بھارت اور پاکستان کی ثقافت کا اٹوٹ رشتہ
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
بھارت اور پاکستان کی ثقافت کا اٹوٹ رشتہ ✍🏻 : علی عباس کاظمی (روپوال، چکوال)
سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا اجا لا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا (حفیظ بنارسی)
1947 کا سال ہندوستان کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش موڑ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب برصغیر کی سرزمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور دو نئے ممالک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔ یہ صرف زمین کا بٹوارہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ثقافتی، سماجی اور جذباتی تقسیم تھی جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ لہو لہان سرحدیں، بے گھر ہونے والے خاندان اور چھن جانے والی شناختوں کی داستان ہر اس شخص کے دل میں گونجتی ہے جو اس دور سے جڑا ہے۔ لیکن اس زخم کے ساتھ ایک ایسی کہانی بھی جڑی ہے جو ثقافتوں کی لازوال طاقت کو بیان کرتی ہے۔ وہ ثقافتیں ۔ ۔ ۔ جو تقسیم ہوئیں مگر مکمل طور پر مٹ نہ سکیں۔ بٹوارا ۔ ۔ ۔ ہوا اور جو کبھی نہ ہو سکا۔ ہندوستان کی سرزمین ہزاروں برسوں سے مختلف ثقافتوں، زبانوں، مذاہب اور روایات کا گہوارہ رہی ہے۔ سنتھ، گنگا اور پنجاب کی دھرتی پر سنسکرت کے شلوک، فارسی کے اشعار، اور پنجابی کے لوک گیت ایک ساتھ گونجتے تھے۔ مغل، راجپوت، سکھ اور دیگر کئی تہذیبیں یہاں مل کر ایک ایسی رنگا رنگ ثقافت بناتی تھیں جو اپنی تنوع میں یکتا تھی۔ دہلی کے بازاروں میں اردو کے شعر، بنارس کے گھاٹوں پر سنسکرت منتر اور لاہور کے تہواروں میں پنجابی بھنگڑا یہ سب اس سرزمین کی مشترکہ شناخت کا حصہ تھے۔لیکن جب 1947 میں سرحدوں کی لکیر کھینچی گئی تو یہ ثقافتی دھاگے بھی تقسیم کے تیز دھارے سے کٹنے لگے۔ پنجاب اور بنگال کے دو ٹکڑوں میں بٹ جانے سے نہ صرف زمین بٹی بلکہ وہ لوک گیت، کہانیاں اور رسومات بھی تقسیم ہو گئیں جو صدیوں سے ایک ساتھ پروان چڑھتی رہیں۔ مگر کیا واقعی یہ ثقافتیں مکمل طور پر الگ ہو گئیں؟ یا ان کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ وہ سرحدوں کی لکیروں سے ماورا رہیں؟ تقسیم کے وقت لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار، اپنی زمین اور اپنی شناخت چھوڑ کر نئی سرحدوں کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہ ہجرت صرف جسمانی نہیں تھی بلکہ ایک جذباتی اور ثقافتی سفر بھی تھا۔ پنجاب کے دیہاتوں سے اٹھنے والے لوک گیت جو کبھی مشترکہ تہواروں میں گائے جاتے تھے اب سرحد کے دونوں طرف مختلف رنگوں میں سجے۔ لاہور سے دہلی جانے والے خاندان اپنے ساتھ پنجابی کھانوں کی خوشبو اور گیتوں کی لے تو لے گئے مگر وہ مٹی کی سوندھی خوشبو پیچھے چھوڑ آئے۔ اسی طرح ڈھاکہ سے کلکتہ جانے والے اپنی بنگالی شاعری اور موسیقی کو ساتھ لے گئے لیکن اپنے گھروں کی چوکھٹوں پر کندہ وہ روایات چھوڑ آئے۔یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کو اپنی شناخت کو نئے سرے سے بنانا پڑا۔ ایک پنجابی جو اب پاکستانی تھا یا ایک بنگالی جو اب بھارتی تھا اپنی ثقافت کو کس طرح اپناتا ؟ کیا وہ اپنی زبان، اپنے گیت، یا اپنی کہانیوں کو بھول جاتا ؟ نہیں ، وہ انہیں اپنے سینے میں سمو کر نئے وطن میں نئی زندگی شروع کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی امرتسر کے گلی کوچوں میں لاہور کی خوشبو اور کراچی کے بازاروں میں دہلی کی جھلک ملتی ہے۔ تقسیم کے باوجود برصغیر کی ثقافتیں مکمل طور پر الگ نہ ہو سکیں۔ زبان، ادب، موسیقی اور کھانوں نے سرحدوں کو عبور کیا اور اپنی جگہ بنائی۔ اردو جو کبھی ہندوستان کی مشترکہ زبان تھی آج بھی پاکستان اور بھارت دونوں میں پھلتی پھولتی ہے۔ فیض احمد فیض کے اشعار دہلی کے مشاعروں میں بھی گونجتے ہیں اور ساحر لدھیانوی کی نظمیں کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ بھارت میں بالی ووڈ نے پاکستانی فنکاروں کو گلے لگایا اور پاکستان میں بھارتی فلموں کے گیت گلی گلی سنائی دیتے ہیں، موسیقی نے بھی سرحدیں توڑیں۔ ۔ ۔ راگ درباری جو کبھی مغلوں کے درباروں میں گایا جاتا تھا آج بھی دونوں ممالک کے کلاسیکی موسیقاروں کی روح میں سمایا ہے۔ استاد نصرت فتح علی خان کی قوالی نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور پوری دنیا میں دھوم مچائی۔ اسی طرح لتا منگیشکر کی آواز نے سرحد پار پاکستانی دلوں کو بھی چھوا۔ یہ ثقافتی رشتے وہ پل ہیں جو تقسیم کے زخموں کو مندمل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔کھانوں کی بات کریں تو بریانی، کورما اور سموسہ جیسے پکوان سرحدوں سے ماورا ہیں۔ لاہور کی نہاری اور دہلی کی چاٹ دونوں اپنی جگہ منفرد ہیں مگر ان کی جڑیں ایک ہی مٹی سے جڑی ہیں۔ یہ پکوان صرف ذائقے نہیں بلکہ صدیوں پرانی مشترکہ تاریخ کے گواہ ہیں۔ تقسیم نے زمین اور لوگوں کو تو الگ کیا مگر ثقافتوں کو مکمل طور پر تقسیم کرنا ناممکن تھا۔ ثقافت کوئی ایسی چیز نہیں جو سرحدوں کی لکیروں سے بندھی ہو یہ لوگوں کے دلوں، ان کی یادوں اور ان کی روزمرہ زندگی میں سانس لیتی ہے۔ جب ایک پنجابی اپنے گھر میں ہیر رانجھا کی کہانی سناتا ہے یا جب ایک بنگالی اپنے بچوں کو ربندر ناتھ ٹیگور کی نظمیں پڑھاتا ہے تو وہ سرحدوں سے بالاتر ایک مشترکہ ورثے کو زندہ رکھتا ہے۔آج بھی جب ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ ہوتا ہے تو کرکٹ کے میدان میں مقابلہ ہوتا ہے لیکن اس کے بعد دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کی ثقافت کو سراہتے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت بھارت میں اور بھارتی فلموں کی پذیرائی پاکستان میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ثقافتی رشتے اب بھی زندہ ہیں۔ تقسیم کے زخم گہرے ہیں اور سیاسی سرحدیں شاید کبھی مکمل طور پر ختم نہ ہوں۔ لیکن ثقافت وہ پل ہے جو دونوں ممالک کو جوڑ سکتا ہے۔ ادب، موسیقی، فلم اور کھانوں کے ذریعے ہم ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔ جب ہم فیض کے اشعار پڑھتے ہیں یا لتا کی آواز سنتے ہیں تو ہم سرحدوں کو بھول جاتے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں یا ایک دوسرے کے کھانوں کا مزہ لیتے ہیں تو ہم اپنی مشترکہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو اس مشترکہ ورثے سے روشناس کرائیں۔ ہمیں بتانا چاہیے کہ ہماری ثقافتیں کبھی الگ نہیں تھیں اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی زبانوں، اپنے گیتوں اور اپنی کہانیوں کو زندہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔ 1947 کی تقسیم نے ہندوستان کو دو حصوں میں بانٹ دیا لیکن اس کی ثقافتی روح کو تقسیم نہیں کیا جا سکا۔ یہ ثقافتیں ہمارے دلوں میں، ہماری یادوں میں اور ہماری زندگیوں میں زندہ ہیں۔ وہ گنگا کے کناروں سے نکل کر پنجاب کی دھرتی تک اور ڈھاکہ کے بازاروں سے کلکتہ کی گلیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ثقافتیں ہیں جو بٹ گئیں مگر مٹ نہ سکیں۔ آئیے، ہم اس ورثے کو سنبھال کر رکھیں اور اسے اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کریں تاکہ یہ لازوال رشتہ ہمیشہ قائم رہے۔ ✍🏻 : علی عباس کاظمی (روپوال، چکوال)
|
|