دنیا کی زندگی میں ہر آدمی مختلف انسانی رشتوں میں تسبیح
کے دانوں کی طرح پرویا ہوا ہوتا ہے۔ ان رشتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا
سکتا ہے۔ ایک وہ رشتے ہوتے ہیں جو قدرت کی طرف سے عطا ہوتے ہیں۔ مثلا
والدین ، اولاد اور ان کے متعلقات کے رشتے ناطے۔ دوسرے رشتے وہ ہوتے ہیں جو
انسان شادی بیاہ، کاروبار یا سیر و سیاحت کے ذریعے خود بناتا ہے۔ ان تمام
رشتوں میں سے والدین اور اولاد کے رشتے کو جو تقدس اور اہمیت حاصل ہے وہ
اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن پاک نے والدین کی عظمت کو بیان کیا اور اولاد کو ان
کی خدمت کے آداب سکھائے۔(سورہ بنی اسرآئیل: آیت نمبر 23-24) میں اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں : "اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا
کسی کی عبادت مت کرو، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان میں سے ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو تم ان کو اُف بھی مت کہو، اور نہ ان پر
خفا ہو، اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے ادب، عزت اور نرم لہجے میں بات چیت
کرو، اور ان کے لیے اطاعت کا بازو محبت سے بچھا دو، اور کہو اے پروردگار!
تو (ان کی کمزوری میں) ان پر ایسا ہی رحم فرما، جس طرح انہوں نے میرے بچپن
میں مجھے مہربانی سے پالا پوسا ہے" اسی طرح والدین کو اولاد کی بہترین
تعلیم تربیت کر کے اللہ کا شکر بجا لانے کی تلقین کی گئی۔ جب تک انسان
خداداد نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے، وہ انہیں معمولات زندگی شمار
کرتاہے۔ لیکن جب کوئی نعمت چھن جائے یا آنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو پھر اس
کی اہمیت اور قدر و منزلت کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ یہ بھی قانون قدرت ہے
کہ ہر چیز فانی ہے اور بقائے دوام ذات رب العالمین کو حاصل ہے اور یا اسے
جو اس کی پاک ذات و صفات کا مظہر اتم بن جائے۔ جو بھی دنیا میں آیا اسے ایک
نہ ایک دن جانا ہی ہے۔ خصوصا والدین میں سے کسی کا سایہ جب سر سے اٹھتا ہے
تو آدمی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ کریم النفس ہستیاں جو ان تھک محنت اور
مشقت کرکے اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہیں۔ خود
تکلیفیں برداشت کرکے بھی ہمہ وقت اولاد کے سکھ چین کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔
ان کے احسانات کا کما حقہ صلہ تو ممکن ہی نہیں۔ البتہ دنیا کی زندگی میں ان
کی فرمانبرداری، خدمت اور اطاعت شعاری اولاد کیلئے سعادت ہے جو اسے ہر حال
میں بجا لانی چاہئے۔ آج کے جدید دور میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ تہذیب
اسلامی کی برکات سے منور گھروں اور معاشروں میں والدین کی خدمت کو بڑی
اہمیت حاصل ہے۔ لیکن تہذیب حاضر کے دلدادہ اور تہذیب اسلامی سے نا آشنا
سماج میں ان رشتوں کی اخلاقی اقدار کا تقدس پامال ہو کے رہ گیا ہے۔ اسلامی
نکتہ نظر سے موت کے بعد بھی تا حیات اولاد پر والدین کے حقوق برقرار رہتے
ہیں۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشنی میں نیک اولاد اک
صدقہ جاریہ ہے۔ صالح اولاد اپنی حیثیت کے مطابق حسن کردار کے ساتھ ساتھ
والدین کیلئے دعائے مغفرت، تلاوت قرآن اور صدقہ و خیرات کرکے ان کی اخروی
زندگی کی بہتری اور درجات کی بلندیوں کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ یہ بھی فطری
ضابطہ ہے کہ درد کا حقیقی احساس اسی کو ہی ہوتا ہے جسے چوٹ لگتی ہے۔ہم نے
زندگی میں بے شمار لوگوں کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بہت سے دوست احباب کو
یہ بھی لکھا اور کہا کہ "ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں"۔ لیکن والد کی
جدائی کی حقیقی کیفیت کا اندازہ راقم الحروف کو بھی اس وقت ہوا جب برطانیہ
کی 12 دسمبر 2017 کی یخ بستہ رات میں ڈیڑھ بجے فون کی گھنٹی بجی۔ اطلاع ملی
کہ ابھی ابھی والد گرامی اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی طرف کوچ کر گئے
ہیں۔ خبر تھی کہ کوہ گراں جو کسی نے دل پہ رکھ دیا ہو۔ آنکھیں پرنم اور دل
شکستہ۔ دل ہی دل میں سوچتا کہ کیا اس وقت نے بھی آنا تھا؟ اللہ کا لاکھ
لاکھ شکر اور فضل کہ بحیثیت مسلمان صبر، شکر اور تو کل جیسی لازوال نعمتیں
ہمیں عطا ہوئی ہیں۔ ورنہ تو یہ حوادثات زمانہ انسان کے اوسان خطا کرکے نہ
معلوم کس ذہنی کیفیت میں مبتلا کردیں۔ اپنے آپ کو سنبھالا دیا۔ اہل خانہ کو
بھی صبر کی تلقین کی۔ قلب وذہن کے گوشوں میں جاگزیں "دنیا کی بے ثباتی اور
ایک نہ ایک دن ہر حال میں اپنے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کی بارگاہ
میں حاضر ہونے" کے مضبوط عقیدے نے کمر ہمت بندھائی۔ اس موقع پر اسلام کی
نعمت لازوال کے ان زریں اصولوں کی حد درجہ اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ جو بھی پیدا ہوا اسے زندگی کے شب و روز تو گزارنے ہی ہوتے
ہیں۔ لیکن خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کا ہر آنے والا سانس ذکر الہی کی لذت سے
آشنا ہوتا ہے۔ جن کے دلوں کی دھڑکنوں میں حب الہی اور عشق رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے دیپ روشن ہوتے ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے فکر
آخرت سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ اللہ کریم کا بے حد و حساب کرم کہ میرے والد
گرامی حضرت مولانا غلام جیلانی رحمة اللہ علیہ تا دم آخریں اللہ کریم کی
یاد اور رسول محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں زندہ رہے۔ آپ علوم
اسلامیہ پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو ادب پر عبور حاصل
تھا۔ اقبالیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔اپنے وقت کے شہرہ آفاق اساتذہ کے
سامنے ذانوئے تلمذ تہہ کیے اور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد اور
محدث کبیر علامہ سید ضیاء الدین شاہ (والد گرامی مصلح امت حضرت سید حسین
الدین شاہ صاحب دامت برکاتہم) نور اللہ مرقدہم جیسی ہستیوں سے علمی فیض
پایا۔ آپ چاروں سلاسل طریقت سے فیض یافتہ تھے۔ البتہ سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ
اور اویسیہ کے فیوض و برکات و اشغال سے آپ کے وجود کا انگ انگ ذاکر تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 1974 میں جب گولڑہ شریف میں حضرت بابو جی رحمة اللہ علیہ کا
وصال ہوا تو ہم سب بھائیوں کو ساتھ لیکر گئے۔ فرما تے تھے کہ حضرت کی نماز
جنازہ میں شرکت تمہاری اخروی نجات کا سبب ہوگی۔ آپ ہر جمعہ المبارک کے بعد
اجتماعی محفل ذکر کرواتے۔ ہر روز بعد از مغرب آپ کے "زاویہ ذکر" میں مجلس
ذکر ہوتی۔ دور دور سے لوگ آکر اس میں شرکت کرتے۔ ہزارہا وہ نوجوان ہیں جو
آپ کی صحبت اور شاگردی کی وجہ سے تہجد گزار ہیں اور پاک باز زندگی گزار رہے
ہیں۔ آپ اپنے حلقہ ذکر میں پردے کے پیچھے سے عورتوں اور بچیوں کو ہر جمعہ
کے دن ذکر کراتے اور خصوصی توجہ فرماتے۔ ہمہ وقت آپ کی زبان ذکر الہی اور
درود و سلام بحضور شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تر بہ تر
رہتی۔ میرے چھوٹے بھائی آصف محمود کو آخری وقت کانپتے ہوئے ہاتھوں سے والد
گرامی نے گھر میں آنے والے مہمانوں کی قدر دانی کے حوالے سے فارسی کا یہ
شعر لکھ کے دیا۔۔۔
ز راہ مخلصی ہر کہ بے منت قدم سازد
بہ ہر گامے کہ بر دارد ازو پائے ز ما چشمے
یعنی( جو بھی اخلاص کے ساتھ بغیر احسان جتلائے (گھر میں) قدم رکھے۔ جہاں اس
کے قدم ہوں وہاں ہماری آنکھیں نچھاور ہونی چاہئیں۔
آپ جب بھی بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں کچھ نذرانہ عقیدت پیش
کرتے تو فرمایا کرتے۔
ڈرتا ہوں بات کہہ کے کہ سوئے ادب نہ ہو
آگائے رسم و راہے محبت نہیں ہوں میں
بیٹوں کو نصیحت کے طور پر علامہ اقبال رح کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری
دعا ہے کہ جن کے والدین بہ حیات ہیں انہیں عمر دراز نصیب ہو۔ اللہ کریم
اولاد کو ان کی خدمت کی توفیق دے اور جو وصال کرگئے انہیں جنت الفردوس میں
اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین |