ہر سو خاموشی،،،جیسے کوئی نوہا پڑھ رہا ہو،،،اداسی ایسی
کہ جیسے قبر کی
مٹی ابھی بھی گیلی ہو،،،روتی ہو اپنے پیاروں کو،،،
پاؤں تلے آتے ہوئے،،،ہرے بھرے درختوں،،،کے اب زرد پتے،،،جو ہوا کے ،،،
جھونکوں کے ساتھ زمین بوس ہوئے جاتے ہوں،،،بنا کسی پکار کے،،آہ کے
کسی کے پیروں تلے آ کر اک مدھم سی،،،ہچکی لے کر ،،،ہمیشہ کیلئے
آنکھیں موندھتے ہوئے،،،بس اک ہی احساس،،،دم توڑتا ہوا،،،جیسے روندھنے
والے کو پتا بھی نا چلے،،،
اور وہ کچلے جائیں،،،کسی بے زبان کی طرح ،،،
پھر کوئی نرم سی ہوا کا جھونکا جو انہیں بکھیر دے،،،جیسے ٹوٹے ہوئے،،،
زخمی سے خواب،،،
میں نے اپنے اندر جھانکا،،ہمیشہ سستا سودا کیا،،خاموش سی کسی اندھیری
رات جیسا سکوت،،،خود کو ٹٹولتا ہوا،،،
جیسے کسی اندھیری رات کے بعد کوئی نابینا سا سویرا،،،
میرے ہمدم کچھ پل اور سہی
تم ہم پر ہنس لو
ہم نا ہوئے تو کس پر ہنس پاؤگے
کب تک یہ بوجھ اپنی روح پر رکھ پاؤگے
دیکھو آج نہیں تو کل ضرور پچھتاؤ گے
مگر ڈھونڈنے سے بھی ہمیں نہ ڈھونڈ پاؤ گے
رات کے اس پہر ٹرین نے وِسل دی،،دسمبر کی زرد شام ،،ٹٹولتے ٹٹولتے رات میں
ڈھل گئی،،،
سٹیشن سائیں سائیں کررہا تھا،،ٹرین کی چھک چھک نے آخری ہچکی لی اور
وہ اندھیرے کی نظر ہوگئی،،،
اسے کوئی لینے نہیں آیا تھا،،،‘‘بیٹا میں آجاؤں گی،،،رات کے اس پہر گھر
کیسے
آؤ گے،،،،اب تو اس آواز کا سایہ بھی کہیں دور نکل گیا تھا،،،
ٹھنڈ نے کسی برے وقت کی طرح اسے جکڑ لیا،،،وہ کھانس کھانس کے آدھ موا
ہوگیا،،،
بس بے حس سا احساس ،،،جس میں کوئی احساس نہ تھا،،،کھانسی نے اسے
رات میں تارے دیکھا دئیے،،،اس کی آنکھوں نے سفیدسے بہت سے مرغولے
بنتے دیکھے،،،
پہلے ماں سے مل لیتا ہوں،،،وہ انتظار کرتی ہوگی،،،وہ اس شہر میں چلاگیا
جہاں سکوت تھا،،،سکون تھا،،،
سب خاموشی سے سو رہے تھے،،،کسی نے اسے ٹوکا نہیں،،،‘‘میرے صحن
سے کیوں گزر رہے ہو‘‘،،،‘‘کھانسو نہیں‘‘،،
بس کوئی بھی،،،کچھ بھی نہیں کہتا تھا،،،سب خاموش تھے،،،اس کی ماں بھی
خاموش،،،مٹی ابھی بھی گیلی تھی،،،
شاید دن میں زرد ہو جاتی ہو،،،شام کی طرح،،،،
|