لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مسٹر جسٹس خالد محمود خان
نے 2016YLR383 کے مطابق وراثت کے حوالے سے ایک لینڈ مارک فیصلہ کیا۔ مقدمے
کا عنوان محمد صدیق وغیرہ بنام مسماۃ عائشہ بی بی ہے جس کا فیصلہ 2017/2002
نمبر Civil Revision میں کیا۔ صدیق اور مریم بی بی کی وراثتی زمین تھی جو
اُن کے والد شگتا اور والدہ راجی کی جانب سے تھی۔ یہ وراثتی زمین د و د
یہات میں تھی ۔ چک نمبر 23 بوپال تحصیل پتوکی اور بونگہ سوڈی وال تحصیل
دیپالپور ۔ دعویٰ میں وراثتی زمین کی تفصیلات مو جود ہیں۔ انتقال زمین کے
مطابق مسماۃ مریم کے حق میں 230 اور 269 نمبر انتقال دونوں دیہات میں ہوا۔
مسماۃ مریم اپنے پیچھے ایک بیٹا منشاء اور دوبیٹاں اور خاوند رمضان کو وارث
چھوڑ کی فوت ہوئی۔ منشاء 20-9-1986 کو وفات پاء گیا۔ ریسپانڈنٹس مسماۃ
عائشہ بی بی وغیرہ منشاء کے قانونی وارث ہیں۔ یہ لوگ گاؤں سوڈی وال میں
رہتے تھے۔ اور یہ لوگ کبھی بھی چک نمبر 23 تحصیل پتوکی نہیں گئے۔رمضان بھی
بونگہ سوڈی وال کا رہائشی ہے۔
ریسپانڈنٹس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی والدہ مریم جو زمین چک نمبر 23
تحصیل پتوکی میں ہماری وراثت کے طور پر چھوڑ کر فوت ہوئی اُس میں سے اِن کو
اُنکا وراثتی حصہ نہیں ملا۔ مریم بی بی چک نمبر23 تحصیل پتوکی میں1957 میں
وفات پاء گئی۔چک نمبر 23 تحصیل پتوکی والی وراثتی زمین کے متعلق حقیقت اِن
کے سامنے کبھی بھی نہ آئی اور نہ ہی ریسپونڈنٹس کے علم میں تھا کہ وہاں اِن
کی وراثتی زمین ہے۔ اِن کے نانا محمد صدیق جو کہ پٹیشنر نمبر ایک ہے نے
زمین اپنے دوبیٹوں خالد علی اور ظارق علی کے نام ٹرانسفر کردی۔ دعویٰ دائر
کرنے سے کچھ روز پہلے رسپونڈنٹس کو بشیر احمد ولد حکیم عطا ء سے معلوم ہوا
کہ کہ چک نمبر23 تحصیل پتوکی میں مریم بی بی کی وراثتی زمین ہے۔رسپونڈنٹس
نے اپنے طور پر چک نمبر23 تحصیل پتوکی جا کر حقائق معلوم کیے۔اور یہ دعویٰ
دائر کر دیا۔
پٹیشنرز نے کیس لڑا اور عدالت میں جاکر یہ کلیم کیا کہ مرحومہ مریم بی بی
کی کوئی اولاد نہ تھی اور یہ کہ ریسپاونڈنٹس نمبر سات اور آٹھ مریم کی
بیٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی ریسپاونڈنٹس نمبر ایک سے چھ تک قانونی ورثان ہیں۔
فریقین نے عدالت میں اپنا اپنا جو موقف عدالت میں جمع کروایا تھا۔ اُس کی
بنیاد پر عدالت نے مندرجہ ذیل ایشو فریم کیے۔
1 ( آیا کہ دعویٰ جو کہ دائر کیا گیا ہے وہ جھوٹا ہے اور اِس کو خارج کر
دینا چاہیے؟۔
2 ( کیا دعویٰ زائد المعیاد ہے؟
3) آیا کہ مدعیان نے مُدعا علیہان کو صرف ہراساں کرنے کے لیے دعویٰ دائر
کیا ہے اور مدعیان آیا کہ سیکشن35-A , سول پروسجر کوڈ ( CPC) کے تحت ہرجانہ
وصول کرنے کے حق دار ہیں یا نہیں؟
(4 آیا کہ مُدعیان نے وجہ کے دعویٰ دائر کیا۔ آیا کہ اُن کو اِس دعویٰ کو
دائر کرنے کا حق نہ تھا؟
(5 آیا کہ اراضی انتقال نمبر 329 مورخہ8-1957 20- جس کا تعلق مسماۃ مریم بی
بی چک نمبر 23
بوپال سے ہے اور موجودہ انتقال اراضی نمبر 139 مورخہ 24-5-1958 گاؤں بونگہ
سوڈی وال تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑی جھوٹی ہیں اور حقائق کے منافی ہیں؟
6 ( کیا مریم بی بی کو 26 کنال اور19 مرلے زمین کا مالک بمطابق ا نتقال
نمبر 230 قرار دیا گیا تھا اور انتقال نمبر 269 سے زمین ایک کنال ا ور
اٹھارہ میں سے ہے چار مرلے کا مالک قرار دیا گیا تھا۔
(7 کیا انتقالِ اراضی نمبر 329 مورخہ20-8-1957 کو غلطی سے الاٹ ہوا
8 ) کیا مدعیان کو ڈگری ملنی چاہیے جس ڈگری کی انھوں نے عدالت سے استدعا کی
ہے۔
دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی دستاویزی اور زبانی شہادتیں کروایں۔ ٹرائل کورٹ
نے29-03-2000 کو دعویٰ خارج کرنے کا حکم صادر کردیا۔ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ
اِس بنیاد پر دیا کہ کہ یہ دعویٰ زائد المعیاد ہے۔
بعد ازاں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ۔
اپیلٹ کورٹ نے 2-7-2002 کو دعویٰ ڈگری کر دیا موجود ہ پٹینشرز اِس کیس کے
خلاف سول نگرانی میں لاہور ہائی کورٹ دعویٰ لائے۔ پٹیشنرز کے وکیل صاحب نے
اپنے دلائل میں کہا کہ ڈگری جو ریسپونڈنٹس کے حق میں ہوئی ہے یہ اِس وجہ سے
ہے کہ عدالت نے کیس درست طور پر نہیں پڑھا۔انتقال اراضی والا معاملہ پٹیشنر
کے حق میں تھا اور یہ بات منشا کو معلوم تھی۔اِس کے باجود Suit Land کے
معاملے کو کبھی بھی چیلنج نہیں کیا۔اپیلٹ کورٹ اِس اہم نکتے کو سمجھنے میں
نا کام رہی اور دعویٰ ڈگری کر دیا۔فاضل وکیل نے اپنی بات پر زور دئے کر کہا
کہ وراثت میںWaiver اور Acquiescence لاگو ہوتا ہے۔
ریسپونڈنٹس کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ فیصلہ اور ڈگری درست ہے۔
ٹرائل کورٹ نے فیصلہ صرف زائد المعیاد کی بنیاد پر دیا تھا۔ اور انتقال
اراضی غیر قانونی ہے اِس بابت کچھ نہ کہا ہے۔اراضی کے انتقال کے حوالے سے
ٹرائل کورٹ کا فیصلہ فائنل حثیت کا حامل ہے۔ وراثت میںLimitation کا اطلاق
نہیں ہوتا۔ جب ریسپونڈنٹس کے علم میں آیا کہ پٹیشنرز نے اُن کے خلاف فراڈ
کیا ہے تو ریسپونڈنٹس نے انتقال اراضی کے فراڈ کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔
فاضل وکیل نے PLJ2011SC44 اور2000YLR 621 کا حوالہ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے
دونوں کی جانب کے دلائل سُنے۔
فاضل جج لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس جناب خالد محمود خان نے فیصلے میں لکھا
کہ مسلم وراثتی قانون کو زائد المیعاد ہونے کی بناء پر کسی صورت بھی مسترد
نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا حق وراثت کا قانون اﷲ پاک کا دیا ہوا قانون
ہے۔اِس لیے اسلام کے حق وراثت کے قانون کو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون پر
فوقیت حاصل ہے۔
"It is settled law that right of succession of Muslim cannot be defeated
by law of limitation, the islamic law of succession is divine law and
has a
preference on man made law. "
جب جا ئیداد کا ملک فوت ہوتا ہے تو اُس وقت فوت ہونے والے کی وراثت کھل
جاتی ہے۔اور جیسے ہی جائیداد کا مالک فوت ہوتا ہے تو اُس وقت اُس کے وارثان
اُس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے اپنے اپنے مخصوص حصے کے مالک بن جاتے ہیں۔جس
زمین پر جھگڑا ہے اُس کا انتقال اِس بناء پر کیا گیا تھا کہ مریم بی بی کی
کوئی اولاد نہ ہے۔ یہ بات غلط ثابت ہوئی ۔ جبکہ مریم بی بی کے وارثان میں
اُس کی دو بیٹیاں ایک بیٹا اور خاوند شامل تھے جو کے سوڈی وال میں تھے۔
پٹیشنرز نے فراڈ سے انتقال اراضی کروایا تھا۔ اراضی کے انتقال کی
Limitation ، اُس دن شروع ہوتی ہے جس دن فراڈ کا ریسپونڈنٹس کو پتہ چلا۔
اِس بات پر ریسپونڈٹنس زور دے کر کہ چکے ہیں کہ دعویٰ دائر کرنے سے چند روز
پہلے اُنھیں پتہ چلا اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دعویٰ معیاد کے اندر ہی ہے۔
یہ مسلمہ اصول ہے کہ فراڈ تمام ایسے اقدامات کو ختم کردیتا ہے جو اپنے طور
پر درست بھی کیے ہوتے ہیں۔ اِس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ پٹشنرز ڈگری ہونے
کے حوالے سے کسی قسم کے بھی غیر قانونی اقدام کو ثابت نہیں کر سکا۔ اِس لیے
پٹینشرز کی سول نگرانی کو خاج کیا جاتا ہے۔ |