایلیا ،
مصطفیٰ زیدی ، رام ریاض اورابن انشا کا ذکر کرتا تو اس کی آ نکھیں پُر نم
ہو جاتیں ۔ادیبوں کی نجی زندگی کے اس نوعیت کے روح فرسا المیے کو سمے کے سم
کا ثمر اور چشمِ حسود کا ایسا شاخسانہ قرار دیتا جو ہر عہد میں پرورش لوح و
قلم کرنے کے ساتھ ساتھ کسی کی آرزو میں جینے والوں کے لیے عبرت کا تازیانہ
ثابت ہو گا۔اس کی رائے تھی کہ نوشتۂ تقدیر اور گردشِ ایام نے ان ادیبوں کی
کتابِ زیست کے اوراق کو اس طرح چاک چاک کیا کہ رفوگری کے اِمکانات معدو م
ہو گئے۔ وہ تانیثیت کا پر جوش حامی تھا اورعلمی و ادبی محفلوں میں وہ پروین
شاکر (1952-1994)اورامرتا پریتم (1919-2005)کی نجی زندگی کا ذکر کر کے اپنے
موقف کو مدلل انداز میں پیش کرتا تھا ۔ وہ ادب کے قارئین کو مشورہ دیتا کہ
قلزم ِ ہستی میں ہچکولے کھاتی کشتی ٔ جاں ،رشتے ،ناتے ،تعلقات اور رابطوں
میں لفظوں کے پُل کی اہمیت سمجھنے کے لیے ادب کے قاری کو امرتا پریتم کی
خود نوشت ’’رسیدی ٹکٹ ‘‘کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ وہ بے پایاں خلوص و
مروّت ،پیار و محبت اور ایثار و وفا کو پریوں کے دیس کا آئین سمجھتا تھا۔
حسین و جمیل پریوں کے دیس میں پہنچنے کے لیے زندگی کی اقدارِ عالیہ کے تحفظ
کی قسم کھانا ضروری ہے ۔انسانیت کی توہین،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے
مرتکب مشکو ک نسب کے اجلاف و ارذال اور ابلیس نژاد خسیس کسی صورت میں پریوں
کے دیس کے مرغزاروں میں مستانہ وار گھومنے کے لیے نہیں پہنچ سکتے ۔ دنیا
اورآخرت میں اس قماش کے سفہا کا اصل مقام ہاویہ ہی ہے ۔
ممتاز ماہر نفیسات حاجی حافظ محمد حیات نے ادیبوں کی نجی زندگی کے نشیب و
فراز کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔ وہ اس بات کا پختہ یقین رکھتے تھے کہ پریشان
حالی و درماندگی میں دست گیری کرنے والا تنہا دوست اُن بے شمار طوطا چشم
،ابن الوقت ،مارِ آستین ،چڑھتے سورج کے پجاری ،تھالی کے بینگن اور بہتی
گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنا اُ لّو سیدھا کرنے والے رشتہ داروں سے کہیں بہتر
ہے جو آزمائش و ابتلا کی گھڑی میں پیٹھ میں چُھرا گھونپنے سے دریغ نہیں
کرتے ۔ طالع آزما اور مہم جُو عناصر اپنی قوت و ہیبت سے زندگی کی اقدارِ
عالیہ ،درخشاں روایات ،مسلمہ صداقتوں اور اصولوں کو منہدم کر کے ان کے ملبے
پرشان سکندری اور جلالِ قیصری کے مظہر جو سر بہ فلک مینار تعمیر کرتے ہیں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اِن ظالم و سفاک قوتوں کے پروردہ اجلاف و ارذال
لیے ندامت اور خست و خجالت کی علامت بن جاتے ہیں۔ احمد بخش ناصر اور حاجی
حافظ محمد حیات کے مراسم چار عشروں پر محیط تھے۔ ایک ادبی نشست میں حاجی
حافظ محمد حیات نے بتایا:
’’ باطنِ ایام پر گہری نظر رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ کسی کو ٹُوٹ
کر چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو اس دنیا کی واحد خوشی سمجھی جاتی ہے ۔قحط
الرجال کے موجودہ دور کاالمیہ یہ ہے کہ محبت کو بھی ایک منفعت بخش تجارتی
کاروبار کا درجہ حاصل ہو چکا ہے ۔ مجازی محبت کی اسیرامرتا پریتم جو ساحر
لدھیانوی (عبدالحئی ) کو میرا خدا ، میرا شاعر ،میرا محبوب اورمیرا دیوتا
تک قرار دیتی تھی ،اُسے شریک حیات نہ بنا سکی ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں
تو اور کیا ہے کہ اس دنیا میں تقدیر اور قضا و قدر کے ایسے فیصلے بھی سامنے
آتے ہیں جن سے کسی طورمفر نہیں ۔تقدیر اگر ہر لحظہ اور ہر گام انسانی عزائم
،تدابیر اور فیصلوں کی دھجیاں نہ بکھیر دے تو اُسے قضا و قدر کے اٹل فیصلوں
کی پہچان کیسے کہا جا سکتا ہے ۔کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے مفادات کے
استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے بے لوث محبت ،خلوص
، وفا ،انا ،خودداری ،عہد و پیماں ،ایثار اور دردمندی کے ارفع جذبات کو تہس
نہس کر دیاہے اور بے لوث محبت اس جہاں سے اُٹھ گئی ہے ۔ شاید اسی لیے اپنی
ماں (سردار بیگم ) سے قلبی وابستگی اور والہانہ عقیدت رکھنے والے معروف
شاعر ساحر لدھیانوی(1921-1980) نے وفور ِ شوق ، ایثار اور دردمندی سے
معطربے لوث محبت کی لاحاصل جستجو کے بعد سرابوں کے صحرا میں امرتا پریتم
اور سدھا ملھوترا کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا :
محفل سے اُٹھ جانے والو تم لوگوں پر کیا اِلزام
تم آباد گھروں کے باسی میں آوارہ اَور بد نام
میرے ساتھی خالی جام
دو دِن تم نے پیار جتایا ،دو دِن تم سے میل رہا
اچھا خاصا وقت کٹا اوراچھا خاصا کھیل رہا
اب اُس کھیل کا ذکر ہی کیسا وقت کٹا اور کھیل تمام
تم نے ڈھونڈی سُکھ کی دولت میں نے پالا غم کا روگ
کیسے بنتا ، کیسے نِبھتا یہ رشتہ اور یہ سنجوگ
میں نے دِل کو دِل سے جوڑا تم نے مانگے پیار کے دام
یہ سنتے ہی احمد بخش ناصر کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اور
وہ اس بات پر زور دیتا کہ محبت میں انا اور خود غرضی کے باوجود بے لوث
جذبات و احساسات کی کمی نہیں۔اپنے ذاتی تجربات ،مشاہدات اور مطالعات کی بنا
پر وہ یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ اپنی ذات کی نفی کرنے سے رومان، پیار
اوروفاکے عنبر فشاں گلشن کو بے ثمر ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔اُس کا یہ بھی
کہنا تھا کہ اُس شخص کی سادیت پسندی کا اِس سے بڑاثبوت کیا ہو گا کہ
معاشرتی زندگی میں وہ کسی بھی ہم نفس کو قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا
اہل نہ سمجھے اور تنہا اپنی دُھن مین مگن وادی ٔ خیال میں مستانہ وار
گھومنے میں جی کا زیاں کرتا پھرے ۔
احمد بخش ناصر نے اپنی دنیا آپ پیدا کی اور محنت کر کے بلند مقام حاصل
کیا۔اُردو ادب میں وہ احسان دانش ،ساغر صدیقی ،تنویر سپرا اور اسلم کولسری
کا مداح تھا ۔اسلم کولسری (1946-2016)کے شعری مجموعے (کاش ،نیند
،برسات،نخلِ جاں ،جیون،ویرانہ،کوئی،کیف،پنچھی،اِک نظر کافی ہے )اس کے ذاتی
کتب خانے میں موجود تھے ۔ بچوں کے ادب کے فروغ کا وہ بہت بڑا حامی تھا
۔اسلم کولسری نے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لیے جو مقصدیت سے
لبریز مفید ادب تخلیق کیا وہ اسے قدر کی نگا ہ سے دیکھتا تھا ۔اسلم کولسری
کی تصانیف ’’کھنڈر میں چراغ ‘‘، ’’زخمی گلاب ‘‘ ،’’انوکھے شکاری ‘‘ اور
’’چاند کے اُس پار ‘‘کو وہ بچوں کے ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافہ قرار
دیتا تھا ۔اسلم کولسری کی وفات کے موقع پر اس نے اسے یاد کرتے ہوئے کہا کہ
اُس کے جانے کے بعد دلِ حزیں کی مثال اُس الم نصیب چڑیا کی سی ہے جو گردش ِ
ایام کے مسموم آتشیں بگولوں کی زد میں آنے کے بعد اپنی جان بچانے کی خاطر
فضا میں طوفان بادو باراں سے سر پٹختی، چیختی اور پھڑ پھڑاتی پِھرتی ہے ۔اس
موقع پر اس نے اسلم کولسری مرحوم کے یہ شعر پڑھے تو وہاں موجود سب لوگوں کی
آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں :
صرف میرے لیے نہیں رہنا
تم میرے بعد بھی حسیں رہنا
قریب آکے بھی اِک شخص ہو سکا نہ مِرا
یہی ہے میری حقیقت یہی فسانہ مِرا
احمد بخش ناصر نے مسلسل تیس برس درس وتدریس میں گزارے ۔اُس کے لاکھوں شاگرد
ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک و قوم کی
خدمت میں مصروف ہیں۔شعبۂ طب میں اُس کے شاگردوں کی بہت بڑی تعداد دکھی
انسانیت کی بے لوث خدمت میں سرگرم عمل ہے ۔جب کبھی احمد بخش ناصر کی طبیعت
ناساز ہوتی، وہ کسی مقامی معالج کے پاس پہنچتا تو اُس سے دوا علاج کے سلسلے
میں کوئی فیس یا معاوضہ وصول نہ کیا جا تا ۔ماہر معالج یہی کہتے کہ ہم جس
مقام پر پہنچے ہیں وہ سب احمد بخش ناصر کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے ۔پاکستان
میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے احمد بخش ناصر کی خدمات کو علمی و ادبی
حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔وہ اسمٰعیل میرٹھی ، نظیر اکبر
آبادی ،رام ریاض ،صوفی غلام مصطفی تبسم (1899-1978)،مسعود احمد برکاتی
،ہنری سٹیل کامگر (Henry Steele Commager) ،پال ہیزرڈ(Paul Hazard) کی اُن
گراں قدر خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا جو انھوں نے بچوں کے ادب کے
فروغ کے سلسلے میں انجام دیں۔احمد بخش ناصر کی بے ساختہ ،بر محل اور حسِ
مزاح سے لبریز گُل افشانی گفتار بچوں کو بہت پسند تھی ۔اپنی بذلہ سنجی
،ظرافت اور اخلاق و اخلاص سے وہ ہر ملاقاتی کا دِل موہ لیتا تھا ۔کم سِن
بچوں میں وہ گُھل مِل جاتا اور اُن کے ذوقِ کے مطابق اُنھیں کہانیاں اور
لطیفے سُنا کر خوش کرتا تھا ۔اپنے عزیزوں کی اولاد کے لیے وہ بچوں کے ادبی
مجلات خریدتا اوریہ مجلات بچوں کوتحفے میں پیش کرکے بہت خوش ہوتا تھا ۔احمد
بخش ناصر پاکستان میں بچوں کے ادب کے فروغ کے سلسلے میں ممتاز ادیب مسعود
احمد برکاتی (پیدائش: 15۔اگست 1933 ،وفات: 20۔دسمبر 2017)کا معتقد تھا ۔سال
1953میں ہمدرد دواخانہ کراچی کے زیر اہتما م حکیم محمد سعید کی سر پرستی
میں شائع ہونے والے بچوں کے ادبی مجلہ ’’ہمدرد نو نہال ‘‘کی ادارت سنبھال
کر مسلسل چونسٹھ برس روشنی کا سفر جاری رکھنے والے اس یگانۂ روزگار ادیب نے
بچوں کے لیے بیس کتب بھی لکھیں ۔یہ وہ اعزاز و امتیاز ہے جس میں مسعود احمد
برکاتی کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ مسعود احمد برکاتی کی درج ذیل تصانیف
احمد بخش ناصر کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں :
تراجم :
پیاری سی پہاڑی لڑکی، تین بندوقچی، مونٹی کرسٹو کا نواب ،ہزاروں خواہشیں
اردو تصانیف :
ایک کھلا راز ، جوہر قابل ،چور پکڑو ، دو مسافر دو ملک ،صحت کی الف ،ب ،صحت
کے 99نکتے،فرہنگ اصطلاحات، قیدی کا اغوا،مفید غذائیں ، وہ بھی کیا دِن تھے
بچوں کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے یہ کتابیں ہمہ وقت مستعار لی جا سکتی
تھیں ۔
ایک ادبی نشست میں اردو زبان کے نامور محقق، نقاد اور ماہر لسانیات پروفیسر
گدا حسین افضل نے جب بچوں کے ادبی مجلات کے حوالے سے ایک مختصر مضمون میں
بتایا کہ بر صغیر میں بچوں کے ادب کی تخلیق تاریخ کاایک معتبر حوالہ ہے جس
کی اہم کڑی پیسہ اخبار پریس ،لاہور سے ملتی ہے ۔یہیں سے منشی محبوب عالم نے
سال 1902میں’’بچوں کا اخبار ‘‘ شائع کر کے بچوں کو اُمید فردا سے تعبیر کیا
۔ رجحان ساز ادیب سید امتیاز علی تاج کے والد مولوی سید ممتاز علی نے
13۔اکتوبر 1909کو لاہور سے بچوں کے مقبول ادبی مجلہ ’’پھول ‘‘کی داغ بیل
ڈالی ۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر سجاد حیدر (1894-1977) بچوں کے
ادبی مجلے ’’پھول ‘‘ کی پہلی مدیرہ کے منصب پر فائز ہوئیں اوربچوں کے رسالے
’’پھول ‘‘ کی بندش (1957) تک مسلسل اڑتالیس برس یہ خدمات بہ طریق احسن
انجام دیں ۔چشمِ بینا سے متمتع نذر سجاد حیدر نے سال 1905میں کُل ہند مسلم
خواتین کانفرنس کے انعقاد کی رائے دی تا کہ معاشرتی زندگی میں مردوں کی
زیادہ شادیوں ،کم سن بچیوں کے بے جوڑ جبری بیاہ اور بے بس و لاچار عورتوں
پر کوہِ ستم توڑنے والے شقی القلب درندوں کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف
احتجاج کیا جائے ۔بر صغیر میں تانیثیت کی علم بردار خواتین ڈاکٹر رشید جہاں
(1905-1952) اورنذر سجاد حیدر نے نو آبادیاتی دور میں قارئین ادب میں عصری
آ گہی پروان چڑھانے ،ان میں مثبت شعور و آگہی کو مہمیز کرنے اور ان کی
تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنے کی جو مساعی کیں ان کی بنا پر تاریخ ہر دور
میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی ۔
احمد بخش ناصر نے اپنے دیرینہ ساتھی اور وسیع المطالعہ محقق گداحسین افضل
کی باتوں کونہایت توجہ سے سنا اور ان کی تائید کی ۔ اس کا خیال تھا کہ بچوں
کو تدریس ادب کے بجائے زندگی کے تمام معمولات ، مطالعۂ ادب اور حاصل مطالعہ
کے بارے میں سوالات پوچھنے پر مائل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ وہ نئی
نسل کو کشتِ نو سے تعبیر کرتا جس کی جڑیں اپنے آبا و اجداد کی علمی میراث
میں گڑی ہیں ۔اسی کے فیض سے نئی نسل زندگی کی تاب و تواں حاصل کرکے خزاں کے
سیکڑوں مناظر میں بھی طلوع صبح بہاراں کے ایقان سے متمتع ہے۔ اس نے نو جوان
طالب علموں کو بتایا کہ نذر سجاد حیدر کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی
خاندان سے تھا اور وہ اپنے عہد میں اُردو زبان کی ممتاز ادیبہ تھیں۔
نذرسجاد حیدر کے خاندان کے بارے میں یہ جان لینا کافی ہے کہ وہ سید سجاد
حید یلدرم کی اہلیہ اور قرۃ العین حیدر کی والدہ تھیں۔ نذر سجاد حیدر نے
اپنی تصانیف ’’ہوائے چمن میں خیمۂ گُل‘‘ ، ’’جانباز ثریا ‘‘، ’’ مذہب اور
عشق ‘‘ اور’’نجمہ ‘‘ سے اُردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدراضافہ کیاوہ
تاریخ ا دب کا اہم باب ہے ۔ بر صغیر پاک و ہند میں نو آبادیاتی دور میں
دہلی سے سال 1926میں اشاعت کا آغاز کرنے والے بچوں کے ادبی مجلے ’’پیام
تعلیم ‘‘کوبھی بہت پزیرائی مِلی ۔ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں بچوں
کے جو مجلات ذوقِ سلیم سے متمتع نئی نسل میں مقبول رہے ہیں ان میں آنکھ
مچولی ،اتالیق ،اچھا ساتھی ، اطفال ادب ،امید فردا، انوکھی کہانیاں ،بھائی
جان ، بچوں کی دنیا ، پکھیرو، تعلیم وتربیت ، ٹافی ، جنت کا پُھول ،چاند
ستارے ،چندا نگری ،ساتھی،شاہین ڈائجسٹ ،عزیز،غنچے اور کلیاں ، کارٹون،
کوثر، کلیم،کھلونا، گُل پُھول،گُل دستہ ،گہوارہ ،مِیٹی ،معصوم، نکھار،
نرالی دنیا ، نُور اور ہلال شامل ہیں ۔ بچوں کے اِن مجلات میں سے اکثر ابلق
ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب گئے اور باقی
بچ جانے والے بچوں کے گنتی کے ادبی مجلات پر سائبر ٹیکنالوجی اور بر قی کتب
کے موجودہ دور میں ایسی برق گری ہے کہ وہ بھی جان کنی کے عالم میں ہیں
۔احمد بخش ناصر کو اِس بات کا پختہ یقین تھا کہ ہر وہ مقام جہاں بچوں کا
ہجوم ہو گا وہاں بے پایاں مسرتیں ،راحتیں اور کامرانیاں ہمیشہ سایہ فگن
رہیں گی ۔ وہ بچوں سے ملتے وقت اپنی علمی فضیلت کا رعب و دبدبہ بالائے طاق
رکھ دیتا اور اپنی کشت ِنو پر اپنی عطر بیز خوش اخلاقی ،مسکراہٹوں اور
شفقتوں کے سدا بہار پھول نچھاور کر کے ان کے دل جیت لیتا تھا ۔احمد بخش
ناصر کی تحریک پر جن ممتاز ادیبوں نے بچوں کے لیے تخلیقِ ادب پر توجہ دی ان
میں محمد فیروز شاہ ، سجاد بخاری ،عبدالغنی ، سجاد حسین ، فضل بی بی ، غفار
بابر ،نورا جگنو،بُدھو موہانہ ، اسحاق ساقی ، امیر اختر بھٹی ، حاجی حافظ
محمد حیات ، شفیع بلوچ،دیوان احمد الیاس نصیب ،مہر بشارت خان ، ظفر سعید،
معین تابش ،کبیر انور جعفری ،مظفر علی ظفر ،فیض محمد خان ،اسحاق مظہر ، خیر
الدین انصاری ،عاشق حسین فائق ،محمد بخش گھمنانہ ،ظہور احمد شائق ،شفیع
ہمدم اور وافر وفوری شامل ہیں۔
احمد بخش ناصر کا ایک معمر پڑوسی رنگو جو عہد جوانی میں محکمہ ریلوے میں
قُلی تھا ۔ ضعیفی کے باعث جب اس کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں اعتدال
عنقا ہو گیا تو وہ عقل سے بھی کلی طور پر فارغ ہو گیا ۔ رسوائے زمانہ نائکہ
اور اپنی ضعیف اہلیہ ثباتی کی موجودگی میں اُس نے ایک ادھیڑ عمر کی طوائف
ڈھڈ و کٹنی ظلی سے خفیہ عقد ثانی کر لیا۔عشق اور مُشک کب چُھپ سکتے ہیں جلد
ہی ظلی نے ثباتی پر دھاوا بول دیااور رنگو پر بہت سخت مقام آ گیا ۔اس ہشت
مشت میں رنگو کی خُوب دُھنائی ہوئی ۔جب ان ناہنجار جنسی جنونی موذیوں میں
کھٹ پٹ ہوئی تو سب پڑوسی جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کرنے لگے ۔احمد بخش ناصر
کی مصالحتی
کوششوں سے معاملات سلجھ گئے ۔اس موقع پر احمد بخش ناصر نے یہ شعر پڑھ کر
رنگو کے جذبات کی ترجمانی کی :
چُھپا کے کرتے ہیں جو لوگ عقدِ ثانی
میرے خیال میں کرتے ہیں سخت نادانی
سرکاری ملازمت سے ریٹائر منٹ کے بعد احمد بخش ناصرکے معمولات میں ایک مسرور
کن انقلاب آگیا اور وہ معرفت الٰہی ، عشقِ رسول ﷺ اور روحانیت و تصوف کی
طرف مائل ہوگیا ۔ اس کا بیٹا ، بیٹی اور داماد شعبہ طب سے وابستہ تھے اور
عرب ممالک میں خدمات پر مامور تھے ۔ بعض اوقات احمد بخش ناصر سے میری
ملاقات بینک میں ہو جاتی یا صبح کی سیر کے وقت نہر کے کنارے اُسے عملی
زندگی میں فعال اور سر گرم عمل دیکھ کر میں بے پایاں مسرت کے احساس سے سر
شار ہو جاتا ۔ خلاف توقع جب گزشتہ چھے ماہ کے دوران میں وہ مجھے کہیں دکھا
ئی نہ دیاتو مجھے تشویش ہوئی ۔ میں نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کر نے
کی غرض سے اس کے پڑوسیوں کو فون کیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ احمد بخش ناصر
اپنے داماد اور بیٹی کی دعوت پر عازم حجاز ہو گیا ہے اور سفارت خانے کی
اجازت سے اسے مکہ اور مدینہ میں قیام کی اجازت بھی مل گئی ہے ۔ اس مر حلہ ٔ
زیست پر احمد بخش ناصر نے ارضِ مقدس میں اپنے قیام کواپنی خوش نصیبی پر
محمول کیا ۔
گزشتہ ماہ مجھے معلوم ہو ا کہ احمد بخش ناصر واپس پاکستان پہنچ گیا اور کسی
مقامی نجی تعلیمی ادارے نے اس ممتاز ماہر تعلیم کو مہتمم کے منصب پر فائز
کیا ہے ۔ ایک دن اچانک وہ مجھے ملنے میرے گھر آیا اور مجھے بھی اپنے تعلیمی
ادارے میں تدریسی خدمات انجام دینے پر رضامند کر نے کی کوشش کی مگر میں نے
بعض ذاتی مسائل کے باعث نجی تعلیمی ادارے میں خدمات انجام دینے سے معذرت
کرلی ۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اگر چہ جسمانی طور پر خستگی اور شکستگی
کے آثار دکھا ئی نہیں دیا مگر زندگی کا سفر تو کٹ جا تا ہے مگر آلام روزگار
کے باعث انسان کا پورا وجود کر چیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ اپنے غم کا بھید اس
نے کبھی نہ کھولااور سدا اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانا اپنا
شعار بنائے رکھا ۔ آج صبح احمد بخش نا صر کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل
دہل گیا ۔گردشِ ایام اور تقدیر کے ستم سہہ کر کیسے کیسے آسمان پیوند خاک ہو
گئے ۔ جھنگ کے نواح میں پندرہ سوسال قدیم شہر خموشاں میں جہاں اردو زبان
وادب کے ہمالہ کی غلام محمد رنگین ،بلال زبیری، غلام علی خان چین ،اﷲ دتہ
سٹینو ،امیر اختر بھٹی ،خادم مگھیانوی ،احمد تنویر،معین تابش،طاہر سر دھنوی
،رام ریاض ، آغا نو بہار علی خان ، مجید امجد ،جعفر طاہر ،مظفر علی ظفر
،شفیع ہمدم،محمد شیر افضل جعفری ، کبیر انور جعفری ،خیر الدین انصاری ،حکمت
ادیب ،سجاد بخاری ،گدا حسین افضل اور شفیع بلوچ جیسی سر بہ فلک چوٹیاں اجل
کے بے رحم ہاتھوں سے زمیں بوس ہو چکی ہیں وہاں ایک کنج تنہائی میں احمد بخش
ناصر نے اپنی الگ بستی بسالی ہے:
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں |