جہالت کاخاتمہ کیوں ضروری ہے؟

ترجمہ : اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اس بات کا اعلان فرما دیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تواللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی کرو
اس بات کو کسی بھی سکول میں نہیں پڑھایا جاتا اگر پڑھایا جاتا ہے تو یہ کہ بھوک سے بچنا کیسے ہے اور نوکری کیسے حاصل کرنی ہے بڑا افسر کیسے بننا ہے اور ہمارے اوپر جو تعلیم کا خرچہ ہو رہا ہے اس کو کیسے پورا کرنا ہے اساتذہ کی تنخواہیں اور سکول میں ہونے والے اخراجات تو امریکہ اور پرطانیہ سے قرض کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں اور شروعات ہوتی ہے نسل در نسل غلامی -
کی

کبیرہ گناہوں کا ارتقاب کرنا اور یہ امید رکھنا کہ اللہ ہمیں معاف کر دے گا یہ سراسر جہالت ہے جہالت کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں چند قسمیں قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں-
1-اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنا
2- جان بوجھہ کر قرآن و حدیث میں غلط تشریح کرنا
3- اللہ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی نا کرنا
4- اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کرنا شیطانی کام کرنا
5- اللہ کے احکامات کے غلط مطلب نکالنا اور اپنا کاروبار چمکانا

1- اللہ کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنا

آج کل کے استاد اور پروفیسراور لیکچرار جن بنیادی غلطیوں کا ارتقاب کرتے ہیں اور نا دانستگی میں اور بسا اوقات جان بوجھہ کر اپنے سٹوڈینٹس کو ان شرائط پر تعلیم دیتے ہیں دنیا میں اکثریت جن لوگوں کی ہے ان کی باتوں کو ردّ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے کب کیوں کیسے جیسے بھی اکثریت کی ہی بات ماننی پڑتی ہے اور دنیا میں اکثریت عورتوں کی ہے اس لیے لیڈیز فرسٹ کے عقیدے کو ہم جھٹلا نہیں سکتے - اس طرح سے اللہ کے حکموں کے خلاف تعلیم دی جارہی ہے اور دنیا بھر میں یہی ڈگر اور ریت چل پڑی ہے کہ اس بات کی پرواہ ہی نہیں کی جاتی کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور خاص طور پر جب ان تعلیم یافتہ لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا موجودہ نظام تعلیم اللہ کے حکم کے مطابق ہے تو آگے سے یہی جواب دیا جاتا ہے سارے دینی جماعتوں والے اکابر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر پتّہ بھی نہیں ہل سکتا فیصلہ کرنا یا نا کرنا تو بڑی دور کی بات ہے اس لیے جو فیصلہ ہم کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کو اپنے فیصلے کی قیمت چاہیے ہوتی ہے کیوں کہ ہم نے جو منصب حاصل کیا ہے اس پر ہم نے لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں -

ہمیں تعلیمی اخراجات کا معاوضہ کون دے گا اگر ہم اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے جس کا ہمیں صحیح طرح سے علم بھی نہیں ہے تو ہم نوکری سے ہاتھہ دھو بیٹھیں گے اس لیے بھائی اے اللہ کے دین کی دعوت دینے والے تم کسی اور کو جاکر تبلیغ کرو ہم تو اپنی ان مجبوریوں میں جکڑے ہوئے ہیں اگر ہم تمھاری دعوت مان لیں گے تو ہم اور ہمارے بچّے بھوکے مر جائیں گے یا غربت میں گرفتار ہو جائیں گے اور ذلیل رسوا ہو جائیں گے اور قائین کرام ہم جیسے گناہگار ان تعلیم یافتہ لوگوں کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کیسے انگریزوں نے ان کو اپنا غلام بنا رکھا ہے کہ غلامی ان کی ہڈیوں میں رچ بس چکی ہے پہلے تو ہم بچّے تھے جب ہمارے والدین نے ہمیں سکول میں داخل کرایا تھا اور تعلیم کے نام پر ہم نے 10 سے 15سال تک انگریزی نظام تعلیم کی غلامی کی اور جب اس بات کا شعور حاصل ہوا کہ یہ نظام تعلیم تو غیر اسلامی ہے اور ان کے اس غیر اسلامی نطام تعلیم کی غلامی کرتے کرتے ہم نے بھی پیسے خرچ کیے ہیں وہ تو فضول ہی خرچ کیے ہیں پھر ہم جیسے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے اسلام کے مطابق جہاد کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو دنیا نا سہی ہماری آخرت تو سنور جاتی کیونکہ ہم نے اللہ کے حکم کی پیروی کی ہے

2- جان بوجھہ کر قرآن و حدیث کی غلط تشریح کرنا

ہمارے ملک میں جہاں بھی چلے جائیں فرقہ پرستی عام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علما ء و اساتذہ اور قرآن و حدیث کی غلط تشریح کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر سب کو اپنے اپنے مسلک کے مطابق جواب دینا پڑتا ہے اگر وہ اپنے مسلک کے مطابق جواب نہیں دیں گے تو آقا ناراض ہو جائیں گے آقا کون ہوتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے آقا وہ ہوتے ہیں جو دشمنوں کے زر خرید ہوتے ہیں ان کو دین کے بارے میں اتنا علم نہیں ہوتا لیکن ان کو یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ امام مسجد کو یا خطیب کو اس بات پر کیسے مجبور کرنا ہے کہ وہ اگر حق بیان کرے گا کہ ہمارے مسلک میں یہ جو مسئلہ بیان ہوا ہے یہ غلط ہے اور جو ہمارے محلّے میں دوسری مسجد ہے ان کا موقف صحیح ہے تو ان کا بسترا گول کرنے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہین کہ یہ تو غدّار اور نمک حرام ہے دوسرے لفظوں میں ان کو بھی نوکری سے ہاتھہ دھونے پڑ جاتے ہیں کہ آپ تو پہلے اتنے سالوں سے اس مسئلہ سچّ کہہ رہے تھے اب اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ساتھہ والی مسجد والوں کا موقف سچّا ہو گیا اور ہمارا موقف جھوٹا ہوگیا اس طرح سے جو بھی امام مسجد یا خطیب مسئلہ صحیح بتاتا ہے وہ اپنے ہی مقتدیوں کی نفرت کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور بندہ امام یا خطیب بنا دیا جاتا ہے-

اس طرح سے قران و حدیث کی صحیح تشریح کون بیان کرے گا یہی وہ جہالت ہے جس کو ہمارے معاشرے میں زبردستی مسلّط کیا گیا ہے کیوں کہ تعلیم ہی جہالت کی دی جاتی ہے اور اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں کرپشن کا تناسب 90 پرسینٹ ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ سکولوں میں تعلیم انگریزی نظام تعلیم کے مطابق نہیں دی جاتی کیونکہ جس طالب علم سے سوال کیا جات ہے کہ آپ کا مذہب کیا ہے تو وہ اگر اسلامی ملک سے تعلق رکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مسلمان ہوں اگر وہ یہ کہے کہ میں انگریزوں کا غلام ہوں تو اس کا علاج کرایا جاسکے کہ اس کو خبر ہو گئی ہے کہ ہم نے اسے غلام بنا رکھا ہے اور یہ تو آزادی کے بارے میں سوچنا شروع کر دے گا اور دو چار اور بندوں کو بھی آزاد کرا لے گا ہم سے
اب اس کو یا تو نشہ کا عادی بنائیں یا جرائم میں مبتلا کر دیں اور سکول سے بھی فارغ کر دیں کہ یہ تو دہشت گردون کے ساتھہ ملتا جلتا ہوگا اسی لیے تو اسے پتا چلا ہے کہ اتنے سالوں سے مجھہ پر کیا بیتی ہے اور اس سے سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے جلدی بتاو تم غلام کیسے ہو اور اس غلامی کا حل کیا ہے وہ جو طالب علم ہوتا ہے کہ مین تو تعلیم حاصل کرنے آیا ہوں مگر میرے اساتذہ مجھہ سے ایسے سوالات کر رہے ہیں جیسے میں بہت بڑا عالم دین ہوں اس طرح سے جب وہ مساجد کی طرف رجوع کرتا ہے کہ مولوی صاحب اس مسئلے کا حل کیا ہے تو مولوی صاحب بے چارے کیا کریں وہ تو جواب اپنے مسلک کے مطابق ہی دیں گے -

3- اللہ تعالٰی کی نازل کردہ شریعت کی پیروی نا کرنا

ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت زبان زد عام ہے کہ جو جہاں لگا ہوا ہے اسے لگا رہنے دو کسی سے مذہب کی بنیاد پر بحث نا کرو کیوں کہ مذہب کی بنیاد پر بحث جھگڑے کی صورت اختیا ر کر جاتی ہے اور اس طرح سے جھگڑا بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم میں سارا قصور غیر مسلموں کا ہے اور خاص طور پر داڑھی منڈھوں کا ہے مگر اسلام کی تعلیم اور جہاد کی تعلیم کا رستہ روکنے کے لیے یہ سب باتیں پھیلائی گئی ہیں کہ مذہب کی بیاد پر بحث نا کی جائے کیوں کہ ہماری لگائی ہوئی کرپشن اور بدامنی پھیلانے والی جنگ کی آگ کو بجھانے والا واحد مذہب اسلام ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اسی لیے اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ
ترجمہ : اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اس بات کا اعلان فرما دیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تواللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی کرو
اس بات کو کسی بھی سکول میں نہیں پڑھایا جاتا اگر پڑھایا جاتا ہے تو یہ کہ بھوک سے بچنا کیسے ہے اور نوکری کیسے حاصل کرنی ہے بڑا افسر کیسے بننا ہے اور ہمارے اوپر جو تعلیم کا خرچہ ہو رہا ہے اس کو کیسے پورا کرنا ہے اساتذہ کی تنخواہیں اور سکول میں ہونے والے اخراجات تو امریکہ اور پرطانیہ سے قرض کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں اور شروعات ہوتی ہے نسل در نسل غلامی -

یہ سب چیزیں ناصرف سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ دوسرے اداروں میں بھی سب کو اسی بات کا رونا لگا رہتا ہے کہ ہم بیرونی قرضہ جات سے نجات کیسے حاصل کریں اور بڑھتی کرپشن اور بے روزگاری کا خاتمہ کیسے کریں کیوں کہ ہم نے اپنی نوکری اور کاروبار بچانے کے لیے اللہ کے نازل کردہ دین کی پیروی کرنے والوں کو بے روزگار بنایا ہے اور ان کو تعلیم سے نااہل قرار دیا ہے نوکری سے برخاست کیا ہے اب وہ کسی بھی کام میں کامیاب نا ہو سکیں اس لیے بیرونی قرضہ جات کو استعمال کیا جاتا ہے اور انگریزی نظام تعلیم کو جو کہ اّوّل سے آخر تک جہالت ہی جہالت ہے اس کو وہ مجبور ہوکر قبول کرے اگر نہیں کرے گا تو اپنے ہی بہن بھائیوں میں اور بیوی بچّوں میں اور رشتہ داروں میں کریمینل یا نفسیاتی مریض قرار پا جائے اور چاہے زندگی بھر روتا رہے اسلام اور انگریزی تعلیمی نظام میں یہی تو فرق ہے کہ اسلام میں جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے کہ غلامی کی زندگی سے نکلنا کیسے ہے اور ترقْی کرتےکرتے سینئر سٹیزن کیسے بننا ہے ایک ایماندار اور غیرت مند انسان کیسے بننا ہے اور پھر حکمرانی کے قابل کیسے بننا ہے اور انگریزی نظام تعلیم میں یہی چیز الٹ ہے کہ ایک نیچرل ایماندار مسلمان آزاد انسان سے ایک انگریزوں کا غلام کیسے بننا ہے اور اللہ کا حکم کہ اگر اللہ کے عذاب سے بچنا ہے تو اللہ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی کرو ایسا حکم ہو جائے جیسے اللہ نے نازل کیا ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے پیغمبر نے خود گھڑا تھا کہ عمل کرو نا کرو کوئی فرق نہیں پڑے گا اللہ تعالی تو غفور الرحیم ہے 70 ماوں سے زیادہ محبّت کرتا ہے وہ معاف کر دے گا لہٰذا لائف انجوائے کرو انگریزوں کی غلامی میں زیادہ مسئلہ اگر آخرت کا ہے تو آخرت میں اللہ سے کہہ دینا کہ ہمیں انگریزوں نے غلام بنا رکھا تھا اس لیے ہم مجبور تھے تو اس طرح کے بہانے سے اللہ کا عذاب ٹل جائے گا کیوں کہ انگریزبھی شیطان کی طرح یہ کہہ دیں گے کہ مسلمان تو یہ تھے فرض تو ان کا تھا کہ ہمیں مسلمان کرتے-
---------------------جاری ہے

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.