شادی میں لٹایا جانا ڈالر اور ریال کا

 ریل گاڑی کے رکتے ہی بہت سے لوگ ٹرین کی طرف لپکتے ہیں، اور ’’خان پور کے مشہور پیڑے‘‘ کا شور سا برپا ہو جاتا ہے۔ ریل گاڑی میں لاہور سے کراچی سفر کریں تو پنجاب کے آخر میں خان پور کے نام سے ایک بڑا ریلوے سٹیشن آتا ہے، یہاں اکثر گاڑیاں کچھ دیر کے لئے رکتی ہیں، جیسا کہ ریل کی روایت ہے، گاڑی رکتے ہی ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے، اس ہنگامہ آرائی میں وقت کی کوئی پابندی نہیں، کہ دن رات سفر میں گاڑی ہر سٹیشن پر مقررہ وقت پر پہنچتی اور مسافر اپنوں سے ملتے اور بچھڑتے ہیں۔ رات کے تین بجے بھی گاڑی رکی تو ایک ہنگامہ ضرور ہوگا، ایک تو مسافروں کے اترنے اور سوار ہونے کا اور دوسرا اشیائے خوردونوش اور مقامی شہر میں بنی ہوئی چیزیں جو روز مرہ میں کام آتی ہیں۔ خان پور میں بھی دیگر چیزوں کے علاوہ ’’پیڑے‘‘ بہت مشہور ہیں، مٹھائی کی ایک قسم ہے، کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، مشہور بہت ہے۔

گزشتہ دنوں ٹی وی چینلز نے ایک تصویر دکھائی، کہ ایک بارات جب اپنی منزل کے قریب پہنچی تودلہا والوں نے نوٹ لُٹانے شروع کردیئے۔ بات پاکستان کی کرنسی تک محدود نہ رہی، بلکہ معاملہ امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں تک پہنچ گیا، مزید بات آگے بڑھی تو ڈبہ بند موبائل فون بھی لٹائے جانے لگے۔ نوٹ اور ڈبے لٹائے جارہے تھے، تو وہاں موجود عوام (اور باراتیوں ) کی جانب سے یہ چیزیں لوٹی جارہی تھیں، یوں جانئے کہ لوٹ مچی ہوئی تھی۔ کسی کے ہاتھ ڈالر آیا تو کسی کے قابو میں ریال آیا، کوئی ڈبے پر جھپٹا تو کوئی نوٹ پر۔ کہیں چھینا جھپٹی میں ڈالر پھٹ گئے تو کہیں کوئی ڈبہ قابو کرتے زمین پر جاگر، کیا باراتی ، کیا مقامی ، کیا دلہن والے سب ہی مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگے ہوئے تھے، کوئی پاؤں تلے روندا جارہا تھا تو کسی کے کپڑے پھٹ رہے تھے، دھکم پیل کا منظر تھا، کوئی گر رہا تھا تو کوئی نوٹ کو ہوا میں ہی ’کیچ‘ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نوٹ اور موبائل لٹتے رہے اور یار لوگ لوٹتے رہے، کون جانے کتنے کروڑ روپے کی مالیت کے ڈالر، ریال اور موبائل لٹائے گئے؟

خان پور کے مشہور ’پیڑے‘ اور بارات میں لٹائے جانے والے ڈالروں، ریالوں، نوٹوں اور موبائل ڈبوں کا بظاہر آپس میں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا، مگر میڈیا والے بھی تحقیق کرکے بال کی کھال اتار ہی لیا کرتے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ بارات خان پور سے شجاع آباد جار ہی تھی، یہ شادی بابا پیڑے والے کی نسل سے کسی کی بتائی جارہی ہے۔ خاندان نے یہ دولت نہ جانے کن ذرائع سے کمائی تھی، کہ اس بے دردی سے لٹایا گیا۔ معاملہ صرف ’’پیڑے‘‘ فروخت کرنے تک ہی محدود نہیں رہا ہوگا، نسلیں باہر کی دنیا میں بھی کمائی کے لئے پہنچی ہونگی، ورنہ ڈالر اور ریال ایسے تو نہیں لٹائے جاتے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ خاندان کس قدر انکم ٹیکس ادا کرتا ہے، کہ جو لوگ شادی پر کروڑوں لٹا سکتے ہیں، ٹیکس بھی یقینا کروڑوں میں ہی ادا کرتے ہوں گے، یہ تو انکم ٹیکس والے جانیں یا کاروبار والے۔ اس سے قبل ملتان میں بھی ایسی ہی شادیاں دیکھنے میں آئیں جن میں سونے کے تاروں سے بُنے سہرے باندھے گئے، اصلی شیر بارات میں شامل کئے گئے، سنا ہے کہ اُن شادیوں کے بعد ایف بی آر والے بھی ’’جائے واردات ‘‘ پر پہنچ گئے، نہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بات قومی خزانے کی رونق بڑھانے تک پہنچی یا پھر معاملہ محکمانہ اہلکاروں کی جیبیں گرم کرنے تک ہی محدود رہا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دولت جس طریقے سے دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر جمع کی جاتی ہے، تو سمجھ نہیں آتی کہ اسے خرچ کیسے کیا جائے؟ ورنہ محنت سے کمائی ہوئی دولت کو اس طرح لٹایا جانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ خیر یہ سرمایہ ’’بابا پیڑے والے‘‘ کا ذاتی تھا، قومی خزانے میں نقب نہیں لگایا گیا تھا، اس لئے تنقید اس طرح نہیں ہو سکتی جیسے قومی خزانہ لوٹنے والوں پر ہوتی ہے، مگر جس ملک میں غربت اور افلاس ہو ، لوگوں کو تعلیم، صحت اور صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ ہوں وہاں اس قدر سرمایہ کا ضیا ع غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، متعلقہ محکموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472359 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.